آزادی اظہار اور ہمارا خطہ

تحریر: انور ساجدی
اس وقت دنیا کے بیشتر حصے میں اظہار رائے کی آزادی مفقود ہے بعض ممالک میں سنسر شپ جیسی صورتحال ہے جبکہ ایشیاءافریقہ اور لاطینی امریکہ کے اکثر ممالک میں میڈیا پر مکمل کنٹرول ہے ایشیاءمیں چین شمالی کوریا ایران سعودی عرب شام اور عراق میں قہرآلود پابندیاں ہیں چین چونکہ ٹیکنالوجی کے اعتبار سے کافی آگے ہے اس لئے وہاں پر انٹرنیٹ کے متبادل ذرائع موجود ہیں فیس بک ٹوئٹر یوٹیوب اور واٹس اپ کے استعمال پر پابندی ہے حتیٰ کہ ہانگ کانگ جو کہ ایک خود مختیار حیثیت رکھتا ہے وہاں پر مغربی ابلاغ کے استعمال کی عام اجازت نہیں ہے شمالی کوریا میں ٹی وی سے لیکر دیگر تمام ابلاغ حکومت کے کنٹرول میں ہیں خلاف ورزی پر فائرنگ اسکواڈ کے حوالے کیا جاتا ہے روس یورپ اور ایشیاءدونوں میں آتا ہے وہاں پر پوٹن کی انتہائی ظالمانہ آمریت قائم ہے اگرچہ وہاں پر پرنٹ میڈیابھی کام کررہا ہے لیکن جس اخبار نے کوئی مخالفانہ مواد شائع کیا تو اس کی بندش میں دیر نہیں لگتی امریکی تھنک ٹینک کافی عرصہ سے پوٹن کو روس کا نیا ”زار“ کہتے ہیں لیکن اگر زمانے کا موازنہ کیا جائے تو 19 ویں صدی کا زار آج کے پوٹن کے مقابلہ میں بہت کمزور تھا پوٹن نے 21 ویں صدی میں بھی قاتلانہ سنسر شپ نافذ کررکھی ہے۔
روس کا پڑوسی ملک چین جہاں انسانی زندگی اور احترام آدمیت کا کوئی عمل موجود نہیں ہے سارے اخبارات حکومتی کنٹرول میں ہے متعدد ٹی وی چینل بھی سرکاری پروپیگنڈے کا ذریعہ ہیں چین کے علاقہ سنگینانگ جو بنیادی طور پر ایسٹرن ترکستان ہے کافی زمانے سے وہاں کے مسلمان باشندے غلاموں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں اس علاقہ کے لاکھوں لوگوں کو بنیادی حقوق حتیٰ کہ زندہ رہنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے پاکستان کے شمال میں افغانستان ہے وہاں کا نظام بھی چین سے ملتا جلتا ہے وہاں کے حکمرانوں کے نزدیک آزادی اظہار کا حق صرف انہیں حاصل ہے آزاد میڈیا کا تصور ناپید کردیا گیا ہے حکومتی اقدامات کے خلاف آواز اٹھا نا جرم ہے حالانکہ وہاں پر ابھی تک کوئی باقاعدہ آئین موجود نہیں ہے البتہ تعزیری قوانین کا سخت استعمال ہورہا ہے اب تو خواتین کے باہر نکلنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے پاکستان کے جنوب میں ایران ہے جہاں چار دہائیوں سے رجعتی ملاﺅں کی آمریت قائم ہے ایران جو کہ طویل عرصہ سے مغربی تہذیب اور تمدن اپنایا ہوا تھا ملاﺅں نے جبر کا نظام نافذ کرنے کےلئے ایک باقاعدہ فورس قائم کررکھی تھی جو دیکھتی تھی کہ اگر سڑکوں باغوں یا بازاروں میں اگر کسی خاتون کا آنچل سرک گیا ہے تو باقاعدہ گرفتاری عمل میں آتی تھی اور سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔
ایران کے مقبوضہ کردستان کے علاقہ میں ایک 22 سالہ لڑکی مہسا امینی کو اسی پولیس نے گرفتار کیا جس کی موت دوران حراست ہوئی اس کے بعد سے ایران میں شہری آزادیوں کی ایک تحریک شروع ہوئی جو ابھی تک جاری ہے پاسداران سینکڑوں لوگوں کو ہلاک کرچکے ہیں ایسا ظلم و بربریت شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں ہو مغربی مبصرین کے مطابق ایران قدامت پسند ملا رفتہ رفتہ اپنا کنٹرول کھو رہے ہیں اس لئے وہ جبر کے ذریعہ حالات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیںلیکن گزشتہ 43 سالوں میں نام نہاد انقلاب اپنے عوام کو کوئی بنیادی سہولت فراہم نہیں کرسکا ایران کرنسی کی قدر خطے میں سب سے کم ہے ملاﺅں کے سوا ساری آبادی غربت کی زندگی گزار رہی ہے اس کے باوجود ایرانی رجیم کی جنگی تیاریاں عروج پر ہیں اور اس کے سر پر جدید اسلحہ سازی کا جنون سوار ہے ایران اسرائیل کے بعد مشرق وسطیٰ کا واحد ملک ہے جو ایٹمی ہتھیار بنانے کی سر توڑ کوشش کررہا ہے وہ جدید بیلسٹک میزائل اور ڈرون طیارے بنانے میں کامیابی حاصل کرچکا ہے ایران کچھ عرصہ قبل اپنے جدید ترین ڈرون روس کو فراہم کرچکا ہے جو یوکرین پر حملوں میں استعمال ہورہے ہیں خدشہ یہ ہے کہ ایران یہ ڈرون اپنے اڑوس پڑوس کو بھی بیچنے میں دلچسپی رکھتا ہے جس کے باعث دنیا کے کئی ممالک میں تباہی آسکتی ہے۔
ایران سے مغرب کی طرف ترکی ہے کہنے کی حد تک وہاں پر جمہوری نظام نافذ ہے لیکن طیب اردگان کسی ظالم عثمانی خلیفہ کا روپ اختیار کئے ہوئے ہے ترکیہ کو کئی انقلابی تحریکوں کا سامنا ہے جن میں کردوں کی تحریک سرفہرست ہے جبکہ علویوں کا قتل عام بھی معمول کی بات ہے ترکی کے میڈیا پر پابندی ہے کہ وہ لفظ کرد استعمال نہیں کرسکتا کردوں کی زبان ثقافت اور تعلیمی اداروں میں بولنے پر پابندی ہے کوئی زمانہ تھا جب حریت یہاں کا سب سے بڑا اخبار تھا لیکن اب یہ حکومتی کنٹرول میں ہے اسی طرح گزشتہ ادوار میں کیہسان انٹر نیشنل ایران کا سب سے بڑا اخبار تھا لیکن اب یہ کچھ معدوم ہوچکا ہے ترکی کے پڑوس میں شام ہے وہاں پر بشارالاسد کی طویل آمریت قائم ہے ویسے تو شام اور ترکی ایک دوسرے کے دشمن ہیں لیکن کردوں کے قتل عام میں دونوں میں اتفاق ہے ترکی مسلکی اعتبار سے شام کو تسلیم نہیں کرتا باقی جو عرب یا افریقی ممالک ہیں وہاں پر آزادی اظہار کوئی معنی نہیں رکھتی جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہاں پر سینکڑوںاخبارات اور درجنوں ٹی وی چینل کام کررہے ہیں یہ مین اسٹریم میڈیا کہلاتا ہے۔
پنجاب سے تعلق رکھنے والے بالادست حکمران اس میڈیا کو قومی میڈیا کہتے ہیں جو حقیقت میں صرف ایک طبقہ کی نمائندگی کرتا ہے یہ سارا میڈیا مرکزی سرکار کے کنٹرول میں ہے یہ سرکار میڈیا کےلئے مختص وسائل کا بڑا حصہ ان پر خرچ کرتی ہے یہ میڈیامتحارب ایلیٹ کے دو گروہوں کی خبریں دینے میں آزاد ہے لیکن حقائق چھپانے میں اس کا بڑا کردار ہے مثال کے طور پر بلوچستان کے جو واقعات ہیں نیشنل ایکشن پلان کی آڑ لیکر انہیں چھپایا جاتا ہے یا حکومتی احکامات پر مسخ کرکے پیش کیا جاتا ہے جو ریجنل پریس ہے اس پر براہ راست غیر اعلانیہ سنسر شپ نافذ ہے پاکستان کے میڈیا کو سختی سے ہدایت ہے کہ کالعدم بلوچ تنظیموں کی کوئی خبر نشر نہ کی جائے جبکہ پی ٹی ایم اور فاٹا کی خبروں کی اشاعت پر بھی پابندی ہے کہنے کی حد تک یہ جمہوری ریاست ہے اس لئے کچھ چیزوں کی اجازت بھی ہے یہ محض دکھاوا ہے چونکہ بلوچستان اور وزیرستان وار زون ہیں لہٰذا ان کے معاملات کو حساس قرار دے کر انہیں کنٹرول کی جاتا ہے لہٰذا یہاں پر واقعات کو رپورٹ کرنا ایک فن کی حیثیت رکھتا ہے اور معافی الضمیر کو اشاروں کنایوں اور مخصوص انداز میں پیش کیا جاتا ہے اس کا اثر یہ پڑتا ہے کہ دونوں فریق شاکی رہتے ہیں ایک فریق چاہتا ہے کہ مکمل بے باکی کے ساتھ واقعات پیش کئے جائیں جبکہ دوسرا فریق مکمل بلیک آﺅٹ کے حق میں ہے چنانچہ ایسے میڈیا سے دونوں فریق ناراض رہتے ہیں لیکن خبر پھر بھی نکل جاتی ہے سوشل میڈیا اگرچہ سب سے مو¿ثر ابلاغ ہے لیکن ناپسندیدہ خبروں کی سرخیوں کے سوا تفصیل نہیں ملتی ہے کیونکہ سوشل میڈیا کو کنٹرول حاصل کرنے کی دسترس موجود ہے جو وار زون ہیں وہاں پر سب سے زیادہ خطرہ صحافیوں کو لاحق ہوتا ہے کیونکہ یہاں پر مختلف مسلح جتھے کام کررہے ہوتے ہیں اور یہ اکثر کارروائیاں کرتے رہتے ہیں بلوچستان کی حالیہ جنگ کے دوران تقریباً چار درجن صحافی قتل ہوچکے ہیں ۔
مین اسٹریم میڈیا اپنے ہاں کسی صحافی کو تھپڑ مارنے کے معاملہ پر آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے لیکن بلوچستان میں صحافیوں کے قتل پر بھی اتنی آواز نہیں اٹھاتا اس طرح یہ لوگ تاریک راہوں میں مارے جانے والے بے بس لوگ ہیں اسلام آباد میں یہ بات زیر بحث ہوتی ہے کہ نامور صحافیوں اور اینکر پرسن میں کون زیادہ دولت مند ہے مثال کے طور پر تحریک انصاف کا ایک فدائی اینکر عمران ریاض خان ہے جس کو گزشتہ حکومت نے باقاعدہ ایک بڑی بڑی جھیل بناکر دی ہے جہاں اس کا فش فارم اور بڑا فارم ہاﺅس ہے اس کام پر ایک اندازہ کے مطابق 75 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں لیکن بلوچستان میں سیکریٹری خزانہ کے گھر سے 75 کروڑ برآمد ہوئے تھے تو میڈیانے کہرام برپا کردیا تھا بلوچستان کے اعلیٰ افسران کی یہ حیثیت ہے کہ وہ پنجاب کے ایک اینکرپرسن کی برابری بھی نہیں کرسکتے۔
اس بات کا ادراک کرنا ضروری ہے کہ محکمومی اپنے ساتھ ہزار المیوں کو جنم دیتی ہے اور یہ کوئی دائمی چیز نہیں ہے اس کے خلاف مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے محکومی کی زنجیریں ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتیں لیکن یہ کام اس وقت ہوگا کہ متاثرین ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی الگ مساجد بنانا بند کردیں اور ایک نکتہ پر یک جا ہوجائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں