”راون“ کے دیس جیسے حالات

تحریر: انورساجدی

اگرآتش فشان سے لاوا نکل رہا ہو یا سمندر سے سونامی آرہی ہو تو اس کے بارے میں کیا پیشنگوئی کی جاسکتی ہے پاکستان کے حالات اس وقت آتش فشان اور سونامی کی مانند ہیں تباہی آگے بڑھ رہی ہے چاہے کل آئے یا پرسوں آئے ایک فیل اسٹیٹ کیا ہوتی ہے کہ اس کے حکمران سالہا سال سے امداد قرض اور خیرات مانگتے پھرتے ہوں جہاں سے کچھ ملے تو ان کی خوشی دیدنی ہوتی ہے آج تک کوئی ٹھوس حل نہیں سوچا گیا کہ25 کروڑ لوگوں کا ملک آمدنی اور پیداوار کے بغیر کیسے چلے گا حتیٰ کہ حکمران اپنے شاہانہ اخراجات کم کرنے کے روادار بھی نہیں ہیں اور تو اور صوبوں کے اپنے جہاز بھی ہیں بلوچستان کی بھوکی اور تہی دست حکومت نے اپنا ایک پرانا جہاز کشمیر کی حکومت کو تحفے میں دیا ہے فقیروں کی جانب سے ایسی فیاضی اس کی مثال مشکل سے ہی ملے گی خود صوبے کا یہ حال ہے کہ جب این ایف سی ایورڈ کا مال غنیمت ملا تھا تو کئی درجن ڈیم تعمیر کئے گئے تھے ان کی لاگت تو کنکریٹ اور اسٹیل کی وصول کی گئی تھی لیکن حالیہ بارشوں میں جب بیشتر ڈیم ٹوٹ گئے تو پتہ چلا کہ یہ تو مٹی اور گارے کے بنے تھے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ کسی سابقہ حکومت کے ذمہ داروں سے کبھی پوچھا نہیں جائیگا کہ آپ نے یہ اربوں کھربوں کیوں ضائع کئے کیونکہ یہ ملک ناپرسان ہے اور جب ملک ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں تو وہاں پر پوچھ گچھ نہیں ہوتی اور بڑے بڑے واقعہ کی ذمہ داری کا تعین نہیں ہوتا۔
ذراء سوچئے کہ ارطغرل غازی،موجودہ عہد کے مجاہد اور انقلابی عمران خان17جولائی کو پنجاب کے ضمنی انتخابات میں گیارہ نشستیں نہ جیت سکے تو کیا ہوگا؟ انہوں نے پہلے سے آسمان سرپر اٹھارکھا ہے کہ حکومت دھاندلی کررہی ہے بلکہ دھاندلہ کررہی ہے یعنی وہ اپنے حامیوں کو پیشگی تیار کررہے ہیں کہ وہ احتجاج کیلئے تیار رہیں کپتان نے ایسی طبع پائی ہے کہ وہ ناکافی اور شکست تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں انہیں بس کامیابی اور کامرانی چاہئے اگرچہ ضمنی انتخاب میں کپتان کی پوزیشن اچھی ہے ان کا بیانیہ عوام پر اثردکھارہا ہے جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن کی شکست اور اس کے نتیجے میں حمزہ شہباز کی حکومت کو شدید خطرات لاحق ہیں کیونکہ حکومت سے معزولی کے بعد عمران خان کی مقبولیت بڑھ گئی ہے ان کے جلسوں میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہورہے ہیں لوگوں کی زیادہ تعداد دیکھ کر عمران خان بھی اپنے حامیوں کو بھڑکارہے ہیں وہ مقتدرہ کو دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر انہیں دوبارہ حکومت میں نہیں لایا گیا تو وہ سری لنکا جیسے حالات پیدا کردیں گے جھنگ میں 18ہزاری کے مقام پر ایک بڑے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اشارہ دیا کہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں بھی لوگ حکومتی ایوانوں پر قبضہ کرکے انہیں آگ لگادیں گے سری لنکا میں عوام کسی لیڈر اور رہنمائی کے بغیر بغاوت کررہے ہیں گزشتہ ہفتہ انہوں نے ایوان صدر پر قبضہ کیا تھا جس کی وجہ سے صدرراجہ پاکسے کو فوج نے اپنے طیارہ میں ہمسایہ ملک مالدیپ فرار کروایا تھا لاکھوں افراد نے ایوان صدر پرقبضہ کے بعد وزیراعظم ہاؤس کو آگ لگادی تھی سری لنکا کے عوام کو یہ پتہ نہیں کہ وہ کیا کریں ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس پر قبضہ کے بعد وہاں کے تحریکی عوام اس طرح کے مشغلوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں جس طرح کے پاکستان میں تحریکی کارکن دکھائی دیتے ہیں سری لنکا میں وزیراعظم رانیل نے قومی حکومت تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے لیکن اس سے حالات میں سدھار کے امکانات نہیں ہیں کیونکہ اس سے معاشی صورتحال بہتر نہیں ہوسکتی ہو نہ ہو بالآخر فوج کو موقع ملے گا وہ کوئی راست اقدام کرے سری لنکا کے صدر ان کے بھائی سابق وزیراعظم اور خاندان کے دیگر لوگ نہ صرف لوٹ مار میں ملوث ہیں بلکہ ان پر چالیس ہزار تامل باشندوں کے قتل عام کا الزام بھی ہے دباؤ بڑھ رہا ہے کہ سابق حکمرانوں پر جنگی جرائم کے تحت عالمی جنگی تریبونل میں مقدمات چلائے جائیں۔
ہمارے ہاں کپتان آج کل سری لنکا کے حالات کا بڑا حوالہ دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان حکمرانوں نے اپنے ملک کو لوٹ کر امریکہ اور دیگر ممالک میں محلات خرید لئے تھے جس کی وجہ سے سری لنکا دیوالیہ ہوگیا تھا وہ نوازشریف اور زرداری کی لوٹ مار کا ذکر کرکے دھمکی دے رہے ہیں کہ پاکستان کے عوام بھی سری لنکا کے عوام کی طرح اٹھ کھڑے ہونگے اور ان حکمرانوں کو حکومتی ایوانوں سے نکال باہر کریں گے ہوسکتا ہے کہ 17جولائی کے ضمنی انتخاب میں شکست کے بعد وہ ایوانوں کو آگ لگانے کی بات بھی کریں اور عوام کو شہہ دیں کہ وہ لاہور کے بلاول ہاؤس اور رائے ونڈ کے محلات کی اینٹ سے اینٹ بجادیں لیکن کپتان بھول جاتے ہیں کہ وہ خود بھی بنی گالا اور زمان پارک میں دوعدد محلات کے مالک ہیں۔اگر وہ مخالفین کے محلات کو آگ لگوادیں گے تو خود ان کے محلات بھی اس آگ کی زد سے بچ نہیں پائیں گے بنی گالا جنگل ہے جبکہ اس جنگل کے درمیان میں ان کا محل کھڑا ہے اگر کسی مخالف نے شیطانی کی تو یہ 60ایکڑ کا جنگل راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوسکتا ہے لیکن کپتان کیا کرے ایسا لگتا ہے کہ اقتدار سے محرومی کے بعد ان کی دنیا ہی اجڑ گئی ہے وہ شدید اضطرابی اور ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہیں لیلائے اقتدار سے دوری ان سے برداشت نہیں ہوتی انہوں نے90سال کی عمر تک اقتدار میں رہنے کے جو خواب سجائے تھے وہ اچانک ٹوٹ گئے اسی لئے ان کے پیروکار کھلے عام مقتدرہ کو اس تبدیلی کا موروالزام ٹھہراتے ہیں ملک کے اندر اور باہر یوتھیا فورس مسلسل فوج کے خلاف ٹریند چلارہی ہے اور ”بڑے صاحب“ کے محاسبہ کا مطالبہ کررہی ہے۔
گوکہ پاکستان معاشی دیوالیہ پن کاشکار ہے لیکن یہ سری لنکا نہیں ہے اس کی فوج کو تمام معاملات پر کامل کنٹرول حاصل ہے اگرعمران خان نے کوئی مہم جوئی کی اور خانہ جنگی کے حالات پیدا کئے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان عمران خان کو ہوگا رفتہ رفتہ حالات خان صاحب کیخلاف جارہے ہیں سپریم کورٹ نے جو تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے اس سے حکومت کے ہاتھ کھل گئے ہیں اور وہ عمران خان اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کیخلاف آئین شکنی کے مقدمات قائم کرسکتی ہے سب سے زیادہ زد میں ”اوور اسمارت“ ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری آئیں گے جنہوں نے ایک غیر آئینی رولنگ دے کر مملکت کی اساس پر حملہ کیا ایک اور بلا فارن فنڈنگ کیس ہے جو عمران خان کے سرپرکھڑی ہے اگر اس کیس کا فیصلہ عمران خان کیخلاف آیا تو سمجھو کہ تحریک انصاف کاقصہ ختم یہ جماعت خلاف قانون ہوجائے گی اور اس کے سارے لیڈر نااہل ہوجائیں گے لڑائی تو لڑائی ہے اس میں ہر حربہ جائز ہے اگر عمران خان مخالفین کو آگ لگانا چاہتے ہیں تو انہیں بھی یہ حق ہے کہ وہ اس کیخلاف انتہائی قدم اٹھائیں اگر فارن فنڈنگ کیس ثابت ہوگیا تو عمران خان اس ملک کے سب سے بڑے ”منی لانڈرر“ قرارپائیں گے اور یہ جو وہ نواز اورزرداری پر منی لانڈرنگ کا الزام لگارہے ہیں ان کا معاملہ پیچھے چلا جائیگا کپتان کا کمال ہے کہ وہ جھوٹ کو سچ ثابت کرتے ہیں اور اپنی کل کی کی گئی باتوں کو بھول جاتے ہیں مثال کے طور پر سری لنکا کے مفرور صدر سے ملاقات کے بعد وہ ان کی صلاحیتوں کی لمبی چوڑی تعریفیں کررہے تھے اور بتارہے تھے کہ انہوں نے مجھے وہ ٹپس دیئے کہ انہوں نے کیسے مہنگائی پر کنٹرول کیا لیکن حالیہ جلسوں میں وہ اس کی برائی کررہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اس نے اپنے ملک کو لوٹ کر اس حال تک پہنچایا ویسے اگر عمران خان انقلاب لانا چاہتے ہیں تو بے شک لائیں شرط یہ ہے کہ انہیں اس کی قیمت چکانے کیلئے تیار رہنا چاہئے وہ بار بار سری لنکا کا حوالہ دیتے ہیں لیکن گزشتہ لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد دھرنے کا ذکر کرنے سے بھی ڈرتے ہیں اب تو سپریم کورٹ نے عام انتخابات کے انعقاد کااختیار پارلیمنٹ کو دیا ہے اور قرار دیا ہے کہ اسمبلیوں کو اپنی مدت پوری کرنی چاہئے۔اگرشہباز حکومت عمران خان کے دباؤ میں نہیں آئے تو انہیں آئندہ سال نومبر تک صبر سے کام لینا پڑے گا لیکن نومبر کی تقرری اگر شہبازشریف کے ہاتھوں ہوگئی تو ہوسکتا ہے کہ کپتان حیدرآباد کی سیر کو نکلیں کیونکہ وہ اتنا بڑا صدمہ برداشت نہیں کرسکیں گے بہر حال صورتحال دلچسپ ہے معاشی زبوں حالی کے باوجود عمران خان لوگوں کو تفریح طبع کااچھا خاصا سامان فراہم کررہے ہیں لیکن انجام کہیں راج کپور کی مشہور مگر ناکام فلم ”جوکر“جیسا نہ نکلے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں