عمران خان کے ہنگامے کا مقصد

تحریر:انور ساجدی

اس سارے ہنگامے کا مقصد ایسے کسی جرنیل کی تقرری کو روکنا ہے جو عمران خان کی مرضی کے نہیں ہیں۔ کپتان نے کمال خوبی سے ٹاپ پانچ جرنیلوں کو بھی متنازعہ بنا دیا ہے۔ گزشتہ روزمارچ سے اپنے خطاب میں فرما رہے تھے کہ نواز شریف اس لئے اپنی مرضی کا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں تاکہ ان کی چوری کا پیسہ بچ جائے۔ ایسی جرأت تو خان صاحب ہی کرسکتے ہیں کہ سپہ سالار کے عہدے کے لئے ان پانچ میں سے چار کو وہ چوروں کا رکھوالا سمجھتے ہیں یعنی صرف ان میں سے ایک ایماندار اہل اور میرٹ پر پورا اترتا ہے۔ خان صاحب اپنے ہنگامے کو ’’ڈیلے‘‘ کرتے جارہے ہیں کیونکہ انہوں نے سنا ہے کہ سمری 18 تاریخ تک بنے گی ، ادھر سمری پہنچے گی ادھر خان کا لائو لشکر راولپنڈی آدھمکے گا۔ تب تک لشکر کے تمام برچھے بردار بھی پہنچ چکے ہوں گے۔ خان صاحب راولپنڈی شہر میں اپنے تمام لشکر کو یکجا کرکے ان کی صف بندی کریں گے اور نئی اطلاع پا کر پایہ تخت پر یلغار کردیں گے، راولپنڈی میں ان کے پڑائو کا مقصد یہی ہوگا کہ اس دوران ان سے گفتگو کا سلسلہ شروع ہوجائے تاکہ وہ اپنے دونوں مطالبات کی وکالت کرسکیں۔ پہلا مطالبہ یہ ہے کہ ان کی پسند کی ہستی کو سپہ سالار بنایا جائے، دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ فوری انتخابات کروائے جائیں ۔ یہ تو پتہ نہیں کہ ان کے مطالبات تسلیم ہوں گے کہ نہیں ، یہ طے ہے کہ مذاکرات ضرور ہوں گے۔ خان صاحب نے اس کی بھرپور تیاری کر رکھی ہے حتیٰ کہ انہوں نے عبوری وزیراعظم کا نام بھی طے کرلیا ہے اور انتخابات کی حتمی تاریخ بھی طے کرلی ہے۔ ان کی تجویز ہے کہ سابق آرمی چیف راحیل شریف کو عبوری حکومت کا سربراہ بنایا جائے۔ انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کیلئے بابر یعقوب کو نئے الیکشن کمیشن کا سربراہ مقرر کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔ ملک کے جو اصلی حکمران ہیں جو کہ وقتی طور پر ہم آہنگ نہیں ہیں یہ دیکھیں گے کہ خان صاحب کے لشکریوں کی تعداد کتنی ہے۔ وہ بھی اس کے مطابق مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔ خان صاحب کا اسلوب سیاست انوکھااور ان کا طرز تبلیغ جداگانہ اور منفرد ہے۔ مثال کے طور پر جس طرح جے یو آئی ہر دن ہر ہفتہ اور ہر مہینہ نئے مدارس قائم کررہی ہے تو اس کی نرسری میں مستقبل کے پارٹی کارکن اور لیڈر تیار ہوتے ہیں اسی طرح عمران خان نے ملک بھر کے ہم خیال ٹیچروں کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔ حال ہی میں ایک اسکول کے کلاس روم میں خاتون ٹیچر چھوٹے بچوں سے پوچھ رہی تھی کہ آپ عمران خان کو جانتے ہیں۔ بچوں نے کہا کہ ہاں، ٹیچر نے پھر پوچھا کہ عمران خان کو چند روز پہلے کیا چیز لگی ہے تو بچوں نے کہا کہ گولی، ٹیچر نے پوچھا کس نے گولی چلائی ہے تو بچوں نے ہم آواز ہو کر کہا کہ برے لوگوں نے۔ یہ واقعہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ یہ تبلیغ کا کس قدرکارگر طریقہ ہے ۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کی ذہن سازی کی جارہی ہے اور کس طرح پرائمری اسکولوں کو تحریک انصاف کی نرسری میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ گویا ہر روز سینکڑوں بچے عمران خان کی شخصیت اور افکار عالیہ سے متعارف ہورہے ہیں۔ یہی بچے آگے چل کر پکے عمرانڈو بنیں گے اور سڑکوں پر تحریک انصاف کے گن گائیں گے۔ اس طرح کا طریقہ کار ملک کی دو بڑی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں موجود نہیں ہے، اب تو ایسا لگتا ہے کہ جتنے بزرگ فوت ہوجاتے ہیں ان جماعتوں کے کارکنوں اور ورکروں کی تعداد کم ہوجاتی ہے۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کی طاقت کا سرچشمہ محنت کش کسان اور نوجوان ہوتے تھے لیکن قیادت کی تبدیلی کے بعد پیپلز پارٹی نے ان نچلے طبقات سے اپنا ناطہ توڑ لیا ہے۔ اوپر سے سندھ حکومت نے اپنی ناقص پالیسی کے ذریعے سندھ کے عوام کو بھی ناراض کردیا ہے۔ آئندہ الیکشن یا اس کے بعد آنے والے الیکشن میں سندھ میں پیپلز پارٹی کا سحر مکمل طور پر ٹوٹ جائے گا۔ ادھر ن لیگ کا بھی یہی حال ہے۔ اس کا ووٹ بینک جی ٹی روڈ کے تاجروں، فیصل آباد ، سیالکوٹ اورملتان کے صنعتکاروں پر مشتمل تھا۔ لیکن عمران خان کو ہٹانے اور بے سروپا حکومت بنانے کی وجہ سے اس کی طاقت بھی ٹوٹتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ اگر یہی حال رہا اور طاقت کے عناصر نے عمران خان کے ’’ دیو‘‘ کو قابو نہیں کیا تو تمام پارٹیاں مل کر بھی عمران کا مقابلہ نہیں کرسکیں گی جیسا کہ حالیہ ضمنی انتخابات میں ہوا ۔ عمران خان کی طاقت صرف اسی صورت کم ہوگی کہ وہ ایک بار پھر اقتدار میں آجائیں کیونکہ انہیں حکومت چلانا نہیں آتا۔ ان کی سابقہ حکومت بھی ناکام ہوگئی تھی لیکن پی ڈی ایم نے بہکاوے میں آکر ان کا تختہ الٹ دیا جس کا نتیجہ ان کے خلاف نکلا اور سارا فائدہ عمران خان کے کھاتے میں چلا گیا۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو بحیثیت جماعت اپنی حرمت اور طاقت بحال کرنے کے لئے غیر معمولی اور سر توڑ جتن کرنے پڑیں گے۔ اگر تحریک انصاف دوسری بار موقع ملنے کے بعدبھی ناکامی سے دوچار ہوجائے تو خود بخود اس کا سحر اور اس کا اثر ختم ہوجائے گا۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ عمران خان پیرانہ سالی کی وجہ سے آئندہ پانچ سال ہی پارٹی کی فعال قیادت کرسکتے ہیں۔ انہوں نے جانشینی کا کوئی نظام بھی نہیں بنایا۔ اگر اس کے قویٰ جواب دے گئے تو کوئی ایسی شخصیت نہیں ہے جو پارٹی کو برقرار رکھ سکے۔ اس کے برعکس ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں خاندانی وراثت اور جانشینی کا نظام رائج ہے۔ اس لئے کمزور ہونے کے باوجود ان کا وجود برقرار رہے گا اور وہ معدوم ہونے سے بچ جائیں گی۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کو جڑ پکڑنے نہیں دیا جارہا ہے اس میں ساز باز کرکے قدغن لگائی جاتی ہے۔ البتہ یہ کریڈٹ ضرور عمران خان کو جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی معزولی کے بعد عوام میں غورو فکر اور سوچ و بچار کے نئے سوتے جگائے ہیں۔ عوام کو کافی شعور حاصل ہوا ہے انہیں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ جتنے بڑے بڑے لوگ ہیں وہ ان کے ملازم ہیں اور عوام کسی کے غلام نہیں ہیں۔ اگرچہ عمران خان نے اپنے مارچ کو آزادی مارچ کا نام دیا ہے لیکن اس آزادی کے حصول کے لئے مزید جدوجہد کی ضرورت ہے۔ فی الحال تو وہ پی ڈی ایم سے آزادی مانگ رہے ہیں اگر انہوں نے ’’جمہور‘‘ کے لئے آزادی مانگ لی تب وہ حقیقی تحریک ہوگی۔عمران خان یہ بات قبول کرنے کو تیار نہیں کہ ایک سزا یافتہ بھگوڑا شخص کس طرح نئے آرمی چیف کا تقرر کرے گا۔ انہیں یہ تسلیم کرلینا چاہئے کہ آئین نے یہ حق وقت کے وزیراعظم کو دیا ہے کسی اور کو نہیں۔ حکمرانوںکو عوام کومزید ہزیمت سے بچانے کے لئے کسی تاخیر کے بغیر سپہ سالار کے نام کا اعلان کرنا چاہئے۔ اس کے بعد عمران خان کو کچھ قرار آجائے گا۔ ویسے وہ آرام سے بیٹھنے کی چیز نہیں ہیں اگر انتخابات کے نتائج ان کی مرضی کے نہیں نکلے تو وہ دھاندلی کا الزام لگا کر سڑکوں پر مارچ کریں گے۔ لیکن حکومت کا فرض ہے کہ وہ معاملات کو سنبھالے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں