جلاوطن قیادت سے مذاکرات

تحریر: انور ساجدی
ایک اہم ترین بلوچ شخصیت کا ایک ٹوئٹربیان نظروں سے گزرا جو خاصا مبہم تھا اور مشکل سے پتہ چلتا تھا کہ اس کا مقصد کیا ہے بیان کا مخاطب نواب اکبر خان شہید کا خانوادہ تھا اور یاد دلایا گیا تھا کہ وہ نواب صاحب کے مشن اور افکار سے روگردانی نہ کریں بلکہ ان کے ورثہ کو لیکر ان کے نقش قدم پر چلیں اس بیان سے ظاہر ہورہا تھا کہ شائد بیرون ملک مقیم نواب صاحب کے پسماندگان اور سرکار کے درمیان ایک بار پھر رابطے ہورہے ہیں یا ہوئے ہیں بلکہ فریقین رابطے میں ہیں اور یہ رابطے ”تھرڈپرسن“ کے ذریعے ہورہے ہیں نہ صرف یہ بلکہ خان صاحب سے بھی سرکاری پیغام رسان ملتے جلتے ہیں اور ان پر زور دیاجارہا ہے کہ وہ طویل جلاوطنی ترک کرکے واپس آجائیں اور ایک نارمل زندگی گزاریں یاد رہے کہ ڈاکٹر مالک کے دور میں بھی براہمداغ خان اورخان صاحب سے ملاقاتیں اور مذاکرات ہوجائے لیکن اس وقت کے آرمی چیف کی مداخلت پر وزیراعظم نوازشریف نے ڈاکٹر مالک کو سلسلہ آگے بڑھانے سے روک دیا تھا اس وقت بھی ڈاکٹر مالک نے لندن میں مقیم بلوچستان کے سینئرسیاستدان حلیم ترین کے ذریعے براہمداغ خان سے رابطے کئے تھے انہوں نے ہی ڈاکٹرصاحب اور براہمداغ کی ملاقات کا اہتمام سوئٹزر لینڈ میں کروایا تھا شنید ہہے کہ اس بار بھی حلیم ترین کی خدمات سے استفادہ کیاجارہا ہے انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ وسیع تر ملکی مفاد میں جلا وطن بلوچ قیادت سے رابطوں اور مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کیلئے تیار ہیں۔
یہ معلوم نہیں کہ رابطوں کی نوعیت کیا ہے کس کے کہنے پر بات چیت کا سلسلہ شروع کیاجارہا ہے فریقین کی شرائط کیا ہیں اور اگر بات چیت ہوتی ہے تو جلاوطن قیادت کو کیا گارنٹی دی جائے گی ویسے بلوچستان کے حوالے سے جب بھی مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا گیا وہ ڈھونگ ہی ثابت ہوئے 2005ء اور 2006ء کی مثال سامنے ہے جب مشرف حکومت نے چوہدری شجاعت حسین کو درمیان میں ڈال کر مذاکرات کا ڈھونگ رچایا تھا لیکن2006ء میں اچانک مشرف نے چوہدری صاحب کو مذاکرات کا سلسلہ ختم کرنے اور طاقت کے استعمال کا فیصلہ کیا مشرف نے اپنے ہاتھوں سے آگ لگائی جو ابھی تک جاری ہے نواب صاحب کے پسماندگان صرف براہمداغ رہ گئے ہیں جو جلا وطن ہیں جبکہ شاہ زین اور گوہرام کو حکومت نے سیٹیں اور وزراتیں دے کر ایڈجسٹ کرلیا ہے جبکہ نواب عالی کو پہلے نکال دیا گیا تھا لیکن اب ان سے بھی نرمی برتی جارہی ہے چند روز ہوئے وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے اخبار نویسوں کو بتایا تھا کہ ان کی حکومت جلاوطن بلوچ قیادت سے مذاکرات کی خواہاں ہے لیکن ان کی بات کو سنجیدہ نہیں لیا گیا کیونکہ مذاکرات کرنا اور کسی نتیجہ پر پہنچنا بلوچستان کی موجودہ حکومت کے بس سے باہر ہے اور نہ ہی اس کے دائرہ اختیار میں ہے کیونکہ یہ بہت بڑا معاملہ ہے اور اسکا براہ راست تعلق ریاست اور اس کے اداروں سے ہے سنا ہے کہ آصف علی زرداری نے حکومتی اکابرین اور سیکورٹی سربراہوں پر زور دیا ہے کہ بلوچستان امن کی خاطر مذاکرات کا راستہ اختیار کیاجائے جب زرداری سے کہا گیا کہ وہ خود آگے بڑھ کر مذاکرات کریں لیکن انہوں نے معذرت کرلی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی گارنٹی پر گزین مری دوبئی سے واپس آئے تھے لیکن ان سے بے اعتنائی برتی گئی لہٰذا وہ اتنی بڑی ذمہ داری اٹھانے سے قاصر ہیں اگرچہ وزیراعظم شہبازشریف نے مذاکرات میں دلچسپی ظاہر کی ہے لیکن شہبازشریف اس کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ اس وقت معیشت کی نزاکت اور عمران کی آفت کا مقابلہ کررہے ہیں اس لئے ان کے پاس اور کچھ سوچنے کا ٹائم نہیں ہے ان کی حالت یہ ہے کہ انہوں نے زرداری سے درخواست کی ہے کہ وہ ان کے صاحبزادہ حمزہ کو پرویز الٰہی سے بچائیں کچھ اور اہم حلقوں نے بھی زرداری سے یہی درخواست کی ہے چنانچہ انہوں نے لاہور جاکر چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کی ہے اور ان سے کہا ہے کہ پرویز الٰہی کو حمزہ کے مقابلہ میں دستبردار کروائیں انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ آئندہ انتخابات کے موقع پر ق لیگ اور ن لیگ کے درمیان مفاہمت کروائی جائیگی دیکھیں اس کوشش کا کیا نتیجہ نکلنا ہے پرویز الٰہی نے پہلے ہی آصف علی زرداری کی بات ٹھکرا کر ایک بڑے سیاسی بلنڈر کا ارتکاب کیا اگر وہ عمران خان کے کہنے پر ڈٹے رہے تو ق لیگ اور چوہدری خاندان کا سیاسی مستقبل تاریک ہوجائے گا۔
ایک اطلاع یہ ہے کہ تحریک انصاف کے سینئر نائب صدر شاہ محمودقریشی نے پیپلزپارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ سے ملاقات کرکے پیپلزپارٹی میں دوبارہ آنے کی خواہش ظاہر کی ہے شاہ جی نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں زرداری سے رابطہ کریں گے امکانی طور پر بلاول شاہ محمود کی پیپلزپارٹی میں واپسی کی مخالفت کریں گے لیکن زرداری تو زرداری ہے وہ سیاست میں جذبات اور مخاصمت پر یقین نہیں رکھتے اس کی ایک بڑی مثال فیصل صالح حیات کو قبول کرنا ہے جنرل پرویز مشرف نے فیصل صالح کی قیادت میں پیٹریاٹ بناکر ق لیگ کی حکومت بنوائی تھی اس کے باوجود گزشتہ انتخابات کے موقع پر فیصل صالح دوبارہ پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے اور اس کے ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑا البتہ شاہ محمود قریشی نے بہت خرابی کی ہے انہوں نے ساؤتھ پنجاب میں پیپلزپارٹی کے اکثر الیکٹیبلز توڑ کر تحریک انصاف میں شامل کروائے تھے وہ کئی مرتبہ عمران خان کے اسٹیج پر یہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ سارے پاکستان میں پیپلزپارٹی کا صفایا کردیں گے اگرچہ ایسا نہ ہوسکا البتہ شاہ محمود تحریک انصاف میں جاکر خوار وخراب ہوگئے سیاسی مبصرین کے مطابق محمودیہ دیکھ رہے ہیں پیپلزپارٹی مقتدرہ کا اگلا انتخاب ہوسکتی ہے اس لئے وہ دوبارہ آنا چاہتے ہیں یہ بھی سنا ہے کہ شہبازشریف کی ناکامی دیکھ کر بزرگ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ زرداری واحد شخصیت ہیں جو ملک کو تحریک انصاف اور ن لیگ کے مقابلے میں بہتر طور پر چلاسکتے ہیں اگرچہ2008ء سے2013ء تک زرداری پر بہت تنقید ہوئی تھی لیکن حالات نے ثابت کردیا کہ انہوں نے تحریک انصاف اور ن لیگ کی نسبت ملک کو بہتر انداز میں چلایا ان کے دور میں پیٹرول کی عالمی سمیت 150ڈالر فی بیرل تھی لیکن زرداری نے پیٹرول کی قیمت سو روپے سے زیادہ نہیں بڑھائی اسی طرح ڈالر کو بھی100روپے سے اوپر بڑھنے نہیں دیا انہوں نے چینی قیادت کے پاس بار بار جاکر سی پیک کی راہ ہموار کی جبکہ ایران سے گیس پائپ لائن کا معاہدہ بھی کیا انہوں نے تھرکول پروجیکٹ بھی شروع کیا اور لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کیا زرداری کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے سیاسی مخالفین کیخلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی نہ کسی کی کوجیل میں ڈالا اور نہ ہی نیپ کو استعمال کیا انہی کی کاوشوں کی بدولت عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور ن لیگ کی قیادت میں حکومت کی تشکیل ہوئی جو بظاہر ناممکن بات تھی بڑے مقامات پر یہ اتفاق موجود ہے کہ پاکستان کو موجودہ بدترین صورتحال سے نکالنے کیلئے ایک مفاہمتی شخص کی ضرورت ہے جو سب کو ساتھ لیکر چلے اور وہ زرداری کے سوا اور کوئی نہیں ہے چنانچہ اگر نومبر کامہینہ خیریت سے گزرا اور حالات ناموافق نہیں ہوئے تو پنجاب کے بیشتر الیکٹیبلز تحریک انصاف کو چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کریں گے کیونکہ وہ ہوا کا رخ دیکھ کرچلتے ہیں نومبر کے بعد ہواؤں کا رخ پیپلزپارٹی کی طرف ہونے کا امکان ہے اگرچہ عمران خان کے بعد ن لیگ کی مقبولیت کافی زیادہ ہے لیکن اس کے پاس کوئی سیاسی پلان نہیں ہے بغیر پلان کے الیکشن میں کامیابی ایک حد سے اگے نہیں بڑھ سکتی جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے تو آئندہ انتخابات تک یہ اپنی غلطیوں سے آدھی رہ جائے گی جس کا فائدہ امکانی طور پر سامری جادوگر اٹھائیں گے۔
زرداری نے بزرگوں کو باور کروایا ہے کہ پہلے امن لاؤ اس کے بعد ہی سیاسی ومعاشی استحکام آئیگا ورنہ معیشت اسی طرح زبوں حالی کا شکار ہی رہے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں