بلوچستان اسمبلی اجلاس، ہرنائی ہیلی کاپٹر حادثے اور ایف سی صوبیدار کے اغوا کی مذمت

کوئٹہ (انتخاب نیوز) بلوچستان اسمبلی نے ہرنائی کے علاقے میں فلائنگ مشن کے دوران ہیلی کاپٹر حادثے میں فوجی جوانوں کی اموات اور وفاقی لیویز کے ملازمین کے مستقبل کے حوالے سے دو الگ الگ قرار دادیں متفقہ طورپر منظورکرلی، بلوچستان میں حالیہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے حوالے سے ایک پارلیمانی کمیٹی اسلام آباد جاکر وزیراعظم کو نقصانات کے بارے میں آگاہ کریگی بلوچستان اسمبلی کا اجلاس تین گھنٹے 15 منٹ کی تاخیر سے پینل آف چیئرمین کے رکن عبدالواحد صدیقی کی زیر صدارت شروع ہوا اجلاس کے آغاز پر بی این پی کے رکن اسمبلی اکبر مینگل نے قوم پرست رہنماءیوسف مستی خان کی وفات پر ان کی روح کی ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کرنے کی درخواست کی جس پر ایوان میں فاتحہ خوانی کی گئی اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے جمعیت علماءاسلام کے رکن اصغر علی ترین نے کہاکہ بلوچستان اسمبلی کے باہر زمیندار احتجاج پر ہیں زمینداروں کا غم کھایا جائے انہوں نے بجلی کے بل معاف کرنے نقصانات کے ازالے سمیت چھ نقات پیش کئے ہیں جس پر کمیٹی بناکر ان سے مذاکرات کئے جائیں صوبائی وزیر زراعت میر اسدا للہ بلوچ نے کہا کہ سیلاب کی تباہ کاریاں بہت زیادہ ہیں اگر مرکز صوبے کا ساتھ دے تو ہم بحالی کو ممکن بناسکتے ہیں انہوں نے کہا کہ مرکز صوبے کو بیس ہزار ٹریکٹر گھنٹے چھ لاکھ بلڈوز گھنٹے زرعی قرضہ معاف ٹیوب ویلز کے بقایاجات ختم کرنے میں معاونت کرے انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت سولہ ارب روپے کی لاگت سے زمینداروں اور کسانوں کو بھیج دے رہی ہے صوبے اس پوزیشن میں نہیں کہ اپنے وسائل کے تحت بحالی ممکن بنائے بلوچستان زخمی محروم اور احساس کمتری کا شکار ہے وفاقی نمائندے دورے نہیں بلکہ بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھے زمینداروں کے مطالبات جائز ہیں ان سے مذاکرات کیلئے کمیٹی بنائی جائے اس وقت زمینداروں کو ہر ممکن معاونت کی ضرورت ہے وفاق اور صوبہ جو کچھ اپنے وسائل میں رہتے ہوئے کررہاہے اس ہونے دیا جائے انہوں نے کہاکہ بیرون ملک سے آنے والی امداد مرکز میں جمع ہورہی اب تک صوبے کو کچھ نہیں ملا۔ صوبائی وزیر آبپاشی محمد خان لہڑی نے کہا کہ نصیرآباد ڈویژن میں گندم کے بیج لگانے کا موسم آرہا ہے ہر سال نصیر آباد میں بیس سے تیس لاکھ ایکٹر گندم کاشت ہوتی ہے ریلیف کے کاموں کی مخالفت نہ کی جائے۔بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر احمد شاہوانی نے کہا کہ ایک اندازہ کے مطابق بلوچستان میں پندرہ ارب ڈالر کے نقصانات ہوئے ہیں زمینداروں کو بحالی کیلئے رقم کی ضرورت ہے ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جو وفاق میں وزیراعظم سمیت دیگر حکام سے ملاقات کرکے بلوچستان کا کیس ان کے سامنے رکھنے انہوں نے کہاکہ تخمینہ کمیٹی میں زمینداروں کے نمائندے شامل کئے جائیں اس وقت صوبے کے سترہ سے اٹھارہ اضلاع میں بجلی بند کردی گئی ہے جس کی وجہ سے زرعی ٹیوب ویلز سے پانی کی فراہمی معطل ہے بجلی کی بحالی کیلئے دو سے ڈھائی ارب روپے سالانہ چائیے ہوتے ہیں اس رقم کے اجراءکو یقینی بنایا جائے صوبائی وزیر میر اسد اللہ بلوچ نے کہا کہ محکمہ زراعت نے نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے کہ زراعت کے حوالے سے جو بھی معاملات ہوں ان میں زمینداروں کا نمائندہ شامل ہونا چاہیے دیگر صوبوں نے بیج کی بکنگ شروع کردی ہے اگر بروقت بکنگ نہ کی گئی تو اس سے خوراک کی کمی کا خدشہ پیدا ہوسکتا ہے، صوبائی وزیر سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو ریلیف کے کاموں کیلئے رقم جاری کی ہے کسانوں کو پندرہ ارب روپے کی سبسڈی دے رہے ہیں انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں ترقیاتی بجٹ 90 ارب روپے ہے جس میں سے ستر ارب روپے کی رقم موجود ہوتی ہے اس میں آن گوئنگ نئی اسکیمات سمیت دیگر اخراجات بھی کرنے ہوتے ہیں حکومت محدود وسائل میں رہتے وہئے سنجیدگی سے کام کررہی ہے پارلیمانی کمیٹی اسلام آباد جائے گی جہاں بلوچستان کے مسائل اٹھائے جائیں گے اس موقع پر چیئرمین عبدالواحد صدیقی نے رولنگ دی کہ صوبائی وزراءمیر اسد اللہ بلوچ، محمد خان لہڑی اور اراکین اسمبلی اصغر علی ترین، ملک نصیر شاہوانی، بابا رحیم مینگل، نصراللہ زیرے پر مشتمل کمیٹی اسمبلی کے باہر احتجاج کرنے والے زمینداروں سے مذاکرات کریں اور وزیراعلیٰ سے ان کی ملاقات کرائی جائے بعدازاں اجلاس میں نماز مغرب کیلئے دس منٹ کا وفقہ کیا گیا۔وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو صوبائی وزراءسردار عبدالرحمن کھیتران، محمد خان لہڑی، صوبائی مشیر میر ضیاءاللہ لانگو، پارلیمانی سیکرٹری خلیل جارج کی مشترکہ قرار داد ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہر گاہ ہے کہ بلوچستان اسمبلی کا یہ ایوان ہرنائی کے علاقے خوست میں فلائنگ مشن کے دوران فوج کے ہیلی کاپٹر کو درپیش حادثے میں میجر منیب، مینجر شہزاد، صوبیدار واحد، نائیک جلیل، سپائی عمران اور سپاہی شعیب کی اموات پر انتہائی گہرے دکھ رنج وغم اور شہدا کے لواحقین سے دلی ہمدردی یکجہتی اور تعزیت کا اظہار کیا۔ مزید براں یہ ایوان ہرنائی کے علاقے سے ایف سی کے صوبیدار کے اغواءکے واقعہ کی بھی پر زور الفاظ میں مذمت کرتا ہے یہ ایوان بلوچستان کے طول وعرض میں امن وامان کے قیام اور تخریب کاری کے خاتمے کی جانب میں فوج کی بیش بہا قربانیوں کو نہ صرف خراج عقیدت پیش کرتا ہے بلکہ بلوچستان کے عوام کی ترقی وخوشحالی اور حالیہ سیلاب متاثرین کی بروقت امداد وبحالی کی سرگرمیوں میں فوج اور ایف سی کے شاندار اور متحرک کردار پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہے،صوبائی وزیر مواصلات و تعمیرات سردار عبدالرحمن کھیتران نے قرارداد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے کہاکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سرزمین کی حفاظت لوگوں تک سہولیات تک پہنچانے اور رنج اور مصیبت میں ان کے ساتھ رہتے ہوئے اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہیں انہوں نے کہاکہ انہی قربانیوں کی بدولت آج ہم اپنے گھر میں سکون سے آرام کی نیند سو رہے ہیں انہوں نے کہا کہ ایوان مذکورہ قرار داد کو مشترکہ طور پر پاس کیا جائے۔ انہوں نے ہرنائی سے ایف سی صوبیدار کے اغوا کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے گھٹیا حرکتوں سے صوبے کے امن کو تباہ نہیں ہونے دیں گے نہ ہی سیکورٹی اداروں کی قیام امن کیلئے دی جانی والی قربانیان رائیگاں جائیں گی یہ ایوان اپنی افواج کے شانہ بشانہ ہے اور یہ عہد کرتے ہیں کہ سرزمین کیلئے اگر ہمیں اپنے خون کا نذرانہ پیش کرنے کی ضرورت پڑے تو اس سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ صوبائی مشیر داخلہ میر ضیائاللہ لانگو نے کہاکہ سیکورٹی فورسز تخریب کاری کے خلاف اور قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے پیش پیش ہیں فورسز نے اپنی جانیں قربان کرکے قیام امن کو یقینی بنایا آج صوبے اور ملک کی عوام سکون کی زندگی گزار رہے ہیں انہوں نے کہاکہ ہم اپنے فورسز کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں صوبائی پارلیمانی سیکرٹری برائے اقلیتی امور خلیل جارج نے کہاکہ پاکستان بالخصوص بلوچستان میں سیلاب متاثرین کی مدد کرتے ہوئے کور کمانڈر لیفٹیننٹ میجر جنرل سرفراز علی اور ساتھیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ صوبائی وزیر صحت سید احسان شاہ نے شہدائکی درجات کی بلندی کی دعا کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ اداروں اور حکومت کو چاہئے کہ وہ ہرنائی سے اغواءہونے والے ایف سی کے صوبیدار کی بازیابی کیلئے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لاتے ہوئے انہیں بازیاب کرائیں۔ بعد ازاں قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔ پشتونخوامیپ کے رکن اسمبلی نصراللہ زیرے نے ایوان میں قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہرگاہ ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد وفاقی لیویز صوبے کے حوالے کئے گئے ہیں لیکن تاحال وفاقی لیویز کے ہزاروں ملازمین کے مستقبل کی بابت صوبائی حکومت نے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے ہیں جس کی وجہ سے وفاقی لیویز کے ملازمین میں سخت اضطراب پایا جاتا ہے لہذا یہ یوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی لیوی ملازمین کے سروس سٹرکچر اور ان کے مستقبل کی بابت عملی اقدامات اٹھانے کو یقینی بنائے تاکہ ان میں پائی جانے والی بے چینی اور احساس محرومی کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔ اجلاس میں پشتونخوا میپ کے رکن اسمبلی نصر اللہ زیرے نے قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اٹھارویں آئین ترمیم کے بعد وفاقی میں بھی اس کو صوبے کے حوالے کیا گیا ہے محکمہ سیفران نے مزید لیویز ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنے سے انکار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کے پی کی حکومت نے وفاقی لیویز کو صوبائی لیویز میں ضم کردیا ہے۔ محکمہ داخلہ بلوچستان کو چاہئے کہ وہ وفاقی لیویز کا سب اسٹرکچر تشکیل دے کر انکو صوبائی لیویز میں ضم کرے۔ صوبائی مشیر داخلہ میر ضیائاللہ لانگو نے کہاکہ اس سلسلے میں وفاقی حکومت سے بات کی ہے لیویز ملازمین کو تنخواہوں کی مد میں دو ارب سترہ کروڑ سے زائد رقم ادا کرنی پڑیگی انہوں نے کہاکہ وفاقی لیویز کو تنخواہوں کی ادائیگی کے سلسلے میں محکمہ سیفران کو مراسلہ ارسال کیا جائیگا۔ فنانشل مسائل حل کئے بغیر وفاقی لیویز کو صوبائی لیویز میں ضم نہیں کرسکتے، فنانشل مسائل حل ہونے کے بعد وفاقی لیویز کو صوبائی لیویز میں ضم کردیں گے۔ رکن اسمبلی عارف جان محمد حسنی نے کہا کہ قرار داد پاس کرنے کے ساتھ ساتھ وفاقی لیویز کو صوبائی لیویز میں ضم کرنے کی بجائے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا جائے کہ وہ وفاقی لیویز کے فنڈز کے اجرائکو یقینی بنائے۔ صوبائی وزیر سید احسان شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت وسائل کے ساتھ وفاقی لیویز کے اختیارات بلوچستان حکومت کو منتقل کریں۔ ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے کہاکہ یہ پانچ ہزار لوگوں کے روزگار کا مسئلہ ہے جلد از جلد اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ بعد ازاں قرار متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔بی اے پی کے رکن اسمبلی میر عارف جان محمد حسنی نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ گورنر تبوک گزشتہ چالیس سالوں سے تلور کے شکار کے لئے چاغی آتے ہیں مگر اس دوران وہاں کوئی ترقیاتی کام نہیں کرائے گئے ماسوائے ایک ہسپتال کی بلڈنگ تعمیر کی گئی جسے خود چلانے کی بجائے صوبائی حکومت کے حوالے کیا گیا، ملکی قوانین کے تحت سب سے زائد تلور کے شکار پر پابندی عائد ہے مگر یہ لوگ وہاں ہزاروں کی تعداد میں تلور کا شکار کرکے چلے جاتے ہیں مگر ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں، انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں رنجشوں کی وجہ لوکل باڈیز انتخابات یا محکمہ منرلز ہیں پیسوں کے عیوض محکمہ مائنز اینڈ منرلز سے دوسرے کی الاٹ کی گئی زمین اپنے نام الاٹ کی جاسکتی ہے انہوں نے کہاکہ اس محکمے کے کرپٹ افسران کو عبرت کا نشانہ بنایا جائے اور محکمہ کو کمپیوٹرائز کیا جائے۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہاکہ بلوچستان میں نئے اضلاع کے قیام کے حوالے سے کوئی معیار نہیں ہے اس حوالے سے قانون وضع کئے جائیں انہوں نے کہاکہ گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ انہوں نے حب کو ضلع بنانے کا فیصلہ عجلت میں کیا ہے 80فیصد لوگ حب کو ضلع بنانے کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے ایک رکن اسمبلی بضد ہیں کہ انہیں ضلع چاہئے حب کو ضلع بنانے کے حوالے سے کیس عدالت میں زیر سماعت ہے انہوں نے کہاکہ میرے دور حکومت میں جب قلعہ عبداللہ کو ضلع بنایا جارہا تھا تو اس کیلئے ہمیں 8سے 9ماہ لگے ہم نے زمینی حقائق وہاں کی ضروریات آبادی و دیگر امور کا جائزہ لینے کے بعد قلعہ عبداللہ کو ضلع بنایا جسے وہاں کے عوام نے تسلیم کیا۔ انہوں نے کہا کہ نئے ضلع کے معیار کے تعین کیلئے ایک کمیٹی بنائی جائے جمعیت کے رکن اسمبلی اصغر ترین نے کہاکہ جام صاحب نے اپنی حکومت میں جب قلعہ سیف اللہ کو ضلع بنایا تو کیا اس وقت معیار کا تعین کیا گیا تھا۔ بی این پی کی رکن اسمبلی شکیلہ نوید نے کہاکہ وفاق میں جعلی ڈومیسائلز پر افسران وفاقی محکموں میں بلوچستان کے کوٹے پر تعینات ہیں، جعلسازی سے وفاقی محکموں میں تعینات افسران کو انکی نوکریوں سے ٹرمینیٹ کیا جائے۔ رکن اسمبلی نصر اللہ زیرے نے کہاکہ جعلی ڈومیسائل کے حوالے سے ایوان سے قرار داد بھی منظور ہوئی تھی جس پر ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے چیف سیکرٹری بلوچستان کو ہدایت کی تھی کہ وہ ڈپٹی کمشنر سے ڈومیسائلز کی تصدیق کے حوالے سے رپورٹ لے کر ایوان میں پیش کرے مگر یہ رپورٹ اب تک ایوان میں پیش نہیں کی جاسکی۔ جس پر ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے کہاکہ چیف سیکرٹری بلوچستان ڈومیسائل کی تصدیق کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر سے رپورٹ طلب کرکے ایوان میں پیش کریں۔ اجلاس میں صوبائی مشیر داخلہ میر ضیاءلانگو نے بلوچستان اسمبلی کے سامنے دھرنے پر بیٹھے مظاہرین سے مذاکرات کے حوالے سے ایوان کو آگاہ کیا کہ 14اگست کو خوست میں پیش آنے والے واقعے جس میں ایک شخص ہلاک اور تین زخمی ہوئے تھے اس حوالے سے اسمبلی کے سامنے دھرنا دیا گیا ہے ہم نے جا کر دھرنے کے شرکاءسے مذاکرات کئے ہیں اس سے قبل بھی دھرنے کے شرکاءکے مطالبے پر واقعے کا مقدمہ درج کیا گیا زخمی ہونے والے ایک شخص کو سرکاری خرچے پر علاج کیلئے کراچی منتقل کیا گیا جبکہ فوت ہونے والے شخص کے لواحقین کو پندرہ اور زخمیوں کو پانچ پانچ لاکھ روپے کی امدادی رقم کے چیکس ڈپٹی کمشنر کے پاس پڑے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ دھرنے کے شرکائکے مطالبات میں سے اکثر پورے کردیئے گئے ہیں جبکہ دیگر کو بھی جلد حل کیا جائے گا۔ اس حوالے سے دھرنے کے شرکائکو بھی آگاہ کردیا گیا ہے جس پر ڈپٹی اسپیکر نے کہاکہ خوست میں پیش آنے والے واقعے کے حوالے سے دھرنے کے شرکاءکے کافی مطالبات حل ہوچکے ہیں انہوں نے مشیر داخلہ کو ہدایت کی کہ وہ اور محکمہ داخلہ کے افسران شرکاءکے ساتھ بیٹھ کر مسائل حل کریں اور اسمبلی کے سامنے دیا گیا دھرنا ختم کرایا جائے۔ بعد ازاں ڈپٹی اسپیکر نے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں