ٹیڑھی بنیاد

تحریر:انورساجدی
جس طرح ایوب خان نے اکتوبر 1958ء میں پہلا مارشل لاء لگاکر اور ون یونٹ بناکر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھی جو 16دسمبر1971ء کو سقوط ڈھاکہ کی صورت میں حقیقت بن گیا اسی طرح جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977ء کو طویل مارشل لاء لگاکر باقی ماندہ پاکستان کی شکت پرریخت کی بنیاد رکھی 1977ء کے مارشل لاء کے بعد پاکستان کو نہ تو سیاسی استحکام ملا اور نہ ہی معاشی خوشحالی نصیب ہوئی بدقسمتی یہ ہے کہ ملک کی اکثریت آج بھی پہلے مارشل لاء کو بھیانک غلطی نہیں مانتی بلکہ عمران خان سمیت کئی سیاسی لیڈر ایوب خان کے دور کو ترقی و خوشحالی کا سنہرا دور قرار دیتے ہیں اسی طرح ضیاء الحق کی غلطیوں کو تو سب مانتے ہیں لیکن چل رہے ہیں اسی کے نقش قدم پر بھٹو جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور جہاندیدہ سیاستدان سے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے 20 دسمبر 1971ء کی رات کو ڈوبتی کشتی سنبھال لی اگر نتیجہ تختہ الٹنے یا پھانسی لگنا تھا تو بھٹو کانوں کو ہاتھ لگاکراتنا پر خطر کام نہ کرتے ان کی دوسری غلطی شملہ معاہدہ تھا اس کامیاب معاہدہ کے ذریعے نہ صرف وہ 90 ہزار جنگی قیدی واپس لائے بلکہ انڈیا کے زیر قبضہ علاقوں کو بھی چھڑا لیا بھٹو کی تیسری بڑی غلطی بلوچستان پر فوج کشی تھی انہیں جرنیلوں نے دھوکہ دے کر اپنے ہی ملک کو فتح کرنے پر لگا دیا اسی اقدام کی وجہ سے ان کی سیاسی طاقت اور مقبولیت میں کمی آئی بھٹو کی ایک اور غلطی ایٹمی پروگرام کا آغاز کرنا تھا جب یہ پروگرام آگے بڑھا تو فوجی قیادت یہ سمجھی کہ اس کے ذریعے پاکستان ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوگیا ہے اس لئے وہ سیاسی قیادت کی بجائے خود اسے چلائیں تو بہتر ہے اسی پروگرام کی وجہ سے امریکہ بھی ناراض ہوا یورپ نے بھی ہاتھ کھینچ لیا اور بھٹو کو جان گنوانا پڑی ضیاء الحق کے انتہائی اقدام کا مقصد ایک ایسی منزل کی طرف مراجعت کرنا تھا جس کا انہیں خود بھی اندازہ نہیں تھا۔ انہوں نے پاکستان کو ایک بنیاد پرست اور قرون وسطیٰ کی ریاست بنانے کی کوشش کی وہ اسلامی نظام تو نافذ نہیں کرسکے البتہ آئین توڑ کر جمہوریت کی بساط لپیٹ کر انہوں نے پاکستان کی جڑوں پر کلہاڑے چلائے ضیاء الحق نے اپنی حمایت یافتہ ایک پوری مخلوق تیار کرلی حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کی باقیات آج تک برسر اقتدار ہیں انہوں نے ملک میں فکری، سماجی اور معاشی انتشار پیدا کی معاشرے میں انتہا پسندی کو ہوا وہی فرقہ واریت کی بنیاد رکھی اور سیاست کے خاتمہ کیلئے لسانی تنظیموں کو جنم دیا ان کی لگائی ہوئی آگ آج تک بھڑک رہی ہے۔
ضیاء الحق نے ٹریڈ یونین پر پابندی لگاکر معاشرے کے ایک فعال طبقہ کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا انہوں نے لبرل ازم روشن خیالی اور اعتدال پسندی کو اکھاڑ کر پھینک دیا ان کی جگہ نیم ملا اور چاپلوسوں پر بنی ایک نئی کلاس تشکیل دیدی ناظمین صلوٰۃ زکوٰۃ کے چیئرمین صوبائی کونسلیں اور مجلس شوریٰ کا قیام پاکستان کو ایک ہزار سال پیچھے کے دور میں لے جانا تھا انہوں نے نیا مگر فرسودہ نصاب تیار کرکے ایک جعلی تاریخ پڑھانا شروع کردیا انہوں نے حقائق منطق سائنس اور ایجادات کو کافروں کی کارستانی قرار دے کر جہادی تیار کرنا شروع کردیئے اگر 1980ء میں افغان انقلاب نہ آتا یا سوویت افواج افغانستان میں نہ آتیں تو ضیاء الحق کے ہاتھوں پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہوتا یہ ان کیلئے غیبی امداد تھی کہ امریکہ نے افغانستان میں جنگ چھیڑدی جسے جہاد کا نام دیا اور اس میں حصہ لینے والے مجاہدین کہلائے صدر رونالڈ ریگن نے وائٹ ہاؤس میں جہادی گروپ کے سربراہ مولانا حقانی کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان کے جذبہ جہاد کی تعریف کی بھلا امریکی صدر کو جہاد سے کیا غرض تھی افغان جہاد کی وجہ سے امریکہ نے خزانہ کا منہ کھول دیا ڈالروں کی ریل پیل ہونے لگی جس کی وجہ سے پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ گیا البتہ ڈالروں کی زیادہ تعداد ضیاء الحق کے جہادی جرنیل کھا گئے اور ارب پتی بن گئے یہی طبقہ بعد میں صنعتکار بن گیا جن کی صنعتیں اور کاروبار آج تک چل رہا ہے ضیاء الحق نے بھٹو کو پھانسی پر لٹکا کر تین صوبوں کی نفی کردی اور طاقت کا سرچشمہ اکثریتی صوبہ کو قرار دے کر اس کی دائمی حکمرانی کی بنیاد رکھی اگرچہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجہ میں انہوں نے ایک سندھی وڈیرہ محمد خان جونیجو کو ڈمی وزیراعظم مقرر کردیا لیکن تمام اختیارات اپنے پاس رکھے انہوں نے 1984ء میں جو نام نہاد ریفرنڈم کروایا اس کا سوال تاریخ پر بدنما داغ کی حیثیت رکھتا ہے ریفرنڈم کے وقت ضیاء الحق کے جو پولنگ ایجنٹ تھے وہ کسی نہ کسی طرح سے اقتدار پر قابض چلے آرہے ہیں اگر قابض نہیں ہیں تو اس میں شامل ضرور ہیں ضیاء الحق نے اپنے دور میں صوبوں کا عملی وجود ختم کردیا تھا اور اپنے چند مخبوط الحواس باختہ جرنیلوں کو گورنر لگاکر صوبوں کے سیاہ و سفید کا مالک بنادیا تھا ان میں جنرل رحیم الدین خان، جہانداد خان اور جنرل فضل الحق شامل تھے۔
ضیاء الحق نے اپنے فریم ورک میں سندھ اور بلوچستان کو صوبوں کی بجائے ذیلی صوبے کا درجہ دیا تھا جہاں ہر قسم کی ترقی کو منجمد کردیا تھا ابتدائی سالوں اور بعدازاں اپنا سیاسی نظام قائم کرنے کے بعد ضیاء الحق نے طوطا چشم بیورو کریٹوں جن میں غلام اسحق خان اور روئیداد خان شامل تھے اور طالع آزما نوتشکیل سیاسی رہنماؤں کی ایک کھیپ تیار کرلی جس کا سرغنہ موجودہ بڑے اور مسلم لیگ ن کے سپریم لیڈر جناب نواز شریف کو مقرر کردیا انہوں نے اپنی حیات میں نوازشریف کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا تاہم 17 اگست 1988ء کو پھٹنے والے آموں کی وجہ سے جب ضیاء الحق ہمیشہ کیلئے رخصت ہوگئے تو رفتہ رفتہ نوازشریف نے اپنا سیاسی قبلہ تبدیل کرنا شروع کردیا حالانکہ وہ کئی سال تک ضیاء الحق کی باقاعدہ برسی مناتے تھے اور انہیں پیرو مرشد کا درجہ دیتے تھے تاہم 1992ء کے بعد انہوں نے اپنے پیروں پر چلنا شروع کردیا اور 2006ء میں میثاق جمہوریت پر دستخط کرکے انہوں نے ضیائی نظریات کو خیرباد کہہ دیا۔
ضیاء الحق نے دائمی فوجی حکمران کا جو بیچ بویا تھا اسے نہ تو نوازشریف ختم کرسکے اور نہ ہی آصف علی زرداری کوئی پیشرفت کرسکے حتیٰ کہ زرداری 2008ء سے 2013ء تک ضیاء الحق کے نظریات جعلی تاریخ اور نصاب کو بھی تبدیل نہ کرسکے ضیاء الحق کے پیروکاروں نے 1988ء،1993ء،1997ء اور 2018ء تک اقتدار منتخب نمائندوں کو منتقل نہیں کیا ضیاء الحق کے ورثہ کا پاسبان بن کر جنرل پرویز مشرف نے ایسا نظام دیا کہ اس سے جان چھڑانا مشکل ہے۔
اگر آج پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہے یا فکری اعتبار سے انتشار کا شکار ہے تو یہ سب ضیاء الحق کی دین ہے ضیاء الحق کا یہ ورثہ طویل عرصہ تک چلے گا تاوقتیکہ اس کا بھیانک نتیجہ نہ نکلے ریاست تباہی کی طرف جارہی ہے اور اس تباہی کو لانے میں ایوب خان ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے پیرو کار عمران خان کا بھی بڑا ہاتھ ہے جو کام پاکستان کے بڑے بڑے دشمن نہ کرسکے وہ عمران خان نے کردکھایا بلکہ وہ آئندہ بھی سیاسی تقسیم اور ہرطرح کے انتشار کو مزید بڑھاوا دے رہے ہیں انہوں نے اپنی معزولی کے بعد یہ واضح دھمکی دی تھی کہ پاکستان کے تین ٹکڑے ہوجائیں گے انہوں نے بطور خاص کہا کہ بلوچستان کی علیحدگی کے منصوبے تیار ہیں عمران خان نے بھی ضیاء الحق کی طرح اپنے جنونی پیروکاروں کی ایک بڑی مخلوق تیار کرلی ہے جو انتشار کو ہوا دے رہے ہیں لیکن عمران خان کی یہ خام خیالی ہے کہ اگر ریاست کو نقصان پہنچا تو انہیں اقتدار سے نکال باہر کرنے کی وجہ سے پہنچے گا انہیں معلوم نہیں کہ اس کی بنیاد ان کے روحانی مرشد ضیاء الحق نے رکھ دی تھی جس کا تعلق اس سرزمین سے نہیں تھا۔
جس طرح کے عمران خان اپنی وابستگی جالندھر اور امرتسر سے ظاہر کرتے ہیں ضیاء الحق کا تعلق بھی جالندھر سے تھا جبکہ پرویز مشرف دّلی یحییٰ خان جن کے ہاتھوں پاکستان دولخت ہوا وہ خراسان سے ہجرت کرکے آئے تھے ایوب خان پاوندہ تھا لیکن جھوٹ پھیلایا کہ ان کا تعلق بلوچستان کے مشہور قبیلہ ترین سے ہے گویا پاکستان کو پہلے جو نقصان پہنچا وہ انہی لوگوں کو وجہ سے پہنچا اور آئندہ بھی انہی کے پیروکاروں کی وجہ سے پہنچے گا جن کو اپنے گروہی مفادات عزیز ہیں لیکن وہ ریاست کا مفاد سمجھنے سے قاصر ہیں۔