قلعہ ہڑند یا ہری نند

زوراخ بزدار
ضلع راجن پور کے مغرب میں تقریباً 60 کلومیٹر کے فاصلے پر قلعہ ہڑند واقع ہے۔ صدیوں پرانے اس قلعے نے فاتحین کو چاہے وہ یونانی، ایرانی اور عرب جو بھی تھے اپنی اہمیت و کشش کی وجہ اپنی طرف متوجہ ہونے پہ مجبور کیا. ہر فاتح کی سوچ یہی تھی کہ اگر یہ قلع اس کے پاس نہیں تو کیا حکمرانی ہوگی. کچھ محققین کے بقول اس قلعے کا اصل نام ہری نند تھا لیکن اب اس کو لوگ ہڑند کے نام سے پکارتے ہیں۔
اس قلعہ کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا گمان غالب ہے کہ یہ قلعہ مہر گڑھ کی تہذیب کا حصہ تھا.
چونکہ یہ قلعہ بھی اپنے جغرافیائی حوالے سے اسی علاقے میں واقع ہے
اسکی بنیاد کب رکھی گئی اس معاملے میں تاریخ خاموش ہے. اس قلعہ کے جنوب مغرب میں ہزاروں سال پرانی مہر گڑھ کی تہذیب اور جنوب مشرق میں ہزاروں سال پرانی موہنجو داڑو کے کھنڈرات یہاں کے تاریخی شاہد ہیں. اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ قلعہ بھی چونکہ دریائے سندھ کے بالاء علاقے میں واقع ہے. یہ مہرگڑھ کی تہذیب کا حصہ ہی ہوگا
مگر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کے ہندو راجا ہرناکوس اور اس کے بیٹے نے یہ قلعہ موہنجوداڑو طرز میں بنایا تھا اور محمد بن قاسم کے فتح سندھ تک یہ قلعہ ہندوؤں کے پاس رہا اور محمد بن قاسم نے اس کو فتح کیا اس میں کتنی صداقت ہے خدا جانے۔
مگر یہ طے ہے کہ ہڑند قلعہ پر سکندر سے لے کر محمد بن قاسم، محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی تک سب حکمرانوں نے اپنا قبضہ رکھا. اس قلعہ کی اہمیت یوں بھی زیادہ تھی کی اس علاقے میں پینے کے پانی کی کافی قلت تھی اور آج تک ہے مگر اس قلعے تک ایک پہاڑی چشمے کا پانی کاریز کی شکل میں پہنچاء جاتی تھی جس سے قلعہ اور زیادہ محفوظ تصور کیا جاتا تھا. اکثر فاتحین اس وقت تک اسکو فتح کرنے میں ناکام رہتے جب تک اس کے اس زیر زمیں پانی کی سپلائی کا پتہ لگا کر اسکو بند نہ کرتے. مشہور فارسی کتاب ’سکندر نامہ‘ میں درج ہے کہ جب اس قلعے پر سکندرِ اعظم نے حملہ کیا تو اس وقت اس پر ایرانیوں کا قبضہ تھا.کتاب کے مطابق اس قلعے کو فتح کرنے کے بعد سکندرِ اعظم نے دارا یوش کی بیٹی سے اسی قلعے میں شادی کی۔تاہم اس حقیقت کو زیادہ تر تاریخ دان متنازع قرار دیتے ہیں۔
احمد شاہ ابدالی کی رسم تاج پوشی 1747ء کو ہوئی اور پنجاب کی مہم سے واپسی پر احمد شاہ ابدالی نے میر نصیر خان کو ہڑند اور داجل کے علا قے بطور انعام دیئے۔ اسی زمانے میں جب احمد شاہ کی مشرقی ایران کی مہم سے واپسی ہوئی تو اس نے میر نصیر خان کی والدہ بی بی مریم کوکوئٹہ کا علا قہ یہ کہتے ہوئے دیا کہ یہ آپ کی شال (دوپٹہ) ہے۔ اسی دن سے کوئٹہ کا نام شال کوٹ پڑ گیا،اور یہ ریاست قلات کا حصہ بن گیا
واضح رہے خان نصیر خان، بطورخان آف قلات (1749ء – 1794ء) تک رہے۔
اس تاریخی ثبوت کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ سکھا شاہی سے قبل یہ بلوچوں کی ملکیت تھی اور سکھا شاہی کے دوران آج سے 200 سال قبل قلعے کے بیرونی حصے میں اینٹیں لگانے کا کام شروع کیا گیا۔ لیکن یہ کام گورچانی قبیلے کی مزحمت پر روکنا پڑا۔گورچانی قبیلہ سکھ حکمرانوں کے خلاف تھا اور قبیلے نے دو بار اس قلعے پر دھاوا بولا۔ تاہم قلعے کے بیرونی حصے پر اینٹیں لگائے جانے کا کام مکمل کر لیا گیا۔
1848-49 کی جنگ میں انگریزوں نے یہ قلعہ فتح کیا۔ 97-1893 کے گیزٹئر کے مطابق کیفٹیننٹ ینگ نے اس قلعے کو گورچانی قبیلے کی مدد سے فتح کیا۔اور اس وقت سے لیکر موجودہ دور تک یہ قلعہ بارڈر ملٹری پولیس راجن پور کے زیر استعمال ہے اور جمعدار(ڈی ایس پی) بارڈر ملٹری پولیس کا ہیڈ کوارٹر بھی اسی قلعے میں ہے۔
اس قلعے کی مخدوش حالت کو دیکھتے ہوئے اس لمبی چوڑی تحریر کی ضرورت پڑی تاکہ اس قلعہ کی تاریخی حثیت کو عوام اور اہل اقتدار کے سامنے واضح کیا جاسکے شاید ہماری آواز کسی کے کانوں تک پہنچے اور اس تاریخی ورثہ کی مرمت کی جائے اور سیر سیاحت کے فروغ اور اس کی تاریخی پس منظر کو مد رکھتے ہوئے اس کے لیے ایک خاص گرانٹ کی منظوری دی جائے اس کی از سر نو تزئین و آرائش ہو اور اس کو باقاعدہ طور پہ محکمہ آثار قدیمہ کے سپرد کیا جائے تاکہ بلوچوں کا یہ تاریخی ورثہ محفوظ ہو سیاح اور محققین اسکی طرف متوجہ ہوں سیاحوں کے آمد و رفت اور رہائش کا بھی بندوبست کار لازم ہے۔
اس قلعے کی اہمیت کا اندازہ اس بلوچی
مصرع سے لگا لیں
ہڑندا لشکراں درائی دیانا
جنگی دستوں کی روانگی کے لئے ہڑند کو ممجع گاہ کی حیثیت حاصل تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں