نواب صاحب کی مراجعت ایک قومی خسارہ

تحریر: انور ساجدی

نواب محمد اسلم رئیسانی سابقہ ریاست قلات کے ریکارڈ میں سب سے بڑے سردار ہیں ریاستی دور میں چیف سردار کو سر سرداران ساراوان کہا جاتا تھا پروٹوکول کے اعتبار سے وہ خان قلات کے دائیں جانب اور زہری سردار جو چیف آف جھالاوان کہلاتے تھے بائیں جانب تشریف فرما ہوتے تھے 1948ءکے ناقابل فراموش واقعات کے بعد ریاست قلات معدوم ہوگئی لیکن سردار برقرار رہے جبکہ الیکشن اور جمہوریت کی وجہ سے سردار برائے نام رہ گئے اور نئے حالات کے تقاضے کے مطابق ڈھل گئے ہر دور کی حکومت نے بھی ان کی دستگیری کی 1970ءکے عام انتخابات میں نواب غوث بخش رئیسانی صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوگئے ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد نواب صاحب کو بلوچستان کاپہلا گورنر مقرر کردیا وہ صوبہ کے پہلے سویلین گورنر بنے اقتدار نیپ کو منتقلی کے بعد بھٹو صاحب نے نواب رئیسانی کو وفاقی کابینہ میں شامل کرلیا کچھ ہی عرصہ بعد وہ بلوچستان واپس آگئے اوروہ صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرنے لگے 1973ءمیں نیپ جے یو آئی کی حکومت کی برطرفی کے بعد نواب صاحب کو سینئر صوبائی وزیر بنایا گیا جبکہ بھٹو نے انہیں پیپلز پارٹی بلوچستان کا صدر بھی بنایا نواب صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقدہ 24-22فروری 1974ءکے دعوت نامے انہوں نے بھٹو کے خصوصی ایلچی کی حیثیت سے اسلامی دارالحکومت میں جاکر پہنچائے۔
نواب غوث بخش رئیسانی کے بعد ان کے صاحبزادہ محمد اسلم رئیسانی نہ صرف قبیلہ کے سردار منتخب ہوئے بلکہ سیاسی جانشینی بھی ان کے حصے میں آئی وہ 1988ءکے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور میر غوث بخش بزنجو کی نیشنل پارٹی کا حصہ بن گئے گویا انہوں نے قوم پرستی کی سیاست کا انتخاب کیا اس زمانے میں پی این پی کو ایک قوم پرست جماعت سمجھا جاتا تھا کافی نشیب و فراز دیکھنے کے بعد نواب صاحب پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے اور 2008ءمیں وزیراعلیٰ بن گئے وہ الگ طبیعت کے مالک تھے ان کا انداز یہ تھا کہ ہر بڑی بات مزاحیہ انداز میں کہتے تھے اور اس کی آڑ میں بڑی سے بڑی بات کر جاتے تھے ان کے کئی جملے ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرگئے۔
جیسے کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے وہ لفظ”بمبو“ بھی کثرت کے استعمال کرتے تھے ظاہری طور پر ان کی شخصیت کا جو بھی تاثر ہو وہ اندرونی طور پر انتہائی سنجیدہ انسان ہیں اگرچہ ان کی وزارت اعلیٰ کے دوران بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال ٹھیک نہ تھی اور مرکز براہ راست مداخلت کرتا تھا اس کے باوجود انہوں نے نسبتاً حکومت بہتر انداز میں چلائی اس کے سارے ایم پی اے اور وزراءصاحبان ان سے خوش تھے ان کے دور میں بڑا واقعہ ریکوڈک لیز کی منسوخی تھا جس کی وجہ سے پاکستان پر اربوں ڈالر جرمانہ عائد ہوا نواب صاحب اگرچہ ایک قبائلی شخصیت تھے لیکن منتقم مزاج نہ تھے انہوں نے اپنی حکومت کے دوران بہت کم لوگوں کو فوائد پہنچائے لیکن نقصان کسی کو نہیں پہنچایا اپنی مدت کی تکمیل سے کچھ عرصہ قبل ہزارہ قتل عام کی وجہ سے ان کی حکومت برطرف کردی گئی اور صوبے میں گورنر راج نافذ کردیا گیا برطرفی کے بعد وہ سوشل میڈیا پر بہت ہی ایکٹیو ہوگئے ان کی اکثر پوسٹیں شذرے اور دیگر مواد بلوچستان کی تاریخ جغرافیہبلوچستان کے الحاق حتیٰ کہ زبان ادب شاعری اور قوم پرستانہ ہوتے تھے انہوں نے کئی تاریخی مواد کہنہ دفاتر سے نکال کر عام کردیئے جن میں 11 اگست 1947ءکا وہ معاہدہ بھی شامل تھا جس کے تحت نئی ریاست نے قلات کی آزاد حیثیت کو تسلیم کیا تھا نواب صاحب نے بندر عباس سے لیکر کوہ سلیمان اور یہاں سے بہت دور ترکمانستان تک کی بلوچی شاعری کو اجاگر کیا وہ بلوچستان پر طاقت کے استعمال کے سخت ناقد تھے اور ان کا مو¿قف تھا کہ 1940ءکی قرار داد لاہور کے مطابق وفاقی اکائیوں کو خود مختاری دی جائے کبھی کبھار ایسا لگتا تھا کہ بلوچ قومی تحریک سے ان کی وابستگی بہت گہری اور اٹوٹ ہوچکی ہے اور شاید انہوں نے اپنی باقی کی زندگی اس کےلئے وقف کردی ہے لیکن رواں سال بلوچ نوجوانوں کو اس وقت دھچکہ لگا جب یہ خبر عام ہوئی کہ نواب صاحب دینی جماعت جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ میں شامل ہورہے ہیں ایک مرتبہ تاریخ بھی طے ہوگئی تھی لیکن نواب صاحب نے شدید کشمکش ذہنی الجھاﺅ اور کرب کی وجہ سے فیصلے پر عمل نہ کیا تاہم اس مرتبہ یہ بات یقینی ہے کہ نواب صاحب سات دسمبر 2022ءکو کوئٹہ میں جے یو آئی میں شمولیت کا باقاعدہ اعلان کردیں گے مولانا صاحب سمیت پارٹی قائدین کوئٹہ پہنچ چکے ہیں بظاہر ان کی شمولیت میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں ہے۔
نواب صاحب کی بلوچ قوم پرستی سے ایک دینی جماعت میں شمولیت ایک بڑی سیاسی مراجعت ہے اس پر نواب صاحب نے لاکھ بار سوچا ہوگا اور ان کے ضمیر نے اتنی بار انہیں روکا ہوگا لیکن بالآخر انہوں نے سیاسی اعتبار سے فیصلہ کو فوقیت دی۔
ان کی جمعیت میں شمولیت کے بارے میں وہ تبصرہ درست ہے جو جواہر لعل نہرو نے کانگریس کے ایک بڑے لیڈر کے کانگریس سے علیحدگی کے بارے میں کیا تھا جب کسی نے یہ خبر انہیں سنائی تو انہوں نے فرمایا وہ ایک اچھے انسان ہیں جب تک کانگریس میں رہے اچھائی کرتے رہے اور جہاں بھی جائیں گے اچھائی ہی کریں گے۔
سو نواب صاحب ایک اچھے انسان ہیں پہلے جن دو جماعتوں میں رہے وہاں پر اچھا وقت گزارا اب جبکہ وہ جے یو آئی کو شرف بخش رہے ہیں تو اس جماعت میں بھی اچھائی کریں گے نہ صرف یہ بلکہ وہ جے یو آئی کےلئے بہت قیمتی اثاثہ ثابت ہونگے اور اس پارٹی کو بلوچستان میں نئی تقویت ملے گی۔
اگر آئندہ انتخابات میں حالات نے ساتھ دیا تو جے یو آئی کےلئے حکومت سازی بھی آسان ہوجائے گی اسے وزارت اعلیٰ کےلئے پہلے سے تیار شخصیت بھی مل جائے گی نواب صاحب کے جے یو آئی میں جانے کا جو خسارہ ہے وہ کسی اور کا نہیں بلکہ بلوچ قوم کا خسارہ ہے بلوچ کےلئے اس طرح کے خسارے برداشت کرنا کوئی نئی بات نہیں ایسے وقت میں جبکہ قومی تحریک ایک نازک مرحلے سے دو چار ہے سیاسی شخصیات کی مراجعت اگرچہ نقصان دہ ہے لیکن نئے حالات میں اس تحریک کی قیادت کوئی اور مخلوق کررہی ہے وہ سیاسی اور وقتی مصلحتوں سے ماوریٰ اور آزاد ہے اور اسے پرواہ نہیں کہ کون آتا اور کون جاتا ہے۔
نواب رئیسانی کی شمولیت کے ساتھ ہی کوئٹہ میں افواہوں کا بازار گرم ہوگیا ہے سوشل میڈیا پر افواہیں عام ہیں کہ جے یو آئی جلد وزیراعلیٰ قدوس بزنجو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لارہی ہے بظاہر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا امکان کم نظر آتا ہے تاوقتیکہ باپ پارٹی کا ایک دھڑا اس کی حمایت نہ کردے اور جب تک سردار اختر مینگل تحریک عدم اعتماد کے پلڑے میں اپنا وزن نہ ڈالے یار لوگوں کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کی صورت میں نواب رئیسانی نئے وزیراعلیٰ ہونگے اگر جے یو آئی کا ایسا پلان ہے تو وہ نئے انتخابات تک اس کومو¿خر کردے اور انپی تمام تر توجہ انتخابات پر مرکوز رکھے تاکہ زیادہ اکثریت لیکروہ ایک مضبوط حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں آجائے نواب صاحب بھی نئے انتخابات کے بعد ہی بطور وزیراعلیٰ زیادہ کارآمد ثابت ہونگے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں