کمان کی تبدیلی

تحریر: انور ساجدی
کمانڈ کی تبدیلی کے مناظر جی ایچ کیو میں بار بار دیکھے گئے ہیں لیکن 75 سال میں صرف 17 آرمی چیف آئے ہیں جبکہ وزرائے اعظم کی تعداد غالباً زیادہ ہے سابق آمر اور جعلی مرد آہن جنرل پرویز مشرف الدین احمد دہلوی غالباً واحد آرمی چیف تھے جو طاقت کی چھڑی اپنے جانشین جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حوالے کرتے ہوئے کانپ رہے تھے وہ جانتے تھے کہ اس کے بعد وہ زیرو ہوگئے ہیں ان کے مقابلے میں جب قمر جاوید باجوہ کمانڈ کی تبدیلی کے وقت اسٹک سید عاصم منیر کو سونپ رہے تھے تو ان کی حالت پرویز مشرف سے بہتر تھی۔
یہ جو تبدیلی کمان ہے یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے یہ ایک نئی شروعات ایک نئی تاریخ کا آغاز ہے منگل 29 نومبر کو جی ایچ کیو کے گراؤنڈ میں جو تقریب ہوئی وہ طویل ترین تھی اس کے بعد سرباجوہ تاریخ کے جھروکوں میں کہیں گم ہوجائیں گے اور نئے آرمی اپنی ڈاکٹرائن نافذ کرکے آگے بڑھیں گے باجوہ کی ریٹائرمنٹ کو لیکر تحریک انصاف کے رہنما اور کارکن اپنے دل کی بھڑاس خوب نکال رہے ہیں لمبے بال والے علی امین گنڈاپور نے ٹوئٹ کیا کہ وہ میر جعفر اور میر صادق اور کوئی نہیں جنرل باجوہ تھا وہ تمام لوگ جو 2018ء سے 2022ء کے اپریل تک باجوہ سر کے بوٹ چمکاتے تھے وہ خود کو ایسے دشمن ظاہر کررہے ہیں جیسے ان کی کوئی جدی پشتی دشمنی تھی اور ہاں یہ تحریک انصاف تھی جس نے باجوہ سر کو اپنے ”منے کا ابا“ بنا رکھا تھا انہی کی بدولت پانامہ اسکینڈل میں نواز شریف کو معزولی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا تھا انہی کی سرپرستی کی وجہ سے جولائی 2018ء کے انتخابات کی شب تحریک انصاف کو سب سے بڑی جماعت کے درجہ سے سرفراز کیا گیا تھا غالباً یحییٰ خان کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ آرمی چیف اور ان کی پالیسیوں کو لیکرسارے ملک میں کئی ہفتوں تک ہیجان برپا رہا ورنہ اس سے پہلے فوج کے معاملات پر چپ سادھ لی جاتی تھی ایک جلاوطن اینکر ڈاکٹر معید پیرزادہ نے اپنے یوٹیوب تبصرے میں کہا ہے کہ یحییٰ خان کے بعد باجوہ نے ملک اور فوج کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا دیگر تبصروں میں کہاگیا ہے کہ جب ملک نواز شریف کی قیادت میں آگے بڑھ رہا تھا تو باجوہ نے نواز شریف کو معزول کردیا جس کی وجہ سے ترقی رک گئی 2018ء میں آر ٹی ایس فیل کرکے عمران خان کو کامیاب کیا گیا اور وزیراعظم بنایا گیا جو اس کے اہل نہیں تھے اس کی وجہ سے پاکستان کی شرح ترقی مائنس میں چلی گئی جب عمران خان نے کوشش کرکے معیشت کی سمت درست کردی تو اچانک باجوہ صاحب نے عدم اعتماد کے ذریعے بلاوجہ انہیں منصب سے اتارا جس کی وجہ سے شدید ترین عدم استحکام پیدا ہوا معیشت ڈوب گئی حتیٰ کہ ڈیفالٹ کا خطرہ پیدا ہوگیا سوال یہ ہے کہ بیٹھے بیٹھائے اس غیر ضروری اقدام کی کیا ضرورت تھی اگر عمران خان کی حکومت کو اگست 2023ء تک چلنے دیا جاتا تو اتنی تباہی نہ آتی جہاں تک مداخلت کا تعلق ہے تو عمران خان اعتراف کرچکے ہیں کہ اقتدار ان کا تھا لیکن اختیار کسی اور کا تھا ان کے بقول نیب کو اپنے کنٹرول میں رکھا گیا اور خارجہ پالیسی بھی انہی کے پاس تھی کاش عمران خان اسی وقت مرد کا بچہ بنتا یا تو مداخلت بند کروادیتا یا استعفیٰ دے کر گھر چلا جاتا لیکن اس وقت انہوں نے بزدلی اور مصلحت سے کام لیا انہوں نے سارے انکشافات اور تلخ حقیقتوں کا انکشاف اپنی معزولی کے بعد کیا بلکہ ان کو گلہ رہا کہ باجوہ سر نے ان کے اقتدار کو بچایا کیوں نہیں۔
باجوہ صاحب آرمی چیف تھے اس وقت دنیا کے 100 بڑے ممالک میں اتنے ہی آرمی چیف ہیں لیکن ان کا نام کوئی نہیں جانتا پاکستان میں آرمی چیف کو بچہ بچہ اس لئے جانتا ہے کہ یہاں پر اصل حکمران آرمی چیف ہوتے ہیں کوئی بھی حکومت ان کی مرضی اور رہنمائی کے بغیر نہیں چلتی یہ روایت ایوب خان نے 1954ء سے ڈالی تھی اس زمانے میں ہر چند ماہ کے بعد حکومت بدلتی تھی۔
تاوقتیکہ سیاستدانوں کی نااہلی کی آڑلیکر انہوں نے پہلامارشل لاء مسلط کردیا ایوب خان کے 10 سالہ دور کے بعد بھی مارشل لاء جاری رہا اور جنرل یحییٰ خان تین سال تک فوجی سربراہ رہے سقوط ڈھاکہ کے بعد یحییٰ خان اپنے راولپنڈی کے گھر میں چھپ کر بیٹھ گئے تو بھٹو نے اقتدار سنبھالا ان کو اپنے پہلے آرمی چیف جنرل گل حسن کو نکالنے کیلئے بڑا ڈرامہ کرنا پڑا ملک دولخت ہونے کے باوجود تمام جرنیلوں نے بھٹو کو صاف بتادیا کہ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ شائع نہیں کرنی بھٹو کو یہ حکم ماننا پڑا اپنے مہربان دوست ڈاکٹر مبشر حسن کے مطابق سقوط ڈھاکہ کے صرف دو سال بعد فوج اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئی تھی اور انہوں نے بھٹو جیسے آدمی سے منوالیا کہ بلوچستان میں آپریشن شروع کرنا ہے۔
یہی وہ آپریشن تھا کہ اس نے پاکستان کی سمت تبدیل کردی اور ملک کا بیخ نکال دیا بھٹو نے اس وقت کی دوسری بڑی جماعت نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگادی اور اس کے بعد لیڈروں کے خلاف حیدرآباد سازش کیس چلایا جس کا کوئی سر پیر نہیں تھا بلوچستان آپریشن (1973ء) کے بعد بھٹو ایک دن بھی سکون سے نہیں بیٹھا ابھی مشرقی پاکستان کے گھاؤ تازہ تھے کہ بلوچستان کے عوام پر قہر توڑا گیا یعنی سبق سیکھنے بجائے اپنے عوام کو فتح کرنے کا عمل شروع کردیا گیا۔
سقوط ڈھاکہ کے 6 سال بعد فوج نے بھٹو کا تختہ الٹ دیا اور نوزائیدہ جمہوریت کو قتل کردیا ضیاؤالحق نے پہلے متفقہ آئین کو معطل کرکے طاقت کا وہ بے رحمانہ استعمال کیا کہ دنیا کے چند ایک ممالک کے سوا اس کی کوئی مثال موجود نہیں تھی۔
ضیاؤالحق 11 سال تک حکومت کرنے کے بعد بہاولپور کی فضاؤں میں قتل ہوگئے ان کی موت کے بعد جو الیکشن ہوئے ان میں تمام تر کوششوں کے باوجود پیپلزپارٹی جیت گئی لیکن ایک رسوا کن معاہدے کے بعد ہی حکومت بینظیر کو دی گئی وہ بھی اس صورت میں کہ صاحبزادہ یعقوب علی خان (سابق جی او سی مشرقی پاکستان) جوکہ ضیاؤالحق کے وزیر خارجہ تھے وہ بینظیر کے بھی وزیر خارجہ بنادیئے گئے 1999ء میں جنرل مشرف نے ایک بارپھر سویلین حکومت کو چلتا کردیا اور نوازشریف کو ہائی جیکربناکر عمر قید کی سزا سنائی 2008ء میں انتخابات اس طرح ہوئے کہ بینظیر کی قربانی ہوچکی تھی اس وقت جنرل کیانی آرمی چیف تھے انہوں نے جس طرح مداخلت کی اور حکومت کو زنجیروں سے باندھ دیا وہ تاریخ کا حصہ ہے راحیل شریف کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ آئے کیانی کی طرح ان کی تقرری بھی میاں صاحب نے کی تھی وہ آتے ہی میاں صاحب کے خلاف ہوگئے اور عمران خان کو اقتدار میں لانے کی کوششوں میں لگ گئے وہ شاید واحد آرمی چیف ہین کہ ان کے دور میں تین وزرائے اعظم تبدیل ہوگئے ان کی ڈاکٹرائن کی وجہ سے کئی چیزیں غلط سلط ہوگئیں ان کی ڈاکٹرائن صحیح تھی یا غلط یہ تو وقت بتائے گا لیکن ان کے دور میں گمشدہ افراد کی تعداد بڑھ گئی صحافیوں کو سبق سکھانے کے واقعات بھی زیادہ ہوگئے اور ففتھ جنریشن وار کے نام پر اظہار رائے کو محدود کردیا اقتدار کے شروع کے مہینوں میں عمران خان نے ان کا ہرکہامانا جس کی وجہ سے صحافت پر اتنا مشکل وقت آیا کہ ایوب اور یحییٰ خان کے سوا کسی دور میں اس کی مثال نہیں ملتی بدقسمتی سے باجوہ نیازی دور میں تشدد کو فروغ ملا اور طاقت کے زیادہ استعمال سے معاشرے میں ایک خوف اور عدم توازن پیدا ہوگیا اب جبکہ باجوہ صاحب رخصت ہوچکے ہیں اور سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ چل رہا ہے کہ وہ جلدیہ ملک چھوڑ کر کسی دور دیس میں جاکر بسیں گے تو انہوں نے جو کچھ کیا صرف وہ نقش قدم باقی وہ جائے گا۔
جہاں تک نئے چیف کا تعلق ہے تو ان کی شخصیت کے اکثر پہلو عیاں نہیں ہیں معلوم نہیں کہ وہ باجوہ صاحب کی پالیسیوں کو لیکر چلیں گے یا اپنی الگ پالیسی بنائیں گے اس بات کا گمان ضرور ہے کہ وہ ایک پیشہ ور جرنیل ہیں اور کئی شعبوں میں ایک سخت گیر عسکری قائد ثابت ہونگے البتہ یہ طے نہیں کہ فوج سیاستدانوں کی رہنمائی کا سابقہ کردار ادا کرتی رہے گی یا کسی حد تک غیر جانبدار رہے گی اس بارے میں کوئی نہیں جانتا جب وہ جی ایچ کیو میں کچھ عرصہ گزاریں گے تب پتہ چلے گا کہ ان کی دلچسپیوں کا دائرہ کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں