باسعادت تقرری بابرکت توسیع؟

تحریر: انور ساجدی

اگر وزیراعظم شہباز شریف کو آرمی چیف کی تقرری یا توسیع کے مسئلہ پر بڑے سے مشورہ کرنا تھا تو مصر سے پاکستان آنے کے بجائے انہیں وہاں سے لندن جانا چاہئے تھا ایسے وقت میں جب کہ حالات قیامت خیز ہیں دو تین دن ملک کو چھوڑ کر باہرجانا دانشمندی نہیں ہے شہباز شریف کی واپسی پر ہی سمری کا مسئلہ آگے بڑھے گا ابھی یہ بھی طے نہیں کہ سمری توسیع کی جائے گی یا نئی تقرری کی اس بارے میں ایک شخص کے سوا کوئی نہیں جانتا امکانی طور پر یہ سمجھا جارہا ہے کہ وہ اہم ترین شخصیت اپنے بارے یا نئی تقرری کے بارے میں جو بھی فیصلہ کریں گے وہ حکومت کو قابل قبول ہوگا ادھر عمران خان لوہے کے زخموں اور دل کے اندر اضطراب کی وجہ سے تڑپ رہے ہیں ان کے جو ’’ہینڈلرز‘‘ ہیں وہ بھی بے چین اور بے تاب ہیں اسی لئے عمران خان حکومت پر دبائو بڑھارہے ہیںچار دن سے اسلام آبادتحریک انصاف کے محاصرے میں ہے چاروں طرف کے راستے بند ہیں پارٹی کے کارکن حتیٰ کہ وزراء سڑکوں کے بیچ میں ٹینٹ اور کرسیاں لگاکر وفاق کا مذاق اڑا رہے ہیں سنا ہے کہ گزشتہ رات عمران خان کو ایک سخت پیغام پہنچایا گیا لیکن عمران خان ایسے ضدی شخص ہیں کہ ان پر ایسے پیغامات کا اثر کم ہوتا ہے اسی دوران جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کو بھی طاقتور حلقوں نے قاصد بناکر عمران خان کے پاس بھیجا کہ وہ انہیں سمجھائیں کیونکہ سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیراعظم 16 ارب ڈالر کا پیکیج لے کر آرہے ہیں جبکہ چینی صدر بھی دورے پر آنا چاہتے ہیں اگر یہی حالات رہے تو یہ دورے ملتوی ہوجائیں گے جس کے نتیجے میں معاشی بحران مزید سنگین ہوجائے گا عدم استحکام کی وجہ سے کارخانے کاروبار اور روزگار پر برا اثر پڑے گا لہٰذا آپ گھیرائو جلائو اور محاصرے کے بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں آپ کے جو بھی مطالبات ہیں چاہے وہ جتنے بھی سخت کیوں نہ ہوں ان پر بات چیت کیلئے ہم تیار ہیں ہم سے مراد حکومت نہیں کیونکہ عمران خان نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ چور حکومت کو تسلیم کرنے کے بجائے مر جانا پسند کریں گے وہ شہباز شریف سمیت اتحادی حکومت کے ذمہ داران کے ساتھ بیٹھنے کے بھی روادار نہیںگویا حالات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں اگر آرمی چیف کا فیصلہ 29 نومبر کو ہوناہے تو بھی 19 دن رہ گئے ہیں اگر فیصلہ پہلے کرنا ہے تو وہ وقت بھی قریب آچکا ہے عمران خان کے ’’ہینڈلرز‘‘ انہیں اچھی طرح استعمال کررہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہار نہیں مان رہے ہیں اور مقابلہ کو آخری گیند تک لے جانا چاہتے ہیں یہ آخری گیند تک مقابلہ کیا کچھ دکھائے گا یہ وقت بھی زیادہ دور نہیں ہے اگر توسیع یا تقرری کا فیصلہ ہوجائے تو شاید ہینڈلرز ہار مان کر بیٹھ جائیں جس کے بعد جو سیاسی معاشی اور انتظامی عدم استحکام ہے اس کا خاتمہ ہوجائے گا عمران خان اس دوران زمین آسمان کے قلابے ایک کردیں گے اگرچہ پنجاب اور پشتونخواء کی حکومتیں راستے بند کرنے اور گھیرائو جلائو میں عمران خان کا ساتھ دے رہے ہیں لیکن پرویز الٰہی نے دیدہ دلیری کے ساتھ ان کا یہ مطالبہ رد کردیا کہ ان پر حملہ کی ایف آئی آرمیں وزیراعظم، وزیر داخلہ اور اعلیٰ سیکورٹی اہلکار کے نام درج کئے جائیں پرویز الٰہی کے اس طرز عمل سے عمران خان سخت نالاں ہیں اور وہ ہر جگہ اور ہر انٹرویو میں واویلا مچارہے ہیںکہ ان کی اپنی حکومت میں ان کی مرضی کی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی وہ مسلسل بیانیہ دے رہے ہیں کہ ان کی تحریک آزادی کی تحریک ہے یعنی پاکستان کو بیرونی اور اندرونی کنٹرول سے آزادی دلانی ہے لیکن کون نہیں جانتا کہ عمران خان پاکستانی نظام پارلیمنٹ سیاست اور آئین کو صرف اس وقت دبائو سے آزاد دیکھناچاہتے ہیں جب وہ خوداقتدار میں ہوں ان کی طبیعت کا خاصہ آمرانہ ہے اور وہ اقتدار میں کسی اور کی شرکت کے روادار نہیں ہیں ان کی آزادی سے مراد مکمل آزداری نہیں بلکہ تمام اداروں کو اپنا تابع فرمان بنانا ہے وہ جب سے معزول ہوئے ہیں مسلسل کہہ ہرے ہیں کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ اور میری جگہ چوروں کو کیوں لائے اس عمل پر غصہ اتنا ہے کہ ’’ان لوگوں‘‘ کو انہوں نے جانور غدار میر جعفر اور میر صادق کا لقب دیا۔اب بھی وہ یہی چاہتے ہیں کہ فوری طور پر انتخابات کروا کر انہیں دوبارہ اقتدار میں لایا جائے اگر موجودہ زعمابھی یہ کرنے کو تیار ہوں تو عمران خان سارا غصہ ختم کرکے انہیں دوبارہ گلے لگائیں گے ان کے جو ہینڈلرز ہیں وہ کونسے جمہوری اور پارلیمانی لوگ ہیں جو اس ملک میں آئین کی بالادستی کے علمبردار ہوں وہ داخلی لڑائی چھیڑکر اپنا الو سیدھا رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے گروہی مفادات عمران خان سے اور عمران خان کے ان سے وابستہ ہیں یہ لوگ اتنے خود غرض ہیں کہ پورے ملک کو دائو پر لگادیا ہے انہیں اپنے ملک کی سلامتی اور قومی وحدت کی بھی فکر نہیں بس ان کی پہلی اور آخری خواہش ہے کہ کسی طرح 74 سالہ عمران خان حکومت میں آئیں تاکہ اعلیٰ منصب حاصل کرکے وہ اپنی دلی مراد یں پوری کریں خود عمران خان کو بھی 74 سال کی عمر کا احساس نہیں ہے ان کا خیال ہے کہ وہ نوجوان ہے اور ساری زندگی حکمرانی میں گزاریں گے نام نہاد اور نوساختہ اشرافیہ کی لڑائی نے عوام کو زندہ درگور کردیا ہے ان کی زندگی اجیرن ہے اور وہ ایک پر آشوب اور مشکل زندگی گزارنے پر مجبور ہیں انہیں باسعادت تقرری یا بابرکت توسیع سے کیا غرض انہیں تو دو وقت کی روٹی کی پڑی ہے جس کا حصول مشکل ہوگیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں