آہ میرا بلوچستان ڈوب گیا

تحریر: ببرک کارمل جمالی
سیلاب سے رشتہ ہم بلوچستان کے باسیوں کا بچپن سے ہی ہے جب سے میں ہوش سنبھالا ہے تب سے یہ سیلاب آتے اور جاتے ہیں کبھی دریا سندھ کا پانی ہمیں ڈبوتا ہے تو کبھی ہمیں ناڑی بینک کا پانی تو کبھی دریائے مولا کا پانی ڈبوتا ہے تو کبھی بلوچستان کے ناکارہ سیم شاخ ہمیں پانی برد کرتے ہیں۔ ہمارے پیارے بلوچستان کے لوگوں کے گھر بار اناج سب کچھ یہ پانی چھین جاتا ہے۔
حالیہ دریائے مولا اور ناڑی بینک کینال کے سیلابی ریلے سے متاثر ہونے والے ان گھرانوں کی سسکیاں اور آہیں سننے والا کوئی نہیں ہے۔ حالیہ سیلابی ریلوں نے اپنے پیاروں کو گھروں سے بے دخل کر دیا۔ جن کے مال مویشی اور اسباب سب کچھ پانی کی نظر ہو گ?ے۔ یہ سب گھرانے اس وقت آسمان تلے بیٹھے ہوئے بے۔ سیلاب متاثرین کن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ازراہ کرم ان سیلاب متاثرین کے خشک لبوں پر لرزتے ہوئے فریاد کا کوئی تو نوٹس لے۔

میرے بلوچستان کے سیاست دانوں ہوش میں آؤں کیا کرو گے اس اقتدار کا۔۔۔۔۔کیا کرو گے اس سیاست کا۔۔۔۔۔ جو مشکل وقت میں بھی کرسی کرسی کا کھیل جاری رکھتا ہے۔۔۔۔ بلوچستان ڈوب رہا ہے آپ لوگوں کو اپنی لڑائیوں سے فرصت نہیں ہے۔۔۔۔ کل بروزِ قیامت کیسے رب کے سامنے جاؤں گے کیسے محمد کریم کے سامنے جاؤ گے اگر اللہ کے حبیبؐ نے پوچھ لیا میری امت ڈوب رہی تھی تم نے تب کہا تھے تو کیا جواب دو گے۔ اس وقت جیسے آج تم لوگوں نے سیلاب میں ڈوبے لوگوں سے منہ پھیرا ہوا ہے اگر روزِ محشر اللہ کے حبیبؐ نے تم سے منہ موڑ لیا تو پھر کیا کرو گے۔
اس وقت بلوچستان کے سیلاب متاثرین پانی کی کمی کا انتظار کر رہے ہیں جو جو صندوق و ٹرنک اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے خریدے تھے وہ سڑک کناروں تک پہنچتے پہنچتے خراب ہو گئے ہیں جوں جوں سیلابی پانی خشک ہو رہا ہے ان کے چہروں پر ایک مسکراہٹ سج جاتی ہے۔ بلوچستان کی بیٹیاں سیلابی پانی کی گہرائی کم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں منزل کے قریب آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایک مصیبت سے گزر آئے، برے دن ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اچھے دن شروع ہونے کی خوشی کا انتظار کر رہے ہیں اس خوشی کو وہی محسوس کرسکتے ہیں جنہیں کبھی ایسی آفات سے واسطہ پڑا ہوا ہے ان کی خوشیاں دیکھنے کے قابل ہیں۔
اے حکمرانوں ہم نے آپ کو کیا کیا نہیں دیا پورے ملک کے گھروں کے چولہے جلانے کے لئے گیس دیا۔ پوری ملک کا سب سے بڑے سونے اور معدنیات نکالنے کے لیے ریکوڈک دیا۔ ملک کو روشن کرنے کے لیے اوچ پاور پلانٹ جیسا بڑا منصوبہ دیا تاکہ آپ لوگوں کے گھر کی بتیاں کبھی بند نہ ہو۔ کیا ہوا اے حکمرانوں سوچو ایٹمی ملک بنانے کے لیے اپنی زمین دی دنیا کا پہلا ایٹمی ملک ہمارے ہی زمین کی وجہ سے یہ بنا۔ اے حکمرانوں ہوش کے ناخن لو جوش اتنا اچھا نہیں ہے۔ بلوچستان میں لوگ در بدر ہیں سیلابی پانی لوگوں کے گھر بار سب کچھ چھین لے گیا ہے۔ اس وقت ڈوبتے بلوچستان کو سہارے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر سہارا نہیں بن سکتے تو کم از کم دل آزاری کرنے کا حق آپ کے پاس نہیں ہے۔
آج سیلاب سے شدید متاثرہ علاقے بلوچستان کے وہاں نت نئی دکھ بھری کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ مال و متاع فصلات گھربار سب پانی کی نظر ہوگئے ہیں اپنے اور بچوں کی زندگیاں ہی بچا کر وہ نکل کر روڈ کنارے یا نہروں کی پشتوں پہ آکر بیٹھ گئے ہیں۔مگر المیہ یہ ہوا کہ کھانے کو روٹی اور پینے کو پانی تک میسر نا تھا۔ وہ لوگ جن کے لمبے دسترخوان ہوا کرتے تھے اب خود محتاج ہوگئے۔ بقول سیلاب متاثرین کے غریب کسان اور بزگر اپنے بیوی بچوں سمیت بھوکے کھلے آسمان تلے سوتے ہیں۔ بارش سیلاب بھوک سے لڑتے رہے۔ کسی امیر و صاحبان شہر میں اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ چند دیگ پکوا کر وہاں متاثرین میں تقسیم کرتے۔ بلوچستان کے سیلاب متاثرین اب کئی سال بعد اپنے پیروں پہ کھڑے ہونے میں لگیں گے۔ ضروری ہے کہ اس وقت سرکار و انتظامیہ وڈیرے بھوتار میر نواب پیر نکل کر خود سروے کرکے ریلیف کا کام کریں اور پانی اترنے کے بعد بحالی کے کام کو بھی میرٹ پہ کریں تاکہ غریب آدمی اپنے پیروں پہ کھڑا ہوسکیں۔ اس وقت ڈوبتے بلوچستان کو سرکار و انتظامیہ کے ساتھ ساتھ سماجی تنظیموں سیاسی رہنماؤں اور امراء اور صاحب حیثیت احباب کو بھی سیلاب متاثرین کے دکھ میں برابر شریک ہونا چاہیے۔ اللہ سیلاب متاثرین کو آسانیاں فراہم کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں