ملک چل رہا ہے!؟

راحت ملک
عجب تماشہ ہے ملک میں کرونا کی روز بروز پھیلتی وباء کے موثر تدارک کے لیے پارلیمنٹ کے ذریعے وسیع تر اتفاق رائے سے متفقہ فیصلے کرنے کے لیے اجلاس جاری ہے۔ جس میں جناب وزیراعظم تشریف نہیں لائے۔ خیر اس عمل سے ان کی انائیت پسندی اور تنقید برداشت کرنے کی صلاحیت کے فقدان کا اظہار ہوتا ہے۔۔ لیکن 13 مئی کو نماز ظہر سے پیلے جب سابق وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی انتہائی منجھے ہوئے پارلیمانی نفیس لب و لہجے اور معقول دلائل کے ساتھ خطاب کر رہے تھے تو میڈیا پر خبر چل گئی کہ مرکزی حکومت نے لاک ڈاؤن میں مزید نرمی لانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔۔
اگر قومی اسمبلی کو پالیسی سازی یا فیصلے کا موقع ہی نہیں دینا تھا تو اس کے لیے بے مقصد اجلاس طلب کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ حکومت کے طرز عمل سے ایک بار پھر یہ سوال موضوع بحث بنتا ہے کہ
کیا پاکستان میں جمہوری طرز حکمرانی چل رہی ہے یا اس نام پر ایک بونا پارٹ ازم مسلط ہے؟ (جسے میں ایک سال سے آذریت کہہ رہا ہوں۔!!!)
منگل کی شب ایک چینل پر جناب علی نواز اعوان صاحب جو پی ٹی آئی کے ایم این اے ہیں اور بے تکان آئیں بائیں شائیں والے الزاماتی بھاشن دینے کا خوب ملکہ رکھتے ہیں۔ تسلیم کر گئے کہ حکومت نے کبھی بھی کرونا سے بچاؤ کے لیے لاک ڈاؤن پالیسی کی حمایت نہیں کی تھی۔
اپنی ترنگ میں جو کچھ فرما گئے وہ حیران کن حد تک تلخ حقیقت۔۔۔مگر تشویشناک بات تھی۔
جناب علی نواز اعوان نے حکومت کے حلقے کی داخلی ذھننی سطح اور اصل سوچ و فکر کوافشاء کیا ہے۔ آپ اسے ہزار بار بچگانہ طرز فکر قرار دیں مگر یہ ہی وہ مائنڈ سیٹ ہے جو جناب عمران خان کا اصلی باطنی وزن ہے۔ تاہم علی اعوان صاحب بھول گئے کہ جب حکومت لاک ڈاؤن کرنے پر کبھی متفق رہی نہیں تو پھر پنجاب بلوچستان اور کے پی میں کس کے ایما اصرار یا ” حکم ” پر لاک ڈاؤن نافذ ہوا تھا؟؟ وہ بھی وزیراعظم کے فیصلہ کن خطاب کے فوری بعد۔۔!! انکے اقرار کے بعد
ثانوی طور پر یہ نقطہ بھی سامنے آتا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت کے بصیرت افروز فیصلوں کے نتیجے میں لاک ڈاؤن نافذ ہوا ہی نہیں۔تو پھر گذشتہ ایک ہفتہ سے مرکزی حکومت کس لاک ڈاؤن میں نرمیاں پیدا کرنے کا اعزاز لے رہی ہے۔؟؟؟ وہ جو کبھی نافذ نہیں ہوا ؟ یا وہ جس کی وجہ سے ملک میں کرونا تیزی سے پھیل نہیں سکا؟؟
پہلے سوال کا جواب تو جناب وزیراعظم خود ارشاد فرما چکے ہیں کہ ” بغیر سوچے سمجھے اشرافیہ نے لاک ڈاؤن نافذ کرا دیا "
یہ اعتراف بذات خود ملک چلانے میں وزیراعظم کے کردار کی نفی عیاں کرتا تھا۔ مگر میرے بہت ہی عزیز جناب شبلی فراز کا اب بھی اصرار ہے کہ وزیراعظم ملک چلا رہے ہیں ہو سکتا ہے وہ ” چ ” کی بجائے ”ج“کہنا چاہ رہے ہوں مگر اپنے عظیم والد کی وضع دارانہ روائت کی پیروی کی بنا پر لحاظ خاطر کا اہتمام کر گئے ہوں۔۔کہ ” محاصرہ ” کے اثرات مرتب تو ہوتے ہیں داخلی یا خارجی طور۔۔۔ فراز بتا گئے ہیں
تم اہل حرف کی پندار کے ثنا گر تھے
وہ آسمان ٍ ہنر کے نجوم سامنے ٍہیں۔
حکومت کے حالیہ فیصلے کے مطابق ملک بھر میں پہلی سے آٹھویں جماعت کے امتخانات کے بغیر ہی طلبہ کو کرونا ختم ہونے کے بعد ایک درجہ آگے کی جماعت کلاس میں بیٹھا دیا جائیگا۔
اس اقدام سے طلبہ کا ایک قیمتی تعلیمی سال ضائع ہونے سے بچ جانے گا تو دوسری طرف ان کے والدین اضافی فیسوں کی ادائیگی کے بوجھ سے بچیں گے۔اس فیصلے کی مجبوری بجا۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ وہ بچہ جس نے مثلاً تیسری یا پانچویں جماعت کا نصاب پڑھا ہی نہیں وہ اگلے درجے کے نصاب کو کیسے سمجھ پائے گا؟
کیا طلبہ اس بوجھ کو برداشت کر پائینگے؟
یہ کہنا کہ کرونا کی تعطیلات کے دوران والدین بچوں کو گھروں میں نصاب مکمل کرائیں۔ سہل بات ہے مگر عملی طور پر ناممکن۔۔۔
وفاقی وزیر تعلیم حکمنانہ جاری فرما چکے کہ دسویں اور بارہویں جماعتوں کے امتحانات بھی نہیں ہونگے؟
تو کیا میڑک اور ایف اے ایف ایس سی کے طلبہ کو بھی اسناد جاری ہو جائیں گی؟ یہ ابہام البتہ موجود ہے امید ہے جناب شفقت محمود کی دانائی اس قضیے کو بھی بہ آسانی حل کر لے گی۔۔
اگر میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے طلبہ کو بنا امتحانات اسناد کا اجرا کیا گیا تو اس کا معیار کیا ہوگا؟ کیسے طے ہوگا کہ الف کو میڑک میں 640 نمبر ملیں گے اور نوید کو 890؟؟؟
ان کے ماضی کی قابلیت اگر فیصلہ کن عنصر ٹھہرے گی تو اقربا پروری اور ناانصافی و اثر ورسوخ کی اثر اندازی کیا کیا رنگ نہیں لائے گی۔؟
میٹرک کی سند اور میرٹ کی بنیاد پر انٹرمیڈیٹ کی کلاسوں میں داخلے ملتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو بااثر گھرانوں کے بچے تو آگے نکل جائیں اور کمزور افراد کے بچے تعلیم میں مزید پیچھے دھکیل دیے جائیں۔
انٹر کی اسناد و میرٹ کا تکنیکی فنی اداروں۔ بالخصوص بہتر معیار ٍٍ تعلیم کی شہرت رکھنے والے کالجوں میں داخلے میں اہم کردار ہوتا ہے
ناعاقبت نااندیش فیصلوں سے غریب مگر ذہین طلبہ استحصال کی بھینٹ نہ چڑھ جائیں جن کے نام کا واویلہ کرکے حکومت نے لاک ڈاؤن ختم کیا ہے تاکہ وہ اجرت و روزگار کمائیں دال روٹی کھائیں بھلے سماجی فاصلہ نہ رکھنے کی پاداش میں کرونا میں مبتلا ہوجائیں۔ تو کہنا یہ ہے کہ امتحانات کے بغیر اگلے درجوں میں پرموٹ کرنے میں کچھ فوائد ہیں تو بہت سے نقصانات بھی۔ چھوٹی کلاسوں کے طلبہ پر ذہنی دباو آئے گا جبکہ میٹرک و انٹرمیڈیٹ کے مراحل میں میرٹ کا بحران پیدا ہوگا۔
مرکزی مقتدرہ روز اول سے 18 ویں آئینی ترمیم سے ناخوش چلی آرہی ہے۔اس کے کئی اسباب ہیں۔ بحث محدود رکھتے ہوئے میں این ایف سی ایوارڈ کا حوالا دونگا جسے نام لیے بغیر نشانے پہ رکھا جا چکا ہے۔گزشتہ دنوں صدر مملکت نے نیا این ایف سی ایوارڈ تشکیل دیا ہے خیال ہے کہ نوشکیل شدہ قومی مالیاتی کمیشن کے ذریعے حکومت مرکز اور صوبوں کے درمیان قابل ٍ تقسیم پول کے مالی وسائل کی تقسیم کے فارمولے میں من پسند تبدیلی لانے میں کامیاب ہوجائے گی!! کیونکہ۔ اس کمیشن میں اسے عددی برتری حاصل ہے۔۔ وزیراعظم جو وزیر خزانہ بھی کمیشن کے سربراہ ہونگے پنجاب بلوچستان اور کے پی میں اپنی حکومتوں کے ذریعے مرکزی وسائل کا حصہ بڑھا لینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
سندھ حکومت کی مزاحمت آئینی تو ہوگی لیکن رائے شماری میں کمزرو۔
خدشہ ہے کہ اس بار بلوچستان حکومت کا موقف بھی ماضی کے برعکس مرکزی مقتددہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکتا ہے خدشات کا آغاز کمیشن میں بلوچستان کی طرف سے غیر سرکاری رکن کے لیے محترم جاوید جبار صاحب کو نامزد کیے جانے سے شروع ہوا ہے۔
نئے کمیشن کی تشکیل کا عندیہ ملا تو مارچ میں جناب جاوید جبار کا نام باضابطہ طور پرپر وزیر اعلیٰ نے گورنر بلوچستان کو بجھوایا تھا تاکہ وہ آئینی طور یہ نام مرکزی حکومت کو ارسال کردیں۔ اس اطلاع کے عام ہونے پر صوبے کے سیاسی صحافتی دانشور حلقوں میں اضطراب پایا گیا احتجاج سامنے آیا تو خبر چھپی کہ جناب جاوید جبار کا نام حکومت نے واپس لے لیا ہے لیکن اب جب کمیشن کا اعلان ہوا تو جناب جاوید جبار کا نام بلوچستان کے غیر سرکاری رکن کے طور پر منظر عام پر آیا ہے
جناب جاوید جبار بہت اچھے انسان مہذب تعلیم یافتہ ادیب و صحافی ہیں۔ وہ ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے وابستہ کامیاب تاجر ہیں ان کی قابلیت سلیق شعاری سے بات کرنے اور سننے کے زمرے میں مسلمہ ہے کیا وہ معاشیات کے بھی ماہر ہیں؟ میں نہیں جانتا البتہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوں کہ جناب بلوچستان کے جغرافیہ اور بلوچستان کی مخصوص سیاسی ثقافت جو قوم دوست یا صوبائی خودمختاری کی شناخت و شہرت رکھتی ہے سے کوئی نسبت و تعلق نہیں رکھتے اگر بدگمانی شمار نہ ہو تو شاید وہ صوبے کے سیاسی ماضی اور عوامی امنگوں سے ہمدردانہ وابستگی کا کوئی تاریخی حوالہ نہیں رکھتے۔ پھر یہ کہ ان کا بلوچستان میں کوئی سیاسی اسٹیک بھی نہیں کہ جسے محفوظ رکھنے کیلیے وہ ایسا رویہ اپنائیں جسے بلوچستان میں تو عوامی پذیرائی ملے مگر مرکزی مقتدرہ خفا ہوجائے
جناب جاوید جبار کا نام ملک بھر میں احترام بھرے جذبے سے سنا و پکارا جاتا ہے میں امید کرتا ہوں کہ وہ از خود اپنی نامزدگی سے معذرت کرلیں گے تاکہ امکانی طور پر ناخوشگوار فیصلوں کا بوجھ ان پر نہ آئے خود کو تنازعات میں الجھانا شاید ان کے شایان شان بھی نہ ہو۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں