ایک معصومانہ سوال

تحریر : انور ساجدی

کوئی بتا سکتا ہے کہ ریاست نے گزشتہ 74سالوں میںبلوچستان کے مظلوم اور محکوم عوام کو کیا دیا ہے؟ اس طویل عرصہ سے بلوچستان ہمیشہ انسانی المیوں کا شکار چلاآرہاہے کبھی آپریشن کبھی قدرتی آفات اور زلزلوں کی آماجگاہ بنارہتا ہے ایک طویل کہانی ہے جس کی ایک ایک تفصیل سب کو معلوم ہے۔
چند سال قبل طویل قحط پڑا تھا اس وقت پاکستان اس طرح یکہ وتنہا نہیں تھا جو آج ہے جاپان سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک نے قحط زدہ عوام کی مدد کیلئے اربوں روپے دیئے تھے لیکن اس وقت کی صوبائی حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کی بجائے ”فج“ اسکمیں تیار کرکے ان پیسوں کو ٹھکانے لگایا تھا حالیہ سیلاب کو دیکھئے پورا بلوچستان تباہ وبرباد ہے سارے علاقے کٹ کر رہ گئے ہیں لیکن مرکزی اور صوبائی حکومتیں فوٹو سیشن کرکے زخموں پر نمک چھڑک رہی ہیں حکمران سیلاب کے فضائی جائزے لے رہے ہیں نیچے جو بھوکی ننگی مفلوک الحال مخلوق ہے انہیںکیا پتہ کہ کون اوپر سے فضائی جائزے لے رہا ہے بلوچستان حکومت کے پاس اپنا طیارہ ہے لیکن ہیلی کاپٹر نہیںہیں ہزاروں لوگ جو سیلاب کی وجہ سے پھنس گئے تھے انہیں صرف فضا سے امداد دی جاسکتی تھی لیکن اس کا انتظام بھی محدود تھا دوسروں کو کیا دوش دیاجائے گزشتہ تین دہائیوں یہاں جو نام نہاد منتخب حکومتیں رہی ہیں انہوںنے وسائل کے ضیاع کے سوا کوئی کام نہیں کیا ہے جتنے ڈیم تعمیر کئے گئے وہ مناسب مقامات پر نہیںتھے اور کسی پلاننگ کے بغیر کچی مٹی سے بنائے گئے تھے۔
اس لئے سیلابوں کی تاب نہ لاکر ٹوٹ گئے صوبہ کے تمام دریا طوفانی بارشوں کی وجہ سے بپھر گئے تھے لیکن کسی حکومت نے نہیںسوچا کہ پورالی ہنگول رخشان گیشکور اور مشکے کے دریاﺅں پر بڑے ڈیم تعمیرکئے جائیں صوبہ کا بجٹ سارا سال پی ڈی ایس پی کے چکر میںرہتا ہے اور عوام کے منتخب نمائندے اسی پر جھگڑتے رہتے ہیں کئی ایسے ادوار آئے کہ بلوچستان میںکل جماعتی حکومتیں تھیں اور اپوزیشن کا کوئی وجود نہیںتھا فی الوقت بھی بیشتر جماعتیں حکومت کا حصہ ہیں اور اپوزیشن نام کی چڑیا موجود نہیںہے بلوچستان میںطویل عرصہ سے نمائشی حکومتیں بن رہی ہیں جنکو براہ راست کنٹرول کیاجاتا ہے۔
اگر یہ حکومتیں اور کچھ نہیںکرسکتیں تو کم از کم حکام بالا سے درخواست کریں کہ کچھ عوامی مفاد کے منصوبے شروع کرنے کی اجازت دیں تاکہ غریب عوام کو کچھ ریلیف تو ملے پر کیاکیاجائے کہ حکومت اپنے ہی عوام کو دشمن قرار دے کر اس کیخلاف صف آرا ہے اگر دیگر علاقے سرکشی کے زمرے میںآتے ہیں تو پورا پشتون بیلٹ پر امن اور پرسکون ہے وہاں پر کیوں کام نہیںکیاجاتا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرکزی سرکار کا یہ حتمی فیصلہ ہے کہ بلوچستان کو دائمی طور پر پسماندہ رکھاجائے اور انہیںجبری طور پر جدید دور میںداخل ہونے سے روکا جائے حیرت کی بات یہ ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کی اکثریت ابھی تک زندہ کیسے ہے؟ زندہ درگور تو وہ ہیں ہی لیکن وہ محنت کرکے اپنا دانہ پانی خود پیدا کررہے ہیں اگرچہ اعدادوشمار نہیںہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق شیرانی سے لیکر کیچ تک لاکھوں کنویں کھودے گئے ہیں جن پر لوگوں نے سولر فٹ کئے ہیں اسی کے ذریعے وہ کاشت کاری کرتے ہیں اور فصلیں اگاکر اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ان لاکھوں ٹیوب ویلوں کی وجہ سے زیر زمین پانی کے ذخائر تیزی کے ساتھ ختم ہورہے ہیں بارش کے پانی کو محفوظ بنانے کا کوئی منصوبہ نہیںبنایا گیا اگر طویل قحط پڑے تو پورا بلوچستان ”صحارا“ بن جائے گا اور لوگ مزید دربدر اور خاک بہ سر ہونگے۔
حالیہ بارشوں نے جو نقصان دیا ہے وہ بیان سے باہر ہے لوگوں کی پیاز ،کپاس ،مرچ اور سبزیوں کی فصلیں تباہ ہوئی ہیں یہ لوگوں کیلئے کڑا وقت ہے کیونکہ ان کا سب کچھ ختم ہوگیا ہے انہیںنئی فصلوں کیلئے ایک سال کا انتظار کرنا پڑے گا تو پورا سال کہاں سے کھائیںگے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کا یہ حال ہے کہ ہلاک وزخمیوں کیلئے نقد امداد کا اعلان کیا گیا ہے لیکن ابھی تک نقصانات کا تخمینہ نہیںلگایا گیا تو امداد کیسے دی جائے گی جو لوگ فوت ہوگئے تو ہوگئے جو زندہ بچے ہیں ان کیلئے انتظامات کی ضرورت ہے۔ابھی تک مرکزی اور صوبائی لوگوں نے امدادی رقوم مختص نہیںکی ہیں حالانکہ ایک فوری امداد ہے اور دوسرا نقصانات کا ازالہ ہے نقصانات کا ازالہ بیوروکریسی کے طریقہ کار کے مطابق نقصانات کا ازالہ کافی وقت لے گا لیکن اس سے پہلے شدید متاثرین کی فوری امداد انسانیت کا تقاضہ ہے اگر بارشوں کا سلسلہ جاری رہا تو بلوچستان میں ایسا انسانی المیہ جنم لے گا کہ اس کی مثال موجود نہیں لہٰذا صوبائی حکومت کو چاہئے کہ وہ خطرناک مقامات پر واقع لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے انتظامات کرے ویسے تو ہر جگہ متاثر ہے لیکن لسبیلہ ،آواران ،کوہلو اور قلعہ سیف اللہ سب سے زیادہ متاثر ہیں لسبیلہ اور آواران کا کافی دنوں سے رابطہ منقطع ہے حتیٰ کہ حکومت نے آر سی ڈی ہائی وے کو کھولنے کے انتظامات بھی نہیںکئے وزیراعلیٰ کو چاہئے تھا کہ وہ اپنے ضلع کا ہی دورہ کرتے اور لوگوں کو ریلیف پہنچاتے لیکن انہیںاس کا وقت نہیںملا۔
وزیراعظم شہبازشریف نے ایک دو مقامات کا دورہ کیا ہے لیکن دوروں کی بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے اگر عمران خان وزیراعظم ہوتے تو وہ یہ خالی خولی دورے کی زحمت بھی نہیں فرماتے کیونکہ ان کا غرور سرچڑھ کر بول رہا ہے حالانکہ وہ فارن فنڈنگ کیس میںرنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں ان پر کچھ طاقتور عناصر کی خاص عنایت ہے جو ابھی تک فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ زیر التوا ہے۔
لوگوں کو یادہوگا کہ پانامہ کیس میںاحتساب عدالت نے نوازشریف کو جو سزا سنائی تھی اس میںکہا گیا تھا کہ اپنے بیٹے کی کمپنی میںان کی جو10ہزار درہم تنخواہ طے تھی وہ ایک اثاثہ تھی اور نوازشریف یہ نے اثاثہ چھپایا لہٰذا انہیںقید جرمانہ اور نااہلی کی سزا سنائی جاتی ہے اس کے برعکس عمران خان پر 70کروڑ ڈالر کی غیر ملکی امداد ثابت ہے یہ میںنہیںکہہ رہا بلکہ پنجاب کے ایک سرکردہ صحافی جاوید چوہدری نے اپنے تازہ وی لاگ میںکہا ہے ان کا کہنا ہے کہ طاقتور حلقے اس کیس کو اپنے مقاصد کیلئے ایک اہم اثاثہ جان کر اسکا فیصلہ ہونے سے روک رہے ہیں تاکہ کسی خاص موقع پر اس کا اعلان کیاجائے یہ بھی مشروط ہے یعنی عمران خان نے ان کا کہا نہیںمانا اور کوئی رکاوٹ ڈالی تو اس وقت اس قیمتی اثاثے کا اعلان کردیاجائیگا ۔
جس سے تحریک انصاف ختم ہوجائے گی اور اس کے لوگ الیکشن لڑنے کے قابل نہیںرہیںگے معلوم نہیں کہ ایسا ہوگا کہ نہیںالبتہ یہ کیس ان کے سرپرہمیشہ تلوار کی طرح لٹکتا رہے گا نہ صرف یہ بلکہ یہ خدشہ بھی لاحق رہے گا کہ کہیں عارف نقوی فراڈ کیس میںامریکہ عمران خان کی حوالگی کا مطالبہ نہ کردے عارف نقوی اس وقت تک انگلینڈ میںمقدمے کا سامنا کررہے ہیں تاہم جب انہیںامریکہ کے حوالے کیا گیا تو بے شمار پردہ داروں کے نام سامنے آئیںگے جن میںعمران خان سرفہرست ہوگا عارف نقوی نے ”بل اینڈملنڈا“ فاﺅنڈیشن کے بھی کئی ارب ڈالر ہڑپ کرلئے ہیں اور بل گیٹ یوں آسانی سے کسی کو چھوڑنے والا نہیںہے۔
بہرحال جو بھی ہو جب ملک کا بڑا حصہ سیلاب میںڈوبا ہے معیشت جان بلب ہے تو اس ریاست کے حکمران بے فکری سے سیاست کا بے رحمانہ کھیل کھیل رہے ہیں وہ کیا چاہتے ہیں اور اپنی ریاست کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں یہ صرف وہی جانتے ہیں اس صورتحال میںصرف یہ دعا کی جاسکتی ہے کہ کروڑوں عوام کی خیر ہو۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں