ٹیکسلا: جس پر ساکاؤں نے 100 برس حکومت کی

ابوبکر شیخ
گزشتہ سے پیوستہ
چندر گپت نے آخری وقت میں جین مت قبول کر لیا اور حکومت اپنے بیٹے بندوسار (273-298 ق۔م) کو دی جس نے پچیس برس تک حکومت کی، پھر زمانہ آیا اس کے بیٹے اشوک (232-273 ق۔م) کا۔ کلنگا کی جنگ میں مرے ہوئے لاکھوں انسانوں کے خون کے چھینٹے اس کے دامن پر آج بھی نظر آتے ہیں، لیکن یہ بھی ہے کہ اس جنگ نے اسے بدل کر رکھ دیا، اور اس نے اپنی وسیع حکومت میں بدھ مت جاری کیا۔ اشوک نے مشہور بھکشو دھرما راجیکا کو ٹیکسلا میں یونانی نوآبادیوں میں تبلیغ کے لیے بھیجا۔
بدھ مت وادی سندھ سے افغانستان اور وسطی ایشیا میں داخل ہوا، پھر چین کی راہ سے جاپان اور کوریا تک پہنچا۔ رفتہ رفتہ بھکشوؤں کے لیے وہار اور اسٹوپا تعمیر ہونے لگے، اور یہ جگہیں تعلیم اور عبادت کا مرکز بن گئیں۔ ان میں سے بڑا مرکز ٹیکسلا تھا۔ ٹیکسلا کی وہ پاٹھ شالائیں جو ویر کے بھجنوں اور اپنشدھ کے اشلوکوں سے گونجتی تھیں، اب وہ بدھ مت کی درسگاہوں میں تبدیل ہوگئیں۔
اشوک کے بعد موریا سلطنت پر زوال آیا تو باختر کے یونانی نڑاد بادشاہوں نے وادیء سندھ پر قبضہ کرلیا لیکن پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ یونانیوں کے اقتدار کا سورج پہلی صدی میں ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔ ‘ساکاؤں ‘ کی آخری یلغار میں انہوں نے یونانیوں کو شکست دے کر گندھارا پر قبضہ کرلیا اور رفتہ رفتہ ان کی سلطنت پنجاب، اور سندھ سے متھرا تک پھیل گئی (90 ق-م سے 25ع)۔ ان کا جھکاؤ بدھ مت کی طرف تھا، مگر دوسرے مذاہب سے بھی ان کا برتاؤ بڑی رواداری اور نرمی کا رہا۔ ساکاؤں کو ٹیکسلا میں راج کرتے 100 سال گذرے تھے کہ ‘پارتھیوں ‘ کا ریلہ آیا اور ساکاؤں کے اقتدار کو بہا کر لے گیا۔
سبط حسن لکھتے ہیں: "پارتھین ایرانی نڑاد نہایت مہذب لوگ تھے، چنانچہ گندھارا آرٹ کی ابتدا انہی کے دور میں ہوئی۔ پارتھیوں نے یہاں 53 برس تک حکومت کی۔ اس کے بعد ‘کشن’ قوم نے سر اٹھایا اور وادیء سندھ پر قبضہ کرلیا۔ کشنوں نے 200 برس تک حکومت کی۔ سلطنت کا مرکز چونکہ گندھارا کا علاقہ تھا، اس لیے گندھارا کو ترقی کے خوب مواقع ملے۔ گندھارا آرٹ اس تہذیبی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔”
آرین، یونانی، ساکا، پارتھین، اور کشن تہذیبوں کا نچوڑ ہے ‘گندھارا آرٹ’۔ اس آرٹ کا مرکز یوں تو ٹیکسلا تھا، لیکن اس کے سحر کی جڑیں دور پشاور، مردان، سوات، افغانستان، حتیٰ کہ وسطی ایشیا تک پھیلی ہوئی تھیں۔
ابتدا، کمال، خوبصورتیوں، دکھ سکھ، شکست و ریخت کے ذائقے کی کیفیتوں کو محسوس کرتے ہوئے ہم آخر وہاں آکر پہنچے جہاں کمال کا اختتام ہوتا ہے اور زوال کے زینوں کی ابتدا ہوتی ہے۔ یہ فطرت کا اصول ہے کہ ہر کمال کی کوکھ میں زوال کا بیج ہوتا ہے۔ بس اس کے اگنے کا وقت، حالات اور واقعات مقرر کرتے ہیں۔
یہاں بھی یہ وقت آ پہنچا۔
460ع میں ظالم، وحشی اور بے رحم ‘حنوں ‘ نے اپنی وحشتوں سے شہروں اور بستیوں کو مسمار کردیا، اسٹوپاؤں اور وہاروں میں آگ لگا دی، ہزاروں بے گناہ جان سے مارے گئے، اور گندھارا کا فن ایسا مٹا کہ پھر کبھی زندگی کی سانس اس میں پھونکی نہ جاسکی۔
مشہور چینی سیاح ہوانگ سانگ حنوں کے آخری دنوں میں 629ع میں یہاں آیا۔ سوات کا ذکر کرتے وہ لکھتا ہے: "یہاں کسی زمانے میں 18 ہزار بھکشو رہتے تھے لیکن اب وہار اور اسٹوپا ویران پڑے ہوئے ہیں۔ البتہ یہاں ہندوؤں کے دس مندر بن گئے ہیں۔” ٹیکسلا کا حال بھی کچھ اس طرح کا بیان کیا گیا ہے۔
سبط حسن لکھتے ہیں: "حقیقت یہ ہے کہ پانچویں، چھٹیں اور ساتویں صدی کا زمانہ اس تہذیب کا تاریک ترین دور ہے۔ ان تینوں صدیوں میں علم و فن نے کوئی ترقی نہیں کی۔” دسویں صدی میں کتاب الہند کے مصنف ابو ریحان البیرونی (1048-973ع) نے ٹیکسلا کو دیکھا تھا تو یہ شہر ویران ہوگیا تھا۔ یہ ایک کمال اور اس کے زوال کی کہانی تھی مگر یہ ضرور ہے کہ ایسا کمال بہت ہی کم علاقوں کے نصیب میں ہوتا ہے، یہ تہذیبوں کو جوان کرنے کا یادگار زمانہ تھا۔(ختم شد)

اپنا تبصرہ بھیجیں