لاش کو ہائی جیک کرنا

تحریر:انور ساجدی

یہ جو عمران خان کا لانگ مارچ ہے اس کا مقصد فوری طور پر حکومت گرانا نہیں بلکہ طاقت کے عناصر کو بلیک میل کرکے آئندہ سال کے شروع میں الیکشن کی تاریخ لینی ہے عمران خان نے اچانک فیصلہ اس لئے کیا کہ صحافی ارشد شریف کینیا میں قتل ہوگئے تھے وہ ان کے جسد خاکی کو اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر استعمال کرنا چاہتے ہیں وہ ایک صحافی کی لاش کو انقلاب کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں لیکن ارشد شریف کے معاملے میں ان سے ایک فاش غلطی سرزد ہوگئی ہے انہوں نے واقعہ کے بعد اپنے خطاب میں فرمایا کہ انہوں نے مرحوم کو بتایا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے لہٰذا آپ فوری طور پر ملک چھوڑ کر چلے جائیں انہوں نے کہا کہ ارشد کی موت ٹارگٹ کلنگ سے ہوئی ہے انہیں جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا ہے اس بیان کے بعد جوڈیشل کمیشن انہیں طلب کرکے پوچھ سکتا ہے کہ آپ کو کس ذرائع سے اطلاع ملی تھی کہ ارشد شریف کی جان کو خطرہ ہے آپ نے ان کو بیرون ملک جانے کا مشورہ کیوں دیا اور باہر جانے کے لئے مرحوم کو پشاور تک کیسے پہنچایا اور ایک سوال یہ بنتا ہے کہ ان کی موت کے بینیفشری کون ہیں کون اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ ایسی اطلاعات آرہی ہیں کہ ارشد شریف کی جان کو ملک کے اندر کوئی خطرہ نہیں تھا بلکہ ان سے زیادہ معتوب صحافی بھی ملک کے اندر رہ کر حالات کا مقابلہ کررہے ہیں دراصل بات یہ ہے کہ ارشد شریف مالی کرائم کی تحقیق کے ماہر تھے انہوں نے گزشتہ دو دہائیوں میں شریف خاندان کی مالی کرپشن کے بارے میں بہت کام کیا تھا عمران خان کی معزولی کے بعد وہ شریف خاندان کے بارے میں ایک فلم بنارہے تھے جس کا نام تھا ’’بند دروازوں‘‘ کے پیچھے وہ کینیا اس لئے گئے تھے کہ 1990ء کی دہائی میں شریف خاندان نے اس ملک میں شوگر کی دو ملیں قائم کی تھیں جو مشرف کے دور میں شریف خاندان کی گرفتاری اور جلاوطنی کے بعد بند ہوگئی تھیں۔ ارشد شریف نے شریف خاندان کی مبینہ اسٹیل ملوں کے بارے میں بھی معلومات اکٹھی کی تھیں ان کی تحقیقی رپورٹ سے شریف خاندان کے مخالفین خاص طور پر عمران خان سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے تھے تاکہ آئندہ انتخابات میں ن لیگ کا پنجاب میں صفایا کیا جاسکے اور عمران خان دو تہائی اکثریت لیکر زیادہ طاقت کے ساتھ اقتدار میں آئیں ان سب باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ عمران خان سیاسی پلاننگ اور انجینئرنگ کے ماہر ہیں اگر خود نہیں ہیں تو ان کے پاس ماہر مشیروں کی بڑی تعداد موجود ہے جو انہیں مخالفین کے خلاف اچھی پلاننگ کرکے دیتے ہیں مثال کے طور پر انہوں نے ارشد شریف کو لیکر اچانک جمعہ کا لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کردیا توقع کے برعکس وہ اپنا لانگ مارچ ایک ہفتہ تک جی ٹی روڈ کے گنجان آباد علاقے سے گزاریں گے ان کا خیال ہے کہ نازک صورت حال کو دیکھ کر ایک ہفتہ طویل مارچ کے دوران طاقت کے عناصر ان کے دبائو میں آجائیں گے اور جی ٹی روڈ کے کسی بھی مقام پر ان سے خفیہ بات چیت شروع کریں گے ان کا تو ایک ہی مطالبہ ہے کہ عام انتخابات فروری یا مارچ میں منعقد کروائے جائیں اس بات چیت کے نتیجے میں مارچ کی تاریخ پر اتفاق رائے ہوجائے گا جس کے بعد اسلام آباد پہنچ کر وہ ایک جلسہ کریں گے اور واپس چلے جائیں گے ایک اور خیال یہ بھی ہے کہ نومبر میں جو کچھ ہونے والا ہے وہ مارچ کے ذریعے اس پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں تاکہ نئی تقرری کے سلسلے میں ان سے مشاورت کی جائے تاکہ مرضی کی تقرری عمل میں آئے اگر ان کے دبائو میں آکر تقرری توسیع میں بدل جائے تو یہ بھی ان کی بڑی کامیابی ہوگی کیونکہ انہوں نے دو ماہ پہلے یہی مطالبہ کیا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ اگلے انتخابات کے بعد اقتدار میں آکر خود نئی تقرری کا فریضہ انجام دیں گے۔عمران خان کی زبردست پلاننگ دیکھئے کہ انہوں نے کس طرح ایک صحافی کے جسد خاکی کو ہائی جیک کیا اور سوگوار خاندان سے اس طرح خود جوڑا کہ مرحوم کی والدہ نے کہا کہ تحریک انصاف کے رہنما مراد سعید لاش وصول کرکے ایئرپورٹ سے اسپتال پہنچائیں مرحوم کے جنازے میں حکومت سمیت تمام مکتبہ فکر کے لوگ شامل ہونا چاہتے ہیں لیکن تحریک انصاف کے ردعمل کے سبب حکومتی شخصیات کے لئے ممکن نہیں کہ وہ جنازہ کی جگہ آجائیں اس طرح ایک جنازہ کو بھی تحریک انصاف اپنا شو بنانا چاہتی ہے یہ تو کل پتہ چلے گا لیکن سنا ہے کہ طارق جمیل سے رابطہ کرکے ان سے نماز جنازہ پڑھانے کی فرمائش کی گئی ہے تحریک انصاف چاہتی ہے کہ مرحوم ارشد شریف کا جنازہ اتنا بڑا ہو کہ اس کی مثال حالیہ برسوں میں نہ ملے اگلے روز یعنی جمعہ کو عمران لاہور کے لبرٹی چوک پہنچ کر اپنے خطاب میں ارشد شریف کے قتل کو لیکر عوام کے جذبات بر انگیختہ کردیں گے وہ پہلے ہی اداروں پر الزام لگاکر انہیں وضاحتی پوزیشن پر لے آئے ہیں حتیٰ کہ انہیں ایک وضاحتی پریس کانفرنس کرنا پڑی سیدھی بات ہے کہ یہ پاور پلے ہے یعنی اقتدار کی جنگ اور اشرافیہ کے دو گروہ آپس میں لڑرہے ہیں پہلے پیپلز پارٹی کو گرانے کے لئے شریف خاندان کو لاڈلا بنایا گیا جب نواز شریف نے پر پرزے نکالے تو اس خاندان کو معتوب کرکے عمران خان کو لاڈلا بنایا گیا نہ جانے خان اور تخلیق کاروں کے درمیان ایسی کیا بات ہوئی کہ انہیں نکال باہر کیا گیا اور کئی سالوں کے بعد ن لیگ کو دوبارہ لایا گیا اب جبکہ ن لیگ کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھایا گیا ہے تو اس میں وہ پرانی توانائی سیاسی طاقت اور عوام کی قبولیت باقی نہیں رہی اور اس پر عمران خان کی تلوار بھی لٹکادی گئی ہے حالانکہ مقتدرہ چاہے تو یہ تلوار ایک منٹ میں ٹوٹ جائے گی اور مخالفین پر وار کے قابل نہیں رہے گی لیکن ن لیگ کو بھی اس سے ڈرایا دھمکایا جارہا ہے یہی تلوار والا معاملہ استعمال کرکے نئے جج صاحبان کی تقرری کے لئے رضا مندی حاصل کی گئی حتیٰ کہ اپنے وزیر قانون کی قربانی دینے سے بھی اجتناب نہیں کیا گیا اگر شریف خاندان سے ایسے غیر جمہوری فیصلے کروائے گئے تو اس کی جماعت انتخابات میں جاکر کیا کہے گی اور عوام سے کس بنیاد پر ووٹ مانگے گی مقتدرہ نے آج تک کسی پر اتنا ہلکا ہاتھ نہیں رکھا جتنا عمران خان پر رکھا جارہا ہے صرف توشہ خانہ کے کیس پر انہیں وقتی طور پر نااہل قرار دیا گیا ورنہ اگر فیصلہ اچھا ہوتا تو وہ تاحیات نااہل بھی ہوسکتے تھے اس طرح فارن فنڈنگ کیس میں بھی ایک کمزور فیصلہ دیا گیا کبھی کبھار تو شک گزرتا ہے کہ طاقتور اتحادی کہیں عمران خان کو دوبارہ لانچ تو نہیں کررہے انہیں اتنی زیادہ توانائی بخشی جارہی ہے کہ مخالفین زیرو ہورہے ہیں بادی النظر میں جو بڑے بڑے سیاسی اور آئینی منصوبے ہیں ان کی تکمیل ن لیگ کے ذریعے نہیں عمران خان کے ذریعے ہی ممکن ہے مثال کے طور پر ملک میں 1973ء کے آئین کو بدل کر صدارتی نظام لانے کی شدید خواہش ہے یہ خواہش اس صورت میں مکمل ہوسکتی ہے جب عمران خان دو تہائی اکثریت حاصل کریں دو تہائی اکثریت کے بغیر نہ آئین کو بدلا جاسکتا ہے اور نہ ہی صدارتی نظام لایا جاسکتا ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ملک چلانے والے پارلیمانی نظام سے تنگ آچکے ہیں اس نظام کے ذریعے صوبے کافی مضبوط ہوچکے ہیں جبکہ منتظمین کو مضبوط صوبے نہیں مضبوط مرکز چاہئے‘ 1973ء کے آئین کے تحت جو این ایف سی ہے اس کے ذریعے وسائل کا نصف حصہ صوبوں کو منتقل ہوتا ہے جبکہ خواہش یہ ہے کہ زیادہ وسائل مرکز کے پاس ہوں تاکہ مرکزی ادارے ہر طرح سے مضبوط ہوں یہی وجہ ہے کہ زرداری کے بعد کوئی نیا این ایف سی ایوارڈ نہیں آیا اگر تحریک انصاف کا راستہ روکا گیا تو اس شرط پر روکا جائے کہ ن لیگ ایک نئے فارمولے پر آجائے جس طرح کے اس جماعت کے ذریعے جج تقرری میں انصاف کا جنازہ نکالا گیا اسی طرح دیگر مقاصد بھی حاصل کئے جائیں گے اور یہ جماعت خوف کے مارے تمام منصوبوں کی آنکھیں بند کرکے منظوری دے گی اختر مینگل اسفند یار ولی اور ڈاکٹر مالک لاکھ روئیں کوئی ان کی آواز نہیں سنے گا ویسے بھی آئین پر عمل درآمد نہیں ہورہا ہے اور اب بھی جس چیز کی ضرورت ہو آئین سے ہٹ کر ہی فیصلے کئے جاتے ہیں۔ پارلیمان کی حیثیت ربڑ اسٹیمپ کی بن گئی ہے اس کے ممبران کا یہ حال ہے کہ سینیٹ میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی اکثریت کے باوجود صادق سنجرانی جیت گئے اور کئی ناپسندیدہ ترامیم بھی منظور کروائی گئیں آثار بتارہے ہیں کہ یہی حالات رہے تو آئندہ چل کر پیپلز پارٹی بھی مکمل خاتمے کے ڈر سے ہر طرح کا تعاون کرنے پر آمادہ ہوگی عمران خان نے اسی لئے زرداری کو چیلنج دے رکھا ہے کہ وہ آئندہ سندھ میں جیت کر دکھائے حالیہ سیلاب میں سندھ حکومت کی ناکامی کے بعد ایک فضا بنائی جارہی ہے جس کے تحت کوشش کی جائے گی کہ پیپلز پارٹی کی طاقت کو کم کیا جائے اور یہاں پر جام صادق اور ارباب رحیم طرز کی حکومت لائی جائے اس پلان کے تحت سندھ کی نام نہاد قوم پرست کوئی جی ڈی اے تحریک انصاف اور معدوم ہونے والی ایم کیو ایم کو یکجا کرکے مطلوبہ ٹارگٹ حاصل کیا جاسکتا ہے۔یہ جو عمران خان کے ذریعے جو ملکی لڑائی جاری ہے اس کے کئی مقاصد ہیں بظاہر تو یہ اشرافیہ کی آپسی لڑائی دکھائی دیتی ہے لیکن جیت جس کی ہو فائدے میں ’’بزرگان دین‘‘ ہی رہتے ہیں نومبر کا مہینہ ہر حوالے سے اہم ہے اسی مہینے میں کئی اہم فیصلے ہوجائیں گے جو طے کریں گے کہ پاور کس سے شیئر کیا جائے گا نومبر کے پورے مہینہ عمران خان ہی چھائے رہیں گے اور آسمان سر پر اٹھائے رکھیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں