ایازامیرپر حملہ
تحریر:انور ساجدی
ایازامیر ایک مناسب سے آدمی ہیں صحافت کا وسیع تجربہ ہے دوستوں کے دوست اور ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہیں لارنس کالج گھوڑا گلی سے تعلیم حاصل کی وہیں سے فوج میں بھرتی ہوگئے لیکن کپتان سے آگے نہ چلے طبعیت لاابالی تھی اس لئے کسی ایک جگہ ٹھہر کر کام نہیں کیا نوازشریف کے عروج کے زمانے میں ن لیگ کے ٹکٹ پرچکوال سے ایم این اے بنے لیکن کچھ مہربانوں نے ایک اخلاقی اسکینڈل میں پھنسا دیا جس کے بعد وہ سیاست سے آؤٹ ہوگئے آج کل دنیا ٹی وی کے ایک پروگرام میں شرکت کرتے ہیں جس کا نام تھنک ٹینک ہے وہ کافی عرصہ سے سیاسی رہنماؤں پر تنقید کرتے چلے آرہے ہیں پہلے ن لیگ کے کرپشن کو ہدف بنایا تاہم 2018ء کے بعد انہوں نے تحریک انصاف پر بھی اپنے انداز میں تنقید کا سلسلہ شروع کردیا تاہم عمران خان کے آخری دنوں میں ان کی ملاقات کروائی گئی جس کے بعد ان کا انداز بیان بدلنے لگا حال ہی میں اسلام آباد بار نے ”رجیم چینج“ کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس کے مہمان خصوصی عمران خان تھے جبکہ ایاز امیر کو بھی اس میں مدعو کیا گیا تھا انہوں نے ایک دھواں دھار تقریر کی جہاں کپتان کی خوب خبر لی وہاں کچھ نازک حلقوں کو بھی چھیڑ دیا خیال یہ تھا کہ ایک سابق فوجی اور نامور تجزیہ نگار کی حیثیت سے انکو لبرٹی دی جائے گی اور ان کی باتوں کو ایک بزرگ کی نصیحت سمجھ کر درگزر کردیاجائیگا لیکن ایسا نہ ہوا جمعہ کی رات کو وہ لاہور میں دنیا ٹی وی کے دفتر سے باہر نکلے تو کچھ لوگوں نے ان کا راستہ روکا انہیں گھیسٹ کر گاڑی سے باہر نکالا گیا انہیں زمین پر لٹاکر تشدد کا نشانہ بنایا گیا کپڑے پھاڑ دیئے گئے اس کارروائی کے بعد نامعلوم لوگ چلے گئے واقعہ کے بعد وزیراعظم وزیرداخلہ اور آئی جی پنجاب نے اس کا سخت نوٹس لیا بلکہ پنجاب کے وزیرداخلہ تارڑ صاحب ان کے پاس ٹی وی کے دفتر چلے گئے لیکن آخری اطلاعات تک واردات کرنے والے قانون کی گرفت سے آزاد تھے۔
ایازامیر پر حملہ ضرور ان کی تقریر کا شاخسانہ لگتا ہے کیونکہ اس تقریر کے سوا انہوں نے اور کوئی ایسا کام نہیں کیا تھا کہ ان کی عزت تارتار کی جائے اپنی تقریر میں انہوں نے دوشخصیات کو نشانہ بنایا تھا ایک تو عمران خان تھے حالانکہ آخر میں انہوں نے یہ فرمان جاری کیا تھا کہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے عمران خان آخری امید ہیں بظاہر تو یہ بات بنتی نہیں کہ عمران خان کوئی ایسا قدم اٹھائیں لیکن کچھ کہا نہیں جاسکتا کیونکہ عمران خان کے ایسے مشیر اور امتی ہیں جو ان کی ذات بابرکات کو تنقید سے بالا تر سمجھتے ہیں اور وہ اپنے لیڈر کیخلاف کوئی بھی بات برداشت کرنے کو تیار نہیں حالانکہ ان کا لیڈر ہر ایک کی بے عزتی کرنے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں انہوں نے الزام بازی اور دشنام طرازی کو اپنی سیاست کا لازمی حصہ بنادیا ہے ان کے اس انتہا پسندانہ طرز عمل کی وجہ سے نہ صرف معاشرہ تقسیم ہے بلکہ مخالف کارکن ایک دوسرے کو دشمن سمجھ کر حد سے گزرجانے کوعار نہیں سمجھتے اللہ عمران خان کو سلامت رکھے وہ بالآخر ریاست کو خانہ جنگی کی طرف لے جائیں گے اور عوام کو باہم دست بگیربیان کردیں گے کیونکہ وہ اپنے سوا کسی کو کسی قابل نہیں سمجھتے ان کا یہ عرز عمل مسولینی ہٹلر اور اسٹالن سے مشابہ ہے وہ نعرہ تو ریاست مدینہ کالگاتے ہیں لیکن اس کی آڑ میں شخصی آمریت قائم کرنا چاہتے ہیں اگر پرانا دور ہوتا تو گیلاتیتر اوریا خان لال ٹوپی والے شہباز گل اور ان کے دیگر پیروکار انہیں بادشاہ سلامت بنانے کی تجویز ضرور پیش کرتے لیکن فی زمانہ دنیا میں بادشاہوں خاص طور پر کسی نئے بادشاہ کی گنجائش نہیں ہے 60برس پہلے نیازی قبیلہ کے لوگ میانوالی میں نواب آف کالاباغ کے مزارع ہوا کرتے تھے پھر انہوں نے مولانا عبدالستار خان نیازی کی قیادت میں ”بغوچی محاذ“ بناکر بغاوت کردی اور مزارع سے مالک بن گئے یہ قدرتی بات ہے کہ ہاری جب زمیندار بن جائے تو وہ خود کو بڑی چیز سمجھنے لگ جاتے ہیں جس طرح کہ خاندان آہینہ کے دور میں میاں صاحب نے آئین میں ترمیم کرکے خود کو امیرالمومنین بنانے کی کوشش کی تھی جو ناکام رہی اگرچہ عمران خان بادشاہ تونہیں بن سکتے لیکن صدارتی نظام لاکر صدر پوٹن ژی جن پنگ طیب اردگان اور خامنہ ای ضرور بن سکتے ہیں۔انکو بہت رنج ہے کہ یارلوگوں نے ان کا پلان چوپٹ کردیا وہ بہ یک وقت چہار اطراف اپنے مخالفین سیاسی وغیر سیاسی دشمنوں سے لڑرہے ہیں ہوسکتا ہے کہ ایاز امیر کی تنقید کو گستاخی سمجھ کر ان کے نادان فدائی پیروکاروں نے یہ کارروائی ڈال دی ہو جہاں تک دوسری شخصیت کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں لب کشائی کرنا یا شک ظاہر کرنا چھوٹے لوگوں کے بس کا کام نہیں ہے۔
چنانچہ ماضی میں جو کچھ حامد میر،ابصارعالم،اسد طور،عمرچیمہ اور مطیع اللہ جان کے ساتھ ہوا یہ واقعہ بھی گمنامی میں چلا جائیگا اور ملزمان کبھی پکڑے نہیں جائیں گے کیونکہ ایسی کارروائی ڈالنے والے بڑے تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور وہ کوئی ثبوت نہیں چھوڑے لہٰذا ایاز امیر کو بھی صبروتحمل سے کام لینا چاہئے اور یہ ادراک کرنا چاہئے کہ ان کے ساتھ تو پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے شاباشی دیں بلوچستان اور وزیرستان والوں کو یہ بے چارے روز نشانہ بنتے ہیں نہ میڈیا ان کیلئے آواز اٹھاتا ہے اور نہ کوئی حکومت نوٹس لیکر تحقیقات کا حکم دیتی ہے ایازامیر پر حملہ دراصل ایک تنبیہ اور وارننگ ہے جس کا مقصد الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا سے تعلق رکھنے والے تمام چیدہ چیدہ لوگوں کو یہ پیغام پہنچایا ہے کہ اتنی بھی آزادی نہیں جو آپ لوگ سمجھ بیٹھے ہیں یہ جو عمرانی جھتہ ہے میڈیا میں یہ ہرروز اور ہرلحاظ معاشرے کے ہر شعبہ میں فساد برپا کرنا چاہتا ہے ان کے وی لاگ اور تبصرے دیکھیں تو یہ بڑے جانثار اورفدائی معلوم ہوتے ہیں لیکن ایک تبصرے کے بعد اوریا صاحب نے جہاد روک کر معافی نامہ لکھ کر دیدیا گیلا تیتر صاحب تو چیخ چلارہے تھے کہ ان کے محل کے پیچھے ایک آدمی کو لاکر قتل کیا گیا اور وہ خود اس کی چیخیں سن رہے تھے اگر جان نہیں ہے تو جوانمردی کیسی یہ لبرل مجذوبین مطیع اللہ جان اور اسد طور نہیں کہ جان گزرجائے تو بھی معافی نہیں مانگتے گیلاتیتر روز کرپشن کی کہانیاں بیان کرتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں بتاتے کہ وہ چند سال کے دوران ہنڈا ففٹی سے بلٹ پروف لینڈ کروزر تک کیسے آئے اور ایک معمولی کوارٹرسے فارم ہاؤس اور شاندار محل تک کا سفر کیسے طے کیا ورنہ اس کے ہاں بھی اسدطور اور مطیع اللہ جان کی طرح تنگدستی اور فاقے ہوتے۔
بہرحال ایاز امیر پرحملہ انتہائی قابل مذمت عمل ہے وزیراعظم سمیت سیاسی شخصیات پی ایف یو جے اور سی پی این ای نے اس کارروائی کی شدید مذمت کی ہے ایاز امیر جوانی میں اخباری کارکنوں کی تنظیم ایپنک کے پہلے سیکریٹری جنرل بھی رہے ہیں اس لئے صحافتی تنظیموں کی ان سے ہمدردی اور ردعمل قدرتی ہے دیکھیں کہ اس حملہ کے بعد ایاز امیر کی شخصیت پر کس طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ کوئی انقلابی دانشورتو نہیں کہ فاشت رویوں کیخلاف کوئی تحریک منظم کریں لیکن ایک لبرل دانشور ضرور ہیں اپنے ساتھ بہیمانہ سلوک کے بعد انہیں دیگر صحافیوں پر ہونے والے مظالم کیخلاف آواز اٹھانی چاہئے اور یہ ادراک کرنا چاہئے کہ ایک عشرے میں کس طرح بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 36غریب صحافی تشدد کا نشانہ بن کر جان سے ہاتھ دھوبیٹھے لیکن کسی نے ان کیلئے آواز نہیں اٹھائی اب جبکہ پنجاب سے تعلق رکھنے والی اشرافیہ اقتدار کی جنگ میں ہوش وحواس کھوبیٹھی ہے تو آئندہ کچھ عرصہ تک ایاز امیر جیسے واقعات ہوتے رہیں گے بلکہ ان میں اچھا خاصہ اضافہ ہوگا کوئی بعید نہیں کہ یہ نام نہاد اشرافیہ تمام اخلاقی اور معاشرتی اقدار کو پامال کرتے ہوئے حد سے گزرجائے ابھی تک انہوں نے ایک دوسرے کا خیال رکھا ہے لیکن آثار بتارہے ہیں کہ آنے والے وقت میں ایسا نہیں ہوگا پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پتہ چلے گا کہ فریقین کے جذبات کتنے شدید ہیں یہ انتخابات خونی بھی ہوسکتے ہیں اور اس دوران کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
عمران خان بدمست ہاتھی کی طرح سب کو روندے چلے جارہے ہیں حب تک ”مہاوت“ انہیں نہیں روکیں گے وہ آگ لگاتے جائیں گے اور عوام کی حمایت میں اضافہ کی خاطر وہ کسی کو خاطر میں نہیں لائیں گے لیکن وہ ہر زہر کا ایک تریاق ہوتا ہے اور عمران خان کا بھی وہی روایتی تریاق موجود ہے بس شرط استعمال کی ہے۔