قیامت کے آثار

تحریر: انور ساجدی
وہ ایک قیامت کی رات تھی ایسی بارش پہلے بھی کئی بار ہوئی تھی لیکن کراچی اس طرح ڈوبا نہیں تھا ہمارے دفتر کی چھت ٹپک رہی تھی اور نیچے آئی آئی چندریگر روڈ ایک دریا کا منظر پیش کررہا تھا کام ختم ہونے کے بعد میں نے صبح کاانتظار کیا کہ گھر جایا جائے تمام سڑکیں زیر آب تھیں ہر طرف ہو کا عالم تھا کوئی گاڑی کوئی سواری نہ تھی میں کافی دیر اور کافی دور تک پیدل چلا کئی مقامات پر لوگ اپنی گاڑیاں گہرے پانی میں چھوڑ کر گئے تھے کئی رکشے بھی ڈوبے نظرآرہے تھے تین تلوار کی طرف سڑکیں بند تھیں اس لئے میں بلاک8کی طرف گیا لیکن یہاں پر پانی اور زیادہ تھا اسی علاقہ میں عسکری ون واقع ہے اس کے اندر سے بے شمار پانی روڈ کی طرف آرہا تھا گزشتہ چند سالوں میں کلفٹن کے بلاک8 اور9 میں بہ بفلک عمارتیں تعمیر ہوئی ہیں لیکن بارش کے دنوں میں ان قیمتی عمارتوں کے مکین نہ باہر جاسکتے ہیں اور نہ اندر آسکتے ہیں صرف اس علاقہ پر کیا موقوف پورے کراچی میں جو بلند بالا عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں انہوں نے شہر کا حلیہ بگاڑ کررکھ دیا ہے۔کہیں پر بھی نکاسی آب کا مناسب انتظام نہیں ہے جبکہ بلڈرز نے بلڈنگز کے سیوریج کا بھی عارضی بندوبست کیا ہے کچھ عرصہ بعد سیوریج کا پانی بھی سامنے والی سڑکوں پر جمع ہوتا ہے جس کی وجہ سے پورا شہر بدبو تعفن اور آمدورفت میں رکاوٹوں کی وجہ سے مسائل کا شکار رہتا ہے سب سے برا حال ڈی ایچ اے کا ہے نہ جانے ایسی کیا غلط پلاننگ ہوئی کہ پورا علاقہ زیر آب آجاتا ہے بیسمنٹ پانی سے بھر جاتے ہیں جس کی وجہ سے کے الیکٹرک کو بجلی بھی بند کرنا پڑتی ہے اور علاقہ مکین ایک انتہائی تکلیف دہ زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں کہا جاتا ہے کہ کراچی شہر سیلاب میں اس لئے ڈوب جاتا ہے کہ قدرتی آبی گزرگاہوں کے راستے بند کردیئے گئے ہیں ہر جگہ کنکریٹ کے جنگل اگائے گئے ہیں سیلاب سے گزرکرمیں 6کلو میٹر کے فاصلے تک گیا تو میں نے سوچا کہ بلوچستان کے جن علاقوں میں سیلاب آیا ہے سڑکیں پل اور ڈیم ٹوٹ گئے ہیں وہاں کے لوگوں کا کیال حال ہوگا کراچی جو سندھ کا ہیڈکوارٹر اور پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے یہ رہنے کے قابل نہیں ہے تو بلوچستان کے ستم زدہ لوگ کس قدر مشکلات کا شکار ہونگے کوہ سلیمان سے لیکر کیج تک اتنی بارشیں ہوئیں کہ پچھلا ریکارڈ ٹوٹ گیا لیکن صوبے کا انفرااسٹرکچر اتنا ناقص اور کچا تھا کہ کوئی جگہ ڈوبنے سے نہیں بچی لسبیلہ ضلع میں تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد پھنس گئی اور انہوں نے72گھنٹے بھوکے پیاسے کھلے آسمان تلے بے یارومددگار گزارے پہلی طوفانی بارش کے کئی دن بعد تک ریلیف آپریشن شروع نہ ہوسکا جبکہ دوسری بارش کے بعد بلوچستان کو کراچی سے ملانے والی شاہراہ ٹوٹ گئی حب ندی پر بنا پل جو پچھلے سال سے ناکارہ تھا لیکن این ایچ اے کے اہلکاروں کااصرار تھا کہ پل کو خطرہ نہیں ہے لیکن حالیہ طوفانی بارشوں کے بعداسے بند کرنا پڑا کمزور انفرااسٹرکچر کی وجہ سے بلوچستان باقی صوبوں سے کٹا ہوا ہے یہ ا مید رکھناکہ ڈیم ٹوٹنے یاپل گرنے کے واقعات کی تحقیقات ہوگی محض خام خیالی ہے کیونکہ بلوچستان کے افسروں نے جولوٹ مار کی اور ناقص تعمیرات کیں اس کی تحقیقات کیسے ہوگی کون کرے گا جو لوگ کرپشن میں ملوث تھے وہ اتنے طاقتور ہیں کہ کوئی ان سے پوچھنے کی جسارت نہیں کرے گا۔
بلوچستان تو ویسے بھی ریاست کے دائرہ کار سے باہر ہے یہاں پر احتساب کاکوئی تصور نہیں یہاں صرف طاقت کاوحشیانہ استعمال ہوتا ہے شدید بارشوں اور سیلاب کے باوجود تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔
کراچی میں جو طوفانی بارش ہوئی اس رات سندھ حکومت نے فوری طور پر ہتھیار ڈال دیئے پہلے بلدیاتی عملہ پمپ لگاکر پانی سڑکوں سے نکالتا تھا لیکن اس مرتبہ پانی اتنا زیادہ تھا کہ سندھ حکومت نے نہایت چالاکی سے اگلے دن عام تعطیل کا اعلان کیا لوگوں کو یاد ہوگا کہ مصطفی کمال کے دور میں کس طرح کلفٹن کاانڈر پاس ڈوب گیا تھا اور اس کا پانی باہر نکل کر فلیٹوں کے اندر چلا گیا تھا اس دفعہ تو بارش پہلے سے زیادہ تھی سارا شہر برساتی نالوں کا منظر پیش کررہا تھا بارش کے بعد وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے اعتراف کیا کہ کراچی کے معاملات کافی بگڑچکے ہیں اور شہر کو خراب کرنے کے ذمہ دار ہم سب ہیں بارش کے بعد جو سیوریج کی لائنیں ٹوٹیں تو چیف منسٹرہاؤس بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اسی لئے سندھ حکومت نے سامنے کی سڑک کھود کر بڑی پائپ لائنوں کے بچھانے کا کام شروع کردیاہے۔
کسی زمانے میں کراچی کا شمار دنیا کے 10بڑے شہروں میں ہوتا تھا لیکن اب اس کا شمار ”10میگاسلمز“ یعنی کچی آبادیوں میں ہوتا ہے صرف کراچی کیا سندھ کے سارے شہر ڈوب جاتے ہیں راولپنڈی شہر ہمیشہ نالہ لئی کی نذرہوتاہے۔کیونکہ آج تک اس نالہ کا کوئی بندوبست نہیں ہوسکا پنجاب کے دیگر شہروں کا بھی بارش کے موسم میں برا حال ہوتا ہے شہروں کا یہ حال ہے تودیہات کا تو پرسان حال نہیں ہے پورے ملک میں عوام کو بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں مہنگائی عروج پر ہے عام آدمی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے جبکہ اسے علاج معالجہ کی سہولت بھی دستیاب نہیں ہے ملک کی آبادی 25کروڑ ہے لیکن بلاوجہ 3کروڑ آبادی کو چھپایا گیا جس کے سیاسی مقاصد تھے۔
ریاست کے عمومی یا مجموعی حالات روز بروز خراب ہوتے جارہے ہیں تمام دوستوں نے تعاون اور مدد کرنے سے معذرت کرلی ہے حتیٰ کہ آئی ایم ایف بھی منظور شدہ قرضہ دینے سے لیت ولعل سے کام لے رہا ہے۔اسکی وجہ سے سیاسی جنگ اور عدم استحکام ہے پاکستان کے تمام ادارے تقسیم ہیں اور وہ پسند اور ناپسند کی بنیاد پر فیصلے کررہے ہیں مرکز میں عمران خان کی حکومت گرجانے کے بعد انہیں فیصلوں کے ذریعے سہارا دے کر پنجاب کی حکومت دیدی گئی عمران خان ایک جارحانہ اور بے رحم شخص ہیں تمام ترحالات سے واقف ہونے کے باوجود وہ ریاست کو چلنے نہیں دے رہے ہیں انہوں نے اپنے جھوٹے مگر روز دار بیانیہ کے ذریعے عوام کی بے پناہ حمایت حاصل کرلی ہے ان کے لاکھ اسکینڈل آئیں لیکن ان کے مریدین یقین کرنے کو تیار نہیں عمران خان اپنے ہر عمل کو جائز اور دوسروں کے ہر عمل کر غلط ثابت کرتے ہیں مثال کے طور پر جب وہ وزیراعظم بنے تھے تو آرمی چیف نے ان کی انگلی پکڑ کر سارے دوست ممالک میں گھمایا اور امداد حاصل کرلی لیکن اب جبکہ امریکہ سے کہا گیا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط جلدی دلوائے تو موصوف نے بیان داغا ہے کہ یہ کام آرمی چیف کا نہیں اصولی طور پر تو ان کی بات صحیح ہے کاش کہ وہ اپنے دور میں بھی اسی اصول پر کاربند رہتے اب جبکہ عارف نقوی والا اسکینڈل برطانیہ کے معتبر اخبار فنانشل ٹائمز نے شائع کیا ہے تو وہ عمران خان اور ان کے پیروکار خیرات کے ان کروڑوں روپے کو پی ٹی آئی کے اکاؤنٹ میں ڈالے جانے کے واقعہ کوکرپشن نہیں سمجھتے تو سوال یہ ہے کہ کرپشن اور کس جانور کا نام ہے عمران خان کے پیروکار باالکل ہٹلر کے پیروکاروں پر گئے ہیں کہا جاتا ہے کہ 1945ء میں جب ہٹلر کو شکست ہوئی اس نے خودکشی کرلی اور برلن میں روسی فوج داخل ہوئی تو بھی ہٹلر کے پیروکار یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ ان کے مرشد کو شکست ہوگئی ہے کئی ایسے لوگ تھے جو کہتے تھے ہٹلر نے اپنی فوج کو کسی حکمت عملی کے تحت روسی فوج کی یونیفارم پہنائی ہے تحریک انصاف کے پیروکار باالکل اسی طرح اپنے لیڈرکے سوا کسی کو ماننے کیلئے تیار نہیں ان کا ماننا ہے کہ عمران خان ہر طرح کے عیب سے پاک ایک قطب اور ولی اللہ ہیں۔
لیکن جو بھی ہو حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ایسے حالات ہوگئے ہیں کہ یہ ریاست کروڑوں انسانوں کے رہنے کے لائق نہیں رہی یہ لوگ غالباً غیر معینہ مدت تک جانوروں اورحیوانوں کی زندگی گزارنے پر مجبور رہیں گے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں