نیشنل فنانس کمیشن کی تشکیل کے آئینی تقاضے

اداریہ
وفاق اور صوبوں کے درمیان مالیاتی اموراور محاصل کی تقسیم کے حوالے سے ہم آہنگی برقرار رکھنے لئے آئین کے آرٹیکل 160کے تحت صدرمملکت ایک نیشنل فنانس کمیشن تشکیل دیں گے جو وفاقی وزیر خزانہ، چاروں صوبائی وزرائے خزانہ اور ایسے دیگر افراد پر مشمل ہوگا جنہیں صدر مملکت متعلقہ صوبائی گورنر کی مشاورت سے تقرر کریں گے۔لیکن سندھ اور بلوچستان تشکیل دیئے گئے نیشنل فنانس کمیشن سے مطمئن نہیں ہیں۔سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے 10ویں قومی مالیاتی کمیشن کو اس بناء پر مسترد کر دیا ہے کہ آئین کے مطابق مشیر خزانہ کمیشن کی سربراہی نہیں کر سکتا۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان خط لکھا ہے کہ صدر مملکت کو مشورہ دیں کہ 12مئی 2020کے نوٹیفکیشن کو واپس لیں، اور آئین کے مطابق نیا نوٹیفکیشن جاری کریں۔بلوچستان کو یہ شکایت کہ قومی مالیاتی کمیشن میں جس شخص (جاوید جبار)کو بلوچستان کے نمائندہ کے طور پر تقرر کیا ہے ان کا تعلق بلوچستان سے نہیں، لہٰذا کسی غیر بلوچ کو صوبہ بلوچستان کا نمائندہ بناکرمالیاتی فیصلوں جیسی اہم ذمہ داری نہیں دی جا سکتی۔اس حوالے سے بلوچستان کو رکن قومی اسمبلی محمد اسلم بھوتانی عدالت میں مقدمہ دائر کر رہے ہیں۔آئین میں لکھا ہے:
The President shall constitute a National Finance Commission consisting of the Minister of Finance of the of the federal Government, the Ministers of Finance of the Provincial Governments,and such other persons as may be appointed by the President after consulting with the Gooverners of the Provinces.
آئین کی جانب سے صدر مملکت کو تقرری کے لئے ایک وفاقی وزیر خزانہ،چار صوبائی وزراء خزانہ اور صوبوں سے دیگر افرادکا چناؤ متعلقہ صوبائی گورنر کی مشاورت سے کرنی ہے۔ مختصر الفاظ ہیں، ہر معاملہ واضح ہے۔لیکن لگتا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹیفکیشن کی طرح یہاں بھی کلرک سے چوک ہو گئی ہے۔اور بلوچستان کے گورنر سے مشاورت کی جگہ انہیں اطلاع دی گئی ہوگی کہ جاوید جبارکو بلوچستان سے نمائندہ بنا دیا گیا ہے اور انہوں نے جواب دیا ہوگا: ”یس سر!“ پی ٹی آئی کی قیادت کا کہنا ہے کہ انہوں نے 22سال جدوجہد کی اور اس دوران اللہ سے دعا کی:”یا اللہ! ایک بار وزیر اعظم بنا دے!“ اللہ نے ان کی دعا قبول کر لی ہے،اور عمران خان وزیر اعظم بن گئے ہیں، مگر ان کی دعا میں شامل ہے۔۔۔ایک بار۔اس لئے انہیں جو کچھ کرنا ہے اسی پانچ سالہ مدت میں کرنا ہے۔اگر صدر مملکت کی کارکردگی غیر معیاری پائی گئی تو عوام میں ساکھ لازماًمتأثر ہوگی۔ مشیر خزانہ اور وزیر خزانہ میں فرق ہوتا ہے۔مشیر خزانہ ہونے کی صورت میں وزیر خزانہ کا عہدہ وزیر اعظم کے پاس ہوتا ہے۔ جیسا کہ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زراری نے کورونا کے معاملے میں وزیراعظم عمران خان کو اس لئے وزیر اعظم مانا تھاکہ وہ پاکستان کے وزیر صحت بھی ہیں۔امور مملکت چلانے کے لئے ان نزاکتوں اور باریکیوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔پی ٹی آئی کو یاد ہونا چاہیئے کہ ان کا آشیانہ انتہائی نازک شاخ پر رکھا ہوا ہے۔ہوا کے معمولی سے جھو نکے کا گزر کافی ہے۔آئینی ذمہ داری نبھانے کے لئے آئینی نزاکتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔کسی بھی ملک کے لئے اس قسم کی صورت حال کا بار بارپیدا ہونا اچھا شگون نہیں۔
صوبہ بلوچستان کی شکایت بھی اپنی جگہ وزن رکھتی ہے۔یہ معاملہ عدالت تک نہیں جانا چاہیئے تھا۔بلوچستان کی نمائندگی کے بلوچستان کے شہری کا چناؤ کت لیا جاتا تو اس بدمزگی سے بچا جا سکتا تھا۔خیر اب بھی اسے سلجھایا جا سکتا ہے، دیر نہ کی جائے، گورنر بلوچستان کی مشاورت سے دوسرا مناسب نام قومی مالیاتی کمیشن میں شامل کرکسی صوبے پر دوسرے صوبے کے شخص کو مسلط کرنے سے ایک جانب اس صوبے کی حق تلفی ہوتی ہے اور دوسری جانب غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں جو بعد میں رنجشوں لیتی ہیں۔ ہماری 73سالہ تاریخ غلط فہمیوں اور رنجشوں سے بھری پڑی ہے۔اس فہرست میں اضافہ نہ کیا جائے۔کوشش کی جائے کہ تمام امور باہمی مشاورت سے حل کئے جائیں۔مشاورت سے قربت اور ہم آہنگی میں اضافہ ہوتا ہے۔بصورت دیگر فاصلے اور دوریاں بڑھتی ہیں۔بلوچستان اور وفاق میں ہر مسئلے پر مشاورت کی دوسرے صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ضرورت ہے۔بات ایک شخص کی تقرری سے آگے حق تلفی تک جاتی ہے،بلوچستان کی حق تلفی ہو گی تو وفاق کے لئے مشکلات پیدا ہوں گی۔ غیر ضروری الجھنیں پیدا کرنا اچھے خاصے ماحول کو خراب کرنے کے مترادف ہے۔صدر مملکت خود سوچیں اور محاسبہ کریں کہ غلطی کی بنیادی وجوہ کیا ہیں؟ ان وجوہات کو دور کیاجائے۔ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ آئندہ کوئی نوٹیفیکیشن ایوانِ صدر سے جاری نہیں ہو سکے گا جو آئینی تقاضے پورے نہ کرتا ہو۔آئین کا متعلقہ آرٹیکل توجہ سے پڑھا جائے اور اس کے مطابق فرائض انجام دیئے جائیں۔دو صوبوں کی شکایت الارمنگ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں