پبلشر لالا فہیم کی کتب میں کوئی ریاست مخالف مواد نہیں جس پر گرفتاری کا جواز بنے، لواحقین

کراچی (انتخاب نیوز) بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور پبلشر لالا فہیم بلوچ کے لواحقین کی کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کو چیئر پرسن، اسد اقبال بٹ اور قاضی خضر اور لاپتہ پبلشر اور صحافی لالا فہیم بلوچ کے لواحقین نے کہا کہ ہماری آج کی پریس کانفرنس نوجوان ساتھی فہیم بلوچ کی گمشدگی سے متعلق عوام کو آگاہ کرنا ہے۔ 25 سالہ لالا فہیم کا بنیادی تعلق بلوچستان کے ضلع پنجگور کے علاقے وشبود سے ہے۔ وہ علم و ادب پبلشنگ ہاﺅس کے منیجر ہیں جبکہ صدائے بلوچستان ڈاٹ کام اور سہ ماہی گدان پنجگور کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ وہ طویل عرصے سے نیول کالونی کراچی میں رہائش پذیر ہیں۔ دوستوں اور عزیزوں میں انہیں لالا فہیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پبلشر اور صحافی لالا فہیم بلوچ کو کراچی کے علاقے اردو بازار سے 26 اگست کی شام ساڑھے آٹھ بجے سول وردی میں ملبوس تین لوگ تین کمانڈوز کے ساتھ لالا فہیم کی بک شاپ، علم و ادب پبلشرز اینڈ بک سیلرز واقعہ بک مال، تھرڈ فلور اردو بازار میں آئے، عینی شاہدین کے مطابق انہوں نے لالا فہیم سے ایک کتاب کا معلوم کیا، اس کے انکار پر وہ چلے گئے مگر کچھ دیر بعد واپس آئے اور اسے اپنے ساتھ چلنے کو کہا اور اسے اپنے ساتھ لے کر نیچے موجود پولیس وین میں بٹھا کر لے گئے جس کے بعد اس کا کوئی اتا پتا نہیں۔ اس واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آگئی۔ فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سندھ پولیس اور کچھ سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار انہیں علم وادب کے دفتر سے لے جارہے ہیں۔ اس فوٹیج سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ لالا فہیم کے اغوا میں سندھ پولیس کی معاونت تھی اور سندھ پولیس براہ راست اس واقعے میں ملوث ہے۔ واقعے کے چار روز بعد 29 اگست 2022ءکو لالا فہیم بلوچ کے اغوا نما واقعے کی ایف آئی آر پریڈی تھانے میں لاپتہ فہیم بلوچ کی کزن ام حبیبہ ایڈووکیٹ کی مدعیت میں درج کرلی گئی۔ لالا فہیم نے کچھ دوستوں کی مدد سے 2016ءمیں علم و ادب بک سیلرز کے نام سے کتابوں کی ترسیل کا کام شروع کیا اور کچھ سال پہلے ہی پبلشنگ بھی شروع کی۔ اس دوران انہوں نے اپنے ادارے سے سو سے زیادہ علمی و ادبی کتابیں شائع کیں۔ علم و ادب پبلشرز زیادہ تر ادبی کتابیں شائع کرتا ہے۔ جس میں نوے فیصد سے زیادہ اردو میں اور چند ایک بلوچی میں بھی شامل ہیں۔ یہ کتابیں بازار میں عام طور پر دستیاب ہیں۔ ان میں کوئی ایسا مواد نہیں پایا جاتا جسے ماورائے آئین یا ریاست مخالف کہا جاسکے۔ فہیم کی رہائی کیلئے ہم نے سندھ ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا، جس کی سماعت بھی ہورہی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ عدالت سے ہمیں انصاف ملے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں