بلی تھیلے سے باہر مئی 16, 2020مئی 16, 2020 0 تبصرے بایزید خان خروٹی بلوچستان نے بطور صوبہ بڑی عجیب قسمت پائی ہے اس کی آغوش میں جنم لینے والے نہ قوم پرست، نہ پیر پرست، نہ اسلام پرست اور نہ ہی وفاق پرست۔ سیاست کرنے والے اس کے اپنے فرزندوں نے اس بدقسمت صوبے کے مفادات کا تحفظ کیا اور نہ ہی کبھی اس پر صلہ رحمی کی بلکہ ماں کے احساس محرومی کو کیش کرنے کی کوششیں کیں بلوچستان میں کرپشن پر شور ہوتا تو احتسابی عمل کے شروع ہونے کی نوید سنا دی جاتی ہے اور کاغذی دنیا میں انکوائریاں جاری رہتی ہیں اور پھر اگلا سیزن آتا ہے پھر کرپشن کا شور ہوتا ہے، پھر اگلی انکوائری شروع ہوجاتی ہے اور یوں یہ کاروبار جاری رہتا ہے آج تک کسی ذمہ دار کا تعین ہوا ہے نہ ہی کسی کو سزا ہوئی ہے کیونکہ کوئی بھی واردات کرنے کے لیے پہلے بڑی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ اس کے جزیات پر پوری تفصیل سے گفتگو ہوتی ہے۔ اور کوشش ہوتی ہے کہ وار خطا نہ ہو۔ ہر پہلو سے اس کا جائزہ لے کر پھر وار کیا جاتا ہے۔ آج کل میڈیا میں بھارت سے دواؤں کی درآمد کا سکینڈل بڑا موضوع بنا ہوا ہے۔ سنا ہے ملک کے چند دوا ساز اداروں نے بھارت سے جان بچانے والی ادویات کی درامد کے لیے حکومت سے اجازت مانگی۔ چونکہ دوا ساز لابی مرکزی کابینہ میں اپنے حامی پیدا کر چکی تھی لہذا کابینہ کے اجلاس میں اسے بڑے آسانی سے منظور کر لیا گیا۔ اب خبر یہ آئی ہے کہ مذکورہ دوا ساز اداروں نے جان بچانے کے علاوہ ہر دوا درآمد کر لی ہے۔ جس میں ملٹی وٹامنز تک شامل ہیں۔ اور یوں اربوں روپے پاک سرزمین سے ناپاک سرزمین بڑی آسانی اور رضامندی سے منتقل کر دئیے گئے۔ واقفان حال کہتے ہیں اس بارے میں کوئی انکوائری آرڈر کر دی گئی ہے۔کچھ اس قسم کی ہی واردات بلوچستان میں دو روز قبل کابینہ کے اجلاس میں ڈالی گئی جب محکمہ فوڈ کی جانب سے ارسال کردہ سمری کے مطابق کہا گیا کہ امسال گندم کی خریداری میں بڑی مشکلات ہیں اور سب سے بڑی رکاوٹ زمینداروں سے فرد حقیت کا حصول ہے لہذا اسے دور کیے بغیر خریداری ممکن نہیں ہے۔ دراصل یہ فرد حقیقت والی شرط نیب نے چھوٹے زمینداروں کے فائدے کے لیے بنائی تھی کہ پہلے سرکار چھوٹے کاشت کار سے سرکاری نرخپر گندم خریدے اور سبسڈی کا فائدہ انہیں ہو ورنہ تو وہ بے چارے آڑھتی کے رحم وکرم پر ہوتے تھے جو اپنے قرض اور دیگر اخراجات پورے کرنے کے لیے گندم اونے پونے داموں پر اسے ہی بیچنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ جب کہ سرکار کی سبسڈی کا فائدہ بڑے زمیندار اٹھا لیتے تھے۔ اس مرتبہ ایک موہوم سی امید بندھی تھی کہ اس شرط کی وجہ سے انہیں بہتر نرخ ملے گا لیکن وہ آس و امید دو روز قبل ٹوٹ گئی جب صوبائی کابینہ نے اس شرط کو متفقہ طور پر ختم کر دیا۔ یہاں تو کسی کو لابی کرنے کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوئی کیونکہ فیصلہ کرنے والے خود ہی اس کے بینیفشری تھے۔ تمام بڑے بڑے بھاری بھر کم زمیندار اس لاغر اور کمزور صوبے کی مضبوط کابینہ کا حصہ ہیں اور جو زمیندار نہیں بھی ہیں وہ بھی ان کی ہمنوائی میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ویسے اس صوبے کے سربراہ انتہائی داد کے مستحق ہیں کہ کس طرح ایسے معاملات پر خود کوئی فیصلہ کرنے کی بجائے اجتماعی ذمے داری کے اصول کے تحت کابینہ کے کاندھوں پر ڈال دیتے ہیں اس طرح مستقبل میں ہر قسم کی پوچھ گچھ سے بچنے کا سامان پیدا کیا جاتا ہے۔ ایک وزیربتا رہے تھے کہ محکمہ گندم کیذمہ داران نے مذکورہ اجلاس میں وزیراعلی کی شان میں 15 منٹ تک جو قصیدے پڑھے اور جو مدح سرائی کی وہ دیکھنے اور سننے سے تعلق رکھتی ہے۔ اللہ نو رتنوں سے بچائے ویسے اپنی تعریف ہر ایک کو اچھی لگتی ہے۔۔ حیران کن بات ہے کہ بلوچستان کے حکمران نہ کرپشن کرتے ہیں اور نہ کرنے دینگے کا راگ الاپتے رہے ہیں اگر ان کے بس میں اچھی حکمرانی نہیں ہے تو منصب سے خود کو رضاکارانہ طور پر الگ کریں کیونکہ ان کے بقول وہ اقتدار سے مفادات کا حصول نہیں کررہے ہیں تو پھر یہ کیا ہے کہ محکمہ خوراک کی سربراہی ایسے افسر کو دی گئی ہے جو نیب زدہ ہے جبکہ ڈایریکٹر فوڈ سابق ڈپٹی کمشنر کو لگایا گیا جس کے خلاف بیڈا ایکٹ کے تحت کاروائی کی فائل وزیراعلی بلوچستان کے اپنے ٹیبل پر پڑی ہے مرکزی حکومت تو شاید دواؤں کے سکینڈل میں کوئی انکوائری کروا لے لیکن یہاں یہ ممکن نہیں کیونکہ اس شہر میں سب نے دستانے پہنے ہوئے ہیں۔ چوری کرنے والے اور سراغ رساں آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ جب کہ صوبے میں گزشتہ دو سال سے خود ساختہ ایماندار حکمران وجود رکھتے ہیں حالات یہ بتاتے ہیں کہ آہستہ آہستہ ان کی ایماندارکی بلی تھیلے باہر آگئی ہے۔٭٭٭ Share this:Click to share on Twitter (Opens in new window)Click to share on Facebook (Opens in new window)Click to share on WhatsApp (Opens in new window)Click to print (Opens in new window)