سماجی تعلیم کی اہمیت

سیما احدی
یوں تو کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کی جڑیں کئی صدی پرانی ہیں، لیکن جو ہم جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ چھٹی صدی قبل عیسوی میں ایتھنز جو کہ یونان کا سب سے بڑا شہر تھا، دنیا کی پہلی جمہوریت کہلائی۔ اس جمہوری نظام کا ڈھانچہ تین حصوں پر مشتمل تھا۔موجودہ جمہوریت اسی نظام کی ایک نئی شکل ہے۔
اِن میں سب سے اہم حصّہ "اسمبلی” کہلایا، جس کے ممبران کی تعداد200 اور عمر 30 سال سے زائد ہوتی۔ یہاں عام مسائل کا حل اتفاقِ رائے اور ووٹ سے نکلا جاتا۔ دوسرا حصّہ "شہری کاؤنسل” پر مشتمل تھا جو یونان کے ہر شہر میں تشکیل دی گئی۔ تیسرا اور آخری حصّہ ” کچہری” کہلایا۔ شروع شروع میں کچہری کی اہمیت زیادہ نہ تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ اسکی اہمیت میں اضافہ ہوتا گیا۔ مقبولیت کی وجہ یہ بنی کہ اسمبلی کے ممبران کو کچہری کے سامنے جوابدہ بنایا گیا۔ اور عام شہریوں کے فیصلے کرنے کی طاقت بھی کچہری کو دی گئی۔
یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس جمہوری حکومت کے ان تمام اداروں میں فیصلے عام شہریوں کے ووٹ کی بناء پر کیے جاتے تھے۔ اِس بات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ وقت کی اسمبلیوں میں کسی بھی موضوع پر اتفاقِ رائے کا سلسلہ یہی سے ہی شروع ہوا۔
یونانی عوام کے سخت اور بیجا فیصلوں نے کچھ عرصہ بعد ہی اس نظام کو اپنی مقبولیت کھو بیٹھنے پر مجبور کر دیا۔ کیونکہ یونانی فلسفی حلقوں میں اِسکی مخالفت زور و شور سے کی جا رہی تھی۔ افلاطون، سقراط کا شاگرد تھا اور یونان میں بڑی حد تک مقبول تھا۔ کچھ عرصہ قبل سقراط کو ایتھنز کی اسمبلی نے زہر پینے پر مجبور کر دیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ افلاطون جمہوریت کے خلاف تھا۔
صدیاں گزرنے کے بعد دنیا بھر میں جمہوریت کو نہ صرف ایک سماجی نظام کے طور پر قبول کیا بلکہ اسے سراہا بھی۔ جورج گروٹے لکھتے ہیں، ” کسی بھی مساوی معاشرے کو حاصل کرنے کے لیے جمہوریت ہی واحد حل ہے۔
آج دنیا کے کئی ممالک جہاں دوسرے سماجی نظام حکومت رائج ہیں جمہوریت کو قابلِ ستائش سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک اعلیٰ اور اہم مثال امریکا ہے۔ جہاں پچھلے کئی سالوں سے نوجوان عوامی جمہوریت کی بالادستی چاہتے ہیں۔
پاکستان کا پہلا آئین 1952 میں رائج کیا گیا مگر بدلتے سیاسی منظر کے نتیجے میں آئین اور جہوریت کو بڑا دھچکا لگا۔ تین اسمبلیوں کے بعد1973 میں بلآخر آئین کی بالادستی قبول کی گئی اور آج تک پاکستان میں قائم ہے۔ یہ آئین 208 آرٹیکلز اور 34 ترامیم پر مشتمل ہے۔ اسی رائج الوقت آئین کے تحت ہر شہری کے کچھ حقوق ہے۔
اِن میں سے پانچ ایسے ہیں جو کہ پوری دنیا میں تسلیم کی جاتے ہیں۔ ان کی خلاف ورزی کی اجازت دنیا کی کوئی طاقت نہیں رکھتی۔ اِن حقو ق میں ووٹ دینے کا حق، اظہار آزادی رائے کا حق، مذہبی پیروی اور آزادانہ عبادت کا حق، منصفانہ سماعت کا حق اور مساوی حقوق حاصل کرنے کا حق شامل ہیں۔
پاکستان میں اِن حقوق کو تسلیم کیا جاتا ہے اور اہمیت بھی دی جاتی ہے۔ پریس کی آزادی اور کچھ حدود کے اندر رہتے ہوئے قانون کے عائد کردہ مناسب پابندیوں کے تابع، ہر شہری کو تقریر اور آزادء اظہار رائے حاصل ہے۔ اسی آرٹیکل 19 کی ترمیم الف شہریوں کو عوامی اہمیت کی حامل تمام معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے۔ یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ پاکستان کے آئین میں پریس کو مکمل آزادی دی گئی ہے۔ ایسی اور کئی مثالیں ہیں جہاں پاکستان کے شہری ہر آزادء کے حامل ہیں۔ اِن میں نقل و حرکت کی آزادی (آرٹیکل15)، اجتماع کی آذادی (آرٹیکل 16)، فرد کی سلامتی(آرٹیکل 9)، حقوقِ جائیداد کا تحفظ (آرٹیکل24) اور تعلیم کا حق (آرٹیکل 25 الف) شامل ہے۔
اگرچہ ان حقوق کی اہمیت جھٹلائے نہیں جا سکتی، پاکستان کا ہر شہری اس بات کو تسلیم کرنے کا پابند ہے کہ ان حقوق کے ساتھ ساتھ اِن پر کچھ ذمہ داریاں بھی عا ئد ہوتی ہیں۔ اِن میں سرفہرست ایک فعال شہری کا کردار ادا کرنا ہے۔ یعنی اپنے حقوق کا صحیح استعمال۔ اسکے علاوہ عمر پوری ہونے پر قومی شناختی کارڈ اور ووٹ کے اندراج کو یقینی بنانا، ریاستی اداروں کا احترام، قوانین کی بالادستی اور پابندی،خود سے مختلف رائے رکھنے والوں کا احترام اور ٹیکس ادا کرنا جو حکومت کی طرف سے لاگو کیا گیا ہو۔ یہ تمام جمہوریت کا وہ حصّہ ہیں جو اسکی روح کا کام کرتے ہیں۔
میں بحثیت اقوامِ متحدہ رضاکار برائے سماجی تعلیمی لازم سمجھتی ہو کے ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جوحکومت اور عوام کے بیچ میں غلط فہمیاں دور کرے اور دونوں طرف سے اعتماد مضبوط کر سکے۔ ایک جمہوریہ اتنی ہی مضبوط ہوتی ہے جتنی کے اْسکی عوام۔ وقت کے ساتھ ساتھ عوام کی خواہشات کے مطابق نئے عوامی نمائندوں کا انتخاب اور شفاف انتخابات اس بات کی یقین دہانی کرتے ہیں کے آج سے آنے والی اگلی صدی میں بھی پاکستان ایک جمہوریہ ہی کہلائے گا۔ اگر ایسا کرنے میں ہم کامیاب رہے تو پاکستان ہمارے اور رہتی دنیا کے لیے ایک مثال بن کر رہ جائے گا۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں