عالم نزع
تحریر: انور ساجدی
کینڈا کی مائننگ کمپنی بیرک گولڈ کے سربراہ نے پروجیکٹ شروع کرنے سے پہلے حکومت پاکستان سے آئینی ضمانت طلب کرلی ہے اور کہا ہے کہ اس سلسلے میں پاکستان کی قومی اسمبلی قانون سازی کرے یہ وہ بات ہے کہ ریکوڈک کی تازہ نیلامی سے قبل یا نئے معاہدہ پر دستخط کے وقت اسے عوام سے پوشیدہ رکھا گیا ہے معاہدہ کیا ہے اسے سر بہ مہر اور صیغہ راز میں رکھا گیا ہے کمپنی کے سی ای او نے انکشاف کیا ہے کہ لیز کی مدت 40 سال ہے لیکن معاہدہ کی رو سے اسے مزید بڑھایا جاسکتا ہے جبکہ یہ بات بھی منظر عام عام پر آچکی ہے کہ لیز کا ابتدائی ایریا 100 کلو میٹرتھا جسے 164 کلو میٹرکردیا گیا ہے وفاقی اور صوبائی حکومت نے ڈیل کو جان بوجھ کر خفیہ رکھا جبکہ عجیب بات یہ ہے کہ خود کو قوم پرست کہلانے والے بلوچستان کے اہم لیڈروں نے بھی معاہدہ پر خاموشی اختیار کرکے اور آنکھیں بند کرکے اس ڈیل کو قبولیت بخشی اگرچہ معاہدہ کے باوجود ریکوڈک میں مائننگ کا آغاز کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ کمپنی نے کہا ہے کہ نئی فزیبلٹی رپورٹ بنانے میں دو سال لگیں گے جبکہ رپورٹ بننے کے بعد سرمایہ کاری کیلئے ایک عالمی کنشوریم سے رجوع کیا جائے گا ابتدائی طور پر 6 ارب ڈالر حاصل کئے جائیں گے منصوبہ اتنا بڑا ہے کہ اس کے آغاز کیلئے برسوں درکار ہیں لہٰذا انتظار کرنا چاہئے کہ کمپنی کام شروع کرتی ہے یا بھاگ جاتی ہے حالیہ برسوں میں جس طرح سی پیک کے منصوبوں اور گوادر پورٹ کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے عمران خان کے دور حکومت میں چینی کمپنیاں بھاگ گئی تھیں جنہیں دوبارہ لانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن پاکستان کے جو سیاسی معاشی اور معاشرتی حالات ہیں وہ دنیا کے سامنے ہیں عمران خان نے تمام معاہدے توڑ کر اس کی ساکھ تباہ و برباد کردی ہے البتہ انہوں نے بڑوں کے کہنے پر ریکوڈک کے ڈیل کو جلد بازی میں مکمل کیا اس کے پیچھے بھی بڑی پر اسرار اور لمبی کہانی ہے جو بالآخر منظر عام پر آجائے گی ایک بات طے ہے کہ عمران خان جو کچھ کررہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ انہیں صرف اپنا سیاسی و معاشی مفاد عزیز ہے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے باوجود انہیں ہر قیمت پر دوبارہ اقتدار چاہئے وہ جوکچھ کررہے ہیں اس سے عیاں ہے کہ وہ یا تو اقتداردوبارہ لیکر رہیں گے یا پاکستان کی معاشی جڑیں کاٹ کر اس کی حالت سری لنکا سے بھی بدتر کردیں گے ان کو بڑی فضیلت یہ حاصل ہے کہ ان کا ڈومیسائل بہت مضبوط ہے اگر ایسا نہیں ہوتا تو وہ ابتک ذلیل و خوار ہوچکے ہوتے وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے لیڈر ہیں جو طاقتور مقتدرہ کو کامیابی کے ساتھ بلیک میل کررہے ہیں چند روز قبل بہ بانگ دہل کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان پر آئین کی دفعہ 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلے تاکہ وہ عدالت کے سامنے وہ راز کھول دیں جو ان کے سینے کے اندر ہیں یہ کونسے راز ہیں یہ عمران خان ہی جانتے ہیں اس دھمکی کے بعد ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ وہ پنجاب کے ضمنی انتخابات جیت لیں یعنی پنجاب کی حکومت انہیں دوبارہ ملے اگر ایسا ہوا تو یہ کمزور اور ناتواں شہبازشریف کے پر کاٹنے کے برابر اقدام ہوا۔
موصوف اتنے زور آور ہیں کہ 20 میں سے 15 نشستیں جیتنے کے باوجود چیف الیکشن کمشنر کی تبدیلی کا مطالبہ کررہے ہیں اس دباؤکا مقصد چیف الیکشن کمشنرکو فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے کو اپنے حق میں بدل دینا ہے اگرچہ یہ فیصلہ محفوظ ہے لیکن عمران خان دباؤ ڈال کر اپنی قیادت اور پارٹی کو معدوم ہونے سے بچانا چاہتے ہیں بظاہر تو کیس ان پر ثابت ہے اور دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ عمران خان نے ساری دنیا میں ڈاکہ ڈال کر تحریک انصاف کیلئے فنڈز اکٹھا کئے اور پھر یہ اربوں کھربوں کے فنڈز ادھر ادھرکردیئے اس حقیقت کے باوجود عمران خان تقریباً عوام کے ذہنوں میں یہ بات ثابت کرچکے ہیں کہ شہباز شریف سب سے بڑے ”منی لانڈرر“ ہیں نوازشریف اور زرداری سب سے بڑے ڈاکو اور چور ہیں اس لئے یہ لوگ جہاں جاتے ہیں لوگ چور چور کے نعرے بلند کرتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ عمران خان کامیابی کے ساتھ عوام کو باور کرواچکے ہیں کہ وہ نہایت ایماندارپارساصادق اور امین ہیں لوگوں کو القادر یونیورسٹی کے نام پر ملک ریاض سے 470 کینال ہتھیانا نظر نہیں آتا فرح گوگی اور اس کے خاندان نے پنجاب کو جس طرح لوٹا اور اربوں روپے منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر بھجوادیا لوگوں کو وہ بھی نظر نہیں آتا عوام تو اپنی جگہ ریٹائر اعلیٰ عسکری افسران بھی عمران خان کی ایمانداری کے قائل ہیں ان میں سے کئی تو تحریک انصاف کا حصہ ہیں جبکہ ریٹائر افسروں کی تنظیم نے باقاعدہ عمران خان کا ساتھ دینے کا اعلان بھی کیا ہے ان بااثر افراد کے خاندان کے لوگ تحریک انصاف کے سرفروش کارکن اور ووٹر بھی ہیں عمران خان نے ”رجیم چیخ“ کیلئے جو امریکی سازش گڑھی عوام نے اس پر بھی یقین کرلیا حالانکہ صدر بائیڈن کو کیا پتہ کہ عمران خان کون ہے انہوں نے حالیہ ہفتوں میں جتنے جلسے کئے اور جتنے الزامات لگائے وہ سارے کے سارے جھوٹ تھے لیکن عوام نے یقین کرلیا عمران خان اتنے پاور فل ہیں کہ سوشل میڈیا پر اس کے کارکنوں نے طاقتور اداروں کے خلاف ٹرینڈ چلائے انہیں بہت برا بھلا کہا کہ حتیٰ کہ جعلی تصاویر دکھا کر دعویٰ کیا کہ بیلجئم اور برمنگھم میں اربوں روپے کی جائیداد ”ٹیوٹرل“ نے خریدی ہے اس کے باوجود کسی کے خلاف آج تک اس بہتان سازی پر کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا دیدہ دلیر اتنے ہیں کہ مطالبہ کررہے ہیں کہ یوٹرن لیکر واپس میری حمایت کردیں منطق یہ لائے کہ بڑے لیڈر اور اہم لوگ ہمیشہ یوٹرن لیتے ہیں غالباً اہم مقامات پر موجود لوگ عمران خان کی شعلہ بیانی چرب زبانی وشنام طرازی اور پروپیگنڈے کی طاقت سے خائف ہیں ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کے ہاتھ کوئی ایسا اہم قومی راز لگاہے کہ اس کے افشا ہونے سے طاقتور لوگ تھر تھر کانپ رہے ہیں آج تک کسی لیڈر کو اتنی ڈھیل نہیں دی گئی جو موصوف کو دی جارہی ہے کسی نے بلکہ الیکشن کمیشن نے بھی یہ نہیں پوچھا کہ 12 جلسوں سے خطاب کیلئے 12 مرتبہ جو پرائیوٹ جہاز استعمال کئے وہ کیسے حاصل کئے گئے تھے یہ بھی پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی کہ اتنے بے شمار وسائل کہاں سے آئے ہیں پنجاب کے ضمنی انتخابات کے بعد ڈبو چوہدری سمیت سارے لیڈران کرام طعنہ دے رہے ہیں کہ اتحادی حکومت اسلام آباد کے زیرو پوائنٹ سے شروع ہوکر بارہ کہو پر ختم ہوچکی ہے اور وزیراعظم شہباز شریف کے اختیار سی ڈی اے کے چیئرمین جتنے بھی نہیں ہیں اس صورتحال پر حکومت کو الیکشن کی طرف جانا چاہئے تھا لیکن لگتا ہے کہ تمام عمران مخالف جماعتیں بھی سخت خوف میں مبتلا ہیں انہیں خدشہ ہے کہ عام انتخابات میں تحریک انصاف ان کو عبرتناک شکست دے کر دو تہائی اکثریت حاصل کرلے گی اور ان جینا دوبھر کردے گی چنانچہ وہ اسلام آباد تک محدودرہ کر ایک سال تک اپنی حکومت کو وینٹی لیٹرپر رکھنا چاہتے ہیں کہ شایدتب تک ان کو کہیں اماں مل جائے بعض لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کو ”ری لانچ“ کیا گیا ہے تاکہ وہ نئی طاقت کے ساتھ انتخابات جیتے اور مقتدرہ کے دیرینہ سہانے سپنے پورے کردے ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ جہاں حکومت عالم نزع میں ہے تو وہاں ریاست اور معیشت آئی سی یو میں ہیں اگر عمران خان نے حالات زیادہ خراب کئے تو کسی کیلئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی ایک اور بات یہ کہ ہرآمر کو بالآخر عبرتناک زوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے عمران خان کا جھوٹ اور غلط بیانیہ بھی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا صرف اس کے صحیح مقابلہ کی ضرورت ہے۔