ایک نئے کھیل کا آغاز

تحریر : انور ساجدی
اس وقت پنجاب کی اشرافیہ تین حصوں میںتقسیم ہے ایک نیوٹرل ہیں جبکہ دوسری جانب اشرافیہ کا ایک حصہ عمران کے ساتھ اور دوسرا نوازشریف کے ساتھ ہے یہ کشمکش 2014ءمیںشروع ہوئی اور تاحال جاری ہے۔2018ءکے انتخابات میںمقتدرہ نے اپنے پرانے اور پسندیدہ لیڈر نوازشریف کو ناپسندیدگی کادرجہ دیا اسے جیل میںڈال کر تحریک انصاف کی کامیابی کا اہتمام کیا لیکن جب عمران خان پھوں پھاں نکالنے لگے تو انہیںسبق سکھانے کا فیصلہ کیا گیا چنانچہ اپریل میںجو تحریک عدم اعتماد آئی وہ اسی کاشاخسانہ تھا مرکز میںشہباز اور تخت لاہور پر ان کے بیٹے حمزہ شہباز کو بٹھایا گیا اس تبدیلی سے ایسے لگتا تھا کہ عمران خان کا قبضہ ختم ہوگیا ہے لیکن حالات نے ثابت کیا نیوٹرلز کا ایک بڑاحصہ عمران خان کی حمایت سے دستبردار نہیںہوا بلکہ انہوں نے کپتان کی بحالی اور سیاسی طاقت میںاضافہ کیلئے سردھڑ کی بازی لگادی حتیٰ کہ بعض نے اپنے ادارے سے بھی ٹکر لی اور اسے ہدف تنقید بنایا جو پنجاب کی20نشستوں کا جو ضمنی انتخاب ہوا وہ ایک ٹیسٹ کیس تھا اگرچہ عمران خان نے اپنی چھوڑی ہوئی 20میںسے 5نشستیں ہار دیں لیکن 15نشستوں پر کامیابی نے پنجاب کی کایا پلٹ دی ہے جس کی وجہ سے میاںحمزہ شہباز کو عزت وآبرو کے ساتھ گھر جانا پڑے گا اور تحریک انصاف کے وزارت اعلیٰ کے امیدوار کی کامیابی یقینی ہے لیکن اس سے کیا ہوگا؟ریاست کو جو سیاسی معاشی اور آئینی بحران درپیش ہے وہ مزید بڑھ جائیگا سیاسی تقسیم نیچے سے اوپر تک سرایت کرجائیگی ملک شدید ترین سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا جس کے نتیجے میںمعاشی صورتحال مزید خراب ہوجائے گی مرکزی حکومت جس نے آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات کئے اور دوست ممالک سے درخواست کی اسے روپے کی قدر بہتر بنانے کیلئے چار ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میںرکھنے کیلئے دیئے جائیں یہ ساری کوششیں رائیگاں جائیںگی کیونکہ اگر ایک حکومت وینٹی لیٹرپر ہو تو کون اس کی مدد کرے گا نتیجہ یہی نکلے گا کہ بے چارہ مریض گزرجائے گا۔
اگر عمران خان نے پنجاب میں حکومت بنائی تو وہ قبل از وقت عام انتخابات کیلئے دباﺅ بڑھائیںگے بلکہ اس کیلئے آسمان سرپراٹھائیںگے کیونکہ انہیںپتہ چل گیا ہے کہ انہوںنے غیر ملکی سازش اور نیوٹرلز کی جانبداری کا جو جعلی بیانیہ بنایا تھا وہ نہ صرف چل رہا ہے بلکہ دوڑ رہا ہے اس لئے وہ نئے انتخاب کیلئے ہر حربہ آزمائیںگے ان کی کوشش ہوگی کہ رواں سال کے نومبر سے پہلے عام انتخابات کا انعقاد ہو تاکہ وہ دوتہائی اکثریت لیکر حکومت سازی کرسکے یہ تو معلوم نہیں کہ مقتدرہ نے جو حکومت مسلط کی ہے وہ اسے جلد گرنے دے گی کہ نہیںلیکن دباﺅ بڑھ گیا تو وہ کیا کرے گی آخر اسے سرنڈر ہونا پڑے گا تاکہ عمران خان کی تاریخی فتح کی راہ ہموار ہوجائے مقتدرہ میںبہت سارے ایسے لوگ موجود ہیں جو عمران خان کی شخصیت اور اس کے بیانیہ کو پسند کرتے ہیں ان کی خواہش ہوگی کہ عمران خان دوبارہ وزیراعظم بن کر نومبر میںہونیوالی اہم تقرری اپنے ہاتھوں سے کرلیں اور پھر جب تک ان کی مرضی وہ اقتدار پر مسلط رہیںچاہے وہ صدارتی نظام لائیں چاہے1973ءکے آئین کا حلیہ بگاڑدیں چاہے این ایف سی ایوارڈ میںصوبوں کا حصہ کم کردیں یا پوری18ویں ترمیم کو اٹھاکر ردی کی ٹوکری میںڈال دیں۔عمران خان چونکہ قرون وسطیٰ کے فرسودہ خیالات اور نظریات کے حامل شخص ہیں اس لئے ملک میںان کے ہم خیال افراد کی کافی تعدادموجود ہے قدامت پسندانہ نظریات رکھنے کے باوجود وہ جدید دور کی انقلابی مشین ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کا ہنر جانتے ہیں اس ضمن میںمخالفین ان سے کوسوں دور ہیں ملک کی دوسری بڑی جماعت ن لیگ اس شعبہ پر ابھی تک عبور حاصل نہیںکرسکا بلکہ دیگر جماعتوں کاتو حال برا ہے یہ عمران خان کا کمال ہے کہ انہوںنے ابھی تک فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ روکے رکھا ہے انہوںنے فرح گوگی کے کرپشن کو بھی بہتان سازی اور افسانہ ثابت کردیا ہے ان کی اہلیہ نے ملک ریاض سے القادر یونیورسٹی کے نام پر جو اربوں روپے کی زمین حاصل کی ہے کرپشن کے دیگر تمام معاملات کو انہوںنے پروپیگنڈہ کے زور پر ناکام بنادیا ہے جبکہ وہ عوام کو یہ باور کروانے میںکامیاب رہے کہ وہ ملک کے واحد صادق اور امین اور پارسا رہنما ہیں لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے کرپشن میںبھی پارسائی کی ضرور کوئی حکمت ہوگی اس لئے پاکستان کے دو صوبوں پنجاب اور کے پی کے میںعوام آنکھیں بند کرکے اپنے لیڈر عمران خان پر یقین کرنے لگے ہیں بلکہ گزشتہ روز کے ضمنی انتخاب میںکامیابی کے بعد ان کے بے شمار متعقدین نے اپنے لیڈر کیلئے ”مرشد“ کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی اب عمران خان ایک عام سیاسی لیڈر نہیںبلکہ اوتار مہاتما اور مرشد کا درجہ اختیار کرگئے ہیں یہ سلسلہ بتدریج آگے بڑھے گا وقتیکہ جناب عمران خان کی رسواکن واپسی شروع نہ ہو۔
ن لیگ اور اس کے دواتحادی پی پی اور مولانا پریشان ہیں کہ وہ کیا کریں اگر مرکزی حکومت کو ایک سال تک بچانے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کا وہی حال ہوگا جو انڈیا میںکانگریس پارٹی کا ہوا اگر فوری طور پر عام انتخابات کی طرف جاتے ہیں تو ان کا حشر پنجاب کے ضمنی انتخابات جیسا ہوگا چنانچہ اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اپنی معزولی کے بعد عمران خان ایک بہت بڑے چیلنجز بن کر ابھرے ہیں اور انہوںںے ثابت کیا ہے کہ وہ کسی بھی معاملہ میںاور کسی بھی صورتحال میںہار ماننے والے نہیںہیں۔بعض مبصرین کے مطابق عوام میںعمران خان کی پسندیدگی کی وجہ نیوٹرلز کیخلاف مہم ہے عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عمران خان نیوٹرلز کے مخالف نہیںہوئے بلکہ وہ اب بھی ان سے درخواست کررہے ہیں کہ ان سے جو غلطی ہوئی ہے وہ اس کا ازالہ کرنے کیلئے یوٹرن لیکر ان کی حمایت میںآجائیں ہاں یہ ضرور ہے کہ جس جس لیڈر نے مقتدرہ کو چیلنج کیا عوام نے ان کا ساتھ دیا نوازشریف نے ووٹ کوعزت دو کی تحریک چلائی اسے پذیرائی ملی لیکن جونہی وہ سرنگوں ہوئے اور مقتدرہ سے ہاتھ ملالیا تو لوگوں نے پنجاب کے ضمنی الیکشن میںسبق سکھادیا اگر عمران خان نے بھی اپنا موجودہ بیانیہ بدل دیا تو ان کا حشر بھی ن لیگ جیسا ہوگا۔لیکن زمینی حقائق یہی کہتے ہیں کہ پاکستان میںحقیقی انقلاب یاتبدیلی کیلئے حالات سازگار نہیںہیں عوام مخالف قوتوں کے ہاتھوں میںاقتدار کی مضبوط گرفت ہے وہ اپنے ”مہرے“ تبدیل کرتے رہتے ہیں جبکہ چالیں وہی رہتی ہیں اس منصوبہ کا مقصد عوام کے حقیقی نمائندوں کوآنے نہیںدینا ہے تاکہ ”اسٹیٹس کو“ برقرار رہے اور کوئی تبدیلی وقوع پذیر نہ ہوسکے اصل لیڈر وہ ہوگا جو اسٹیٹس کو توڑدے گا اور عوام کو صحیح جمہوریت اور معاشی صورتحال کی طرف لے جائیگا یہ عمران خان نوازشریف اور زرداری کیا ہیں یہ ہر موقع صف بندیاں بدل کر ادھر سے ادھر ہوجاتے ہیں۔
عمران خان سے بھی کوئی بڑی امید وابستہ نہیں یہ سارے ایک ہی نظام کے چٹے بٹے ہیں اگر کل الیکشن کمیشن فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کرلے تو عمران خان کا سارا رعب داب زمین بوس ہوجائے گا ویسے فوری طور پر عمران خان کے فتنہ کا حل بھی یہی ہے اگر ایسا ہوا تو تب دیکھاجائے کہ وہ اس فیصلہ کیخلاف ایوان اقتدار کے سامنے لاکھوں لوگوں کو بلاتے ہیں کہ نہیں۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں