بے رحموں سے رحم کی اپیل

تحریر:انور ساجدی
سردار اختر مینگل کمیشن کا نتیجہ تو کوئی خاص نہیں نکلے گا لیکن اس کے ذریعے بلوچستان جس انسانی المیہ سے دوچار ہے وہ مزید اجاگر ہوگا بلوچستان کے عوام تو سالہا سال سے عذابوں سے گزررہے ہیں لیکن کمیشن کے ارکان کے سامنے جس طرح ماؤں بیٹیوں اور چھوٹے چھوٹے بچوں نے اپنے دکھ بیان کئے یہ سسکتی ہوئی آوازیں بہت دور تک جائیں گی انسانی حقوق کے علمبردار اور ممتاز پشتون سیاسی اسکالر افسراسیاب خٹک نے متاثرین سے ملاقات کے دوران جن جذبات خیالات اور حقائق کا اظہار کیا اس پر ان کا شکریہ ہی اور کیا جاسکتا ہے۔یہ ایک مسلمہ عالمی اصول ہے کہ جس علاقے میں جنگ ہو اور جو لوگ اس جنگ میں ہتھیار اٹھاکر شریک نہ ہوں ان کے خلاف یا ان کے اہل خانہ کے خلاف کارروائی ظلم کے زمرے میں آتی ہے خاص طور پر خواتین اور بچوں پر ہاتھ ڈالنا انہیں مارنا ان پر تشدد کرنا اور انہیں غائب کرنا جنگی جرائم کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے ایک افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ریاست کا طرز عمل بلوچستان اور وزیرستان میں مختلف ہے جبکہ دیگر علاقوں میں الگ ہے۔یہاں پر ’’زیروٹالرنس‘‘ ہے اگر کسی نے زراسا آزادی اظہار سے کام لیا یا ریاستی جبر کی نشاندہی کی اسے غدار قرار دے کر قابل گردن زدنی قرار دیا جاتا ہے جبکہ دیگر صوبوں میں ریاست کا رویہ قطعی مختلف ہے۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب مسلم لیگ ن زیرعتاب تھی اور عام انتخابات میں لاہور کی 14 نشستوں کے سوا اس کے پاس کوئی نشست نہیں تھی تو قومی اسمبلی میں اس جماعت کے رکن خواجہ آصف نے ایک بے مثال خطاب کیا تھا اس خطاب کی کوئی نظیر اس کے بعد دیکھنے میں نہیں آئی انہوں نے ریاست کی پوری تاریخ ایوان کے سامنے رکھی سقوط ڈھاکہ سے لیکر بلوچستان آپریشن تک ایسی تنقید کی کہ اگر بلوچستان کا کوئی سیاستدان کرتا تو وہ ضرور منٹگمری میانوالی یا کوٹ لکھپت جیل میں پھانسی چڑھتا لیکن معاملات طے پانے کے بعد جب میاں نوازشریف وزیراعظم بن گئے تو خواجہ صاحب کو دفاع کا وزیر بنایا گیا محترم آج کل بھی دفاع کے وزیر ہیں۔پاکستان کو بطور ریاست چلانے کے جو عناصر ذمہ دار ہیں انہیں تضادات سے پر اپنے طرز عمل پر غور کرنا چاہئے اور اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہئے کہ ریاست ایک ہی ملک کے بعض باشندوں کیلئے سگی اور دوسرے حصوں کے لوگوں کیلئے سوتیلی کیوں ہے؟ہاں یہ حقیقت ضرور ہے کہ بلوچستان کے کچھ لوگوں نے ریاست کے خلاف یا اپنے بنیادی حق کیلئے بندوق اٹھائی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ خشک کے ساتھ ترکو بھی جلائیں اور وسیع پیمانے پر بنیادی انسانی حقوق کو پامال کردیں۔اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرسکتا کہ بلوچستان ماضی کے مختلف ادوار میں باالعموم اور گزشتہ 17 برسوں سے باالخصوص حالت جنگ میں ہے یہ جنگ جسے ریاستی مین اسٹریم میڈیا محدود انسرجنسی کا نام دیتا ہے صوبہ کے طول و عرض میں کسی نہ کسی طرح جاری ہے دونوں طرف سے خون بہہ رہا ہے لاشیں گررہی ہیں جنگ میں تو ایسا ہتو ہے لیکن چند ایک مثالوں کے سوا کہیں پر بھی بے گناہ لوگوں کو اس کی سزا نہیں دی جاتی یہ بھی حقیقت ہے ریاست کی طاقت اور وسائل زیادہ ہیں اور بظاہر اس کا پلڑا بھاری ہے لیکن اس حقیقت کے باوجود ریاست کے حصے میں ایک دن بھی سکون کا نہیں گزرتا حکومت نے جنگ میں کامیابی کیلئے طرح طرح کے اقدامات کئے لیکن یہ بے اثرثابت ہوئے کیونکہ یہ سطحی اور کاسمیٹک اقدامات تھے کئی ایسے لوگوں سے سرنڈر کروائے گئے جو پہلے جنگوں کا حصہ رہے ہیں لیکن یہ لوگ بھی حکومت کیلئے خاص فائدہ مند ثابت نہیں ہوئے بلکہ سول ڈاکو بن گئے اسی طرح دنیا کو دکھانے کیلئے انتخابی عمل جاری ہوا لیکن سب کو پتہ ہے کہ یہاں پر کبھی آزادانہ انتخابات کی اجازت نہیں دی گئی بس دنیا کو دکھانے کیلئے پسندیدہ افراد کا انتخاب کیا گیا انہیں اسمبلی میں بٹھایا گیا کسی کو وزیر اور کسی کوگزیر بنایا گیا لیکن ہمیشہ انہیں گماشتہ کے طور پر رکھا گیاحالانکہ صحیح جمہوری عمل ہی فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے جو جنگ جاری ہے وہ تو تباہی لائی ہے لیکن جو لائولشکر جمع کیاگیا انہوں نے تو اپنے علاقوں کو تاراج کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی انہی وجہ سے پورا بلوچستان جنگ زدہ شورش زدہ آفت زدہ دکھائی دیتا ہے۔اگر کسی علاقے کے ہزاروں نوجوان مسنگ پرسنز ہوں تو وہاں کیا ترقی ہوگی کیا سکون ہوگا اور کیا حکومت چلے گی۔یہ جو جنگ ہے اگرچہ اس کے دیرپا اثرات مختلف ہونگے لیکن فوری طور پر اس کا فائدہ وہ مخلوق اٹھارہی ہیں جو کسی سے مخلص نہیں ہے یہ لوگ صرف اپنے مفاد اور پیٹ کے ساتھ مخلص ہیں اس لئے اس کا فائدہ اس میں ہے کہ یہ جاری رہے اور یہ دھن دولت اور پروٹوکول کے لطف اٹھاتے رہیں۔سردار اختر مینگل نے مسنگ پرسنز کے معاملے میں کافی تگ و دو کی ہے اگر حکومت مخلص ہے تو پہلی فرصت میں تمام مسنگ پرسنز کو بازیاب کرے اور آئندہ ایسی کارروائیوں سے گریز کرے اس سے بلوچستان کے حالات پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔تاہم اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ جنگ جنگ ہوتی ہے جو لوگ جنگ کا حصہ ہیں اگرچہ ان کے لواحقین بے قصور ہیں لیکن جو کچھ ہورہا ہے اسے جنگ کا حصہ سمجھنا چاہئے اگر لواحقین حکومت سے صلہ رحمی کی توقع رکھتے ہیں تو وہ محض خوش گمانی ہے کیونکہ یہاں پر جمہوریت انسانیت اور اعلیٰ انسانی اقدار کا فقدان ہے لہٰذا لواحقین کو چاہئے کہ وہ صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کریں اور جنگ کے دوسرے فریق سے ہمدردی اور رحم دلی کی توقع نہ رکھیں جب تک حکمران اپنی ’’ڈاکٹرائن‘‘ کو تبدیل نہیں کریں گے جبر کا سلسلہ جاری رہے گا بدقسمتی سے ہمارے حکمران کسی بھی مسئلہ کو حل رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور رکھتے تو ریاست کا یہ حال نہ ہوتا تمام شعبوں میں معمولی ممالک سے بھی پیچھے ہے اس کی نصف آبادی غربت کی لکیرسے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے ملک عملاً دیوالیہ ہوچکا ہے لیکن کسی کو اس کا احساس نہیں ہے شاہ خرچیاں اور غیر ترقیاتی اخراجات میں اضافہ جاری ہے جبکہ آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ کشکول ہے اگر ان حکمرانوں کو اپنے وطن کا خیال نہیں ہے تو وہ پرائے لوگوں کا کیا خیال رکھیں گے۔حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ اقتدار کی جنگ میں پاگل ہوچکے ہیں سابق وزیراعظم معزولی کے بعد سے سڑکوں پر مارچ کررہے ہیں جبکہ حکومت انتہائی نااہل اور غیر فعال ہے حکومت اور اپوزیشن دونوں میں یہ سلیقہ نہیں کہ وہ گفت و شنید سے معاملات کو حل کریں غالباً یہ دنیا کا پہلا ملک ہے جہاں سیاستدان ایک تقرری کو جلسہ جلوسوں چوک اور چوراہوں کا موضوع بنائے ہوئے ہیں یہ لوگ ایک دوسرے کے مالی سیاسی اور جسمانی کمزوریوں کو اسکینڈل بناکر ایک دوسرے کی رسوائی کا سامان کررہے ہیں عمران خان جو اپنے کو پارسا اور صادق اور امین کہنے کے دعویدار تھے توشہ خانہ کے تحائف دوبئی کے بلیک مارکیٹ میں کوڑیوں کے مول بیچنے کے بعد سربازار رسوا ہوچکے ہیں لیکن مانتے نہیں اسی طرح حکومتی اتحاد کے لوگ بھی کرپشن کے الزامات میں گردن تک ڈوبے ہوئے ہیں لیکن یہ رسوائی صرف سیاستدانوں کے حصے میں آتی ہے جو غیر سیاستدان ہیں ان کے کرپشن کا پیمانہ اور زیادہ ہے غرض اگر یہی کرتوت رہے یہی بے عملی اور نااہلی رہی تو اس ریاست کا کیا مستقبل ہوگا ایسے حکمرانوں سے رحم کی اپیل کرنا اپنی توہین کروانے کے مترادف ہے بس یہی استدعا کی جانی چاہئے کہ حکمران جو بھی ظلم کریں اپنے لوگوں کو بے عزت موت نہ ماریں اگر مارنا ہے تو عزت کے ساتھ ماریں۔