خواتین آفیسران کے سامنے شرمند ہ کھڑے مرد

بایزید خان خروٹی
بلوچستان میں حکومتی سطح پر رونما ہونے حالات و و اقعات سے معلوم ہوتاہے کہ یہاں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سرکاری ملازمین کو کرپٹ بنانے کی کوششیں ہورہی کرپشن کوختم کرنے کی بجائے اسکی راہ ہموار کی جارہی ہے کرپٹ آفیسران کی حوصلہ افزائی جبکہ کرپشن کے خلاف اقدامات کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے۔ پہلے سے تو نظام میں موجود آفیسران اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اگرخود کرپشن نہیں کرنی تو کرپشن کرنے والوں کے معاملات میں مداخلت بھی نہیں کرنی ہے کیونکہ وہ سمجھ چکے ہیں کہ یہاں کرپشن کرنے والااچھا جبکہ اختلاف رائے رکھنے والا معیوب ہے۔بوسیدہ نظام میں جہاں پر مرد انہ لاٹ کی افسرشاہی نے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور خود کو نظام شکنوں کی تحویل میں دے رکھا ہے وہاں دیکھا گیا ہے کہ کچھ نئی بھرتی ہونے والی خواتین آفیسران ریاست کی وفادار اور اس کے قوانین کا ساتھ دینے کی کوشش کرتی نظر آتی ہیں لیکن نامرد نظام نے مردانہ وار کام کرنے سے خائف ہوکر ان خواتین آفیسران کو مشکل میں ڈال رہاہے۔ اور اپنے جیسا بنانے کی کوششیں کررہا ہے یہ سب کچھ ایمانداری کا لبادہ اُڑے ہوئے موجودہ صوبائی حکومت کے دور میں ہورہا ہے موجودہ حکومت کے دوران یہ تیسرا واقع ہے جو خوا تین کے ساتھ پیش آرہا ہے اس سے قبل یہ اسسٹنٹ کمشنرزثانیہ صافی، نداکاظمی کے ساتھ پیش آیا ہے کہ انکو اچھے کاموں کی سزا دی گئی اور اب عائشہ زہری کے ساتھ پیش آیا ہے اپنے عہدوں اور سرکاری فرائض منصبی آئینی اور قانونی طور پر بیان کردہ طریقے سے سرانجام دینے کی پاداش میں سزا ئیں پائی ہیں۔ اور آبیل مجھے مار کی کہاوت جیسے حالات سے دوچار ہوئی اور پھر ریاست کے بہتر مفاد میں اٹھائے ہوئے اقدامات کے نتیجے میں آنے والے مسائل اور مشکلات کا تن تنہا خود سامنا کیا اور صلح صفائیاں انکوخود مجبورا کرنی پڑی۔ چھ ماہ قبل عائشہ زہری نے بطور اسسٹنٹ کمشنردالبندین اپنے علاقے چھاپہ مارا اور منشیات برآمد کرلی لیکن ان کے ماتحت لیویز آفیسر نے یہ کہہ کر کیس کرنے سے انکار کردیا تھا کہ ڈپٹی کمشنرچاغی نے انکو منع کر رکھا ہے کہ اے سی کے حکم پر کوئی کیس درج نہ ہو،ا معاملہ بین الاقوامی میڈیا پر رپورٹ ہوا تو صوبائی حکومت نے اپنی ساکھ بچانے کیلئے نوٹس لیا اور انکوائری کا حکم دے دیا گیا انکوائری میں قصور وار ڈی سی کو قرار دیا گیا اور پھر 6 ماہ تک یہ قصہ پارینہ بنا رہا لوگ اے سی کوحکومتی داد اور ملوث ڈپٹی کمشنر چاغی کے خلاف کاروائی کرنے تک بھی بھول گئے اور پھر اچانک چیف سکریڑی بلوچستان کو خیال آیا جس انکوائری فائل پر وہ خود لکھ چکے ہیں کہ عائشہ زہری کے خلاف کاروائی کوئی ضرورت نہیں ہے وہ فائل دوبارہ کھول دیا گیا اور خاتون آفیسرکو شوکاز نوٹس جاری کردیا اس شوکازنوٹس کے پیچھے کی کہانی ایک خود ساختہ ایماندار وزیر کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو ہے جو وزیر وزیراعلی کے دست راست سمجھے جاتے ہیں۔ جو مختلف ذرائع سے اس خاتون آفیسر کواس واقع کے بعد نشان عبرت بنانے کی دھمکیاں اور موجود حکومت کی وجود تک او ایس ڈی رکھنے دھمکیاں دیتاآ رہا ہے انہوں وزیراعلی سے یہ کہہ کر چیف سکریڑی بلوچستان کو مجبور کیا ہے کہ وہ خاتون آفیسر پر دباو ڈالنے کیلئے شوکاز نوٹس دیں کیونکہ انکوشک ہے کہ یہ ویڈیو اسٹنٹ کمشنر نے وائرل کرائی ہے۔ نوٹس میں بونڈے قسم کے الزامات لگائے گئے ہیں اب نوٹس دینے والے نااہل نظام سے سوال ہے کہ پہلے اس خاتون آفیسر کواتنے غیر محفوظ اور خطرناک علاقے جہاں تین سپاہی کے ساتھ اے سی چھاپہ نہیں مار سکتی ہے(نوٹس کے متن کے مطابق)کو پوسٹنگ کیوں دی گئی؟ اگر دی بھی گئی تو پھر یہ تمام ذمہ داریاں کیوں اس کے سر پر ڈال دی گئی ہیں۔ خاتون آفیسر کے اعلی انتظامی آفیسران نے کیااپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائی ہیں؟ نئے بھرتی ہونے والے آفیسرآن کی استعداد کار بڑھانے کے لیے کیاوہ طریقہ کار اپنایا گیا ہے کیا یہاں ماضی کی طرح قوانین پرعمل ہورہاہے کہ جونیئرز اہلکاروں کو پہلے اہم پوسٹنگ نہیں دینی پرموجودہ حکومت عمل پیرا ہے؟ پبلک سروس کمیشن سے صوبائی حکومت کوجو آفیسر حوالے کردیا جاتا ہے وہ جتنا اثر ہوتا ہے اسکواتنی ہی اہم پوسٹ پر لاکر بٹھا دیاجاتا ہے۔بلوچستان کے سار ے انتظامی عہدے دیکھیں تو اس میں تمام جونیئر ترین آفیسران لگائے گئے ہیں۔پوسٹنگ کے پہلے دن سے آفیسر کو یہ بتایاجاتا ہے کہ خود کیلئے بھی کمانا ہے ہمارے لیے بھی کمانا کر لانا ہے شو کاز اگرچہ واضع نہیں ہے چیف سکریڑی اپنے شوکاز میں الزام لگاتے ہیں کہ چھاپہ حکام بالا کو اطلاع کے بغیر مارا تو کیا اب قانون شکن لوگوں پر چھاپے کیلئے اسسٹنٹ کمشنر کو بھی پیشگی اجازت لینی ہوگی؟ بیڈا ایکٹ کہ کس شق میں لکھا ہے کہ چھاپے کیلئے کم از کم ایک درجن لیویز اہلکاردرکار ہونگے؟ اور الزام ہے کہ اپنے ساتھ پندرہ سالہ بھائی کو بھی لے گئی۔جبکہ وہ ساتویں جماعت کا طالب علم ہے اور عمر12 سال ہے جبکہ اے سی غیرشادی شدہ خاتون ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی حفاظت کی خاطر بھائی کو ساتھ گھرمیں رکھا ہوا تھا جبکہ یہاں تو رات کو غیر محرم خواتین کو ساتھ بیٹھا کر اعلی آفیسران خود گاڑی چلا کر پشین ریسٹ ہاوس جاتے ہیں اس سے تو کوئی جواب طلبی نہیں ہوئی ہے۔ واقعے کے ذمہ دارسابق ڈپٹی کمشنرچاغی کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ہے بظاہر تو انکو نواز گیا ہے پہلے ان کو ڈی جی فوڈ بلوچستان لگایا گیا جبکہ عوامی رائے حکومت مخالف اور سوال اُٹھنا شروع ہوئے کہ انکو سزا دی جارہی یا جزا توانکو ایڈیشنل سکریڑی لگا دیا گیا ہے اور خاتون آفیسر کو ملنے والے شوکاز نوٹس کو وائرل کرنے کے کیامقاصد ہیں؟ یہاں پر ایک غیر مقامی آفیسرسابق ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کی کرپشن کا کیس یاد آیا اس کا حکومت نے کیا،کیا؟جس نے کرپشن کی انتہا کردی تھی۔ جس پر سب کچھ انکوائری میں ثابت ہوچکا ہے ہم نہ تو انکا کوئی نوٹس دیکھا نہ ہی جام کی لاٹھی دیکھی؟یعنی یہاں مخصوص ناپسند آفیسران کی ہی تذلیل کرنا مقصد ہے ایک انتہائی اچھے آفیسر ایاز خان مندوخیل کمشنر رخشان کو اس خاتون آفیسر حق میں خط لکھنے کی پاداش میں تبدیل کردیا گیا ہے گویا یہ صوبہ نہیں بلکہ مسافروں کی بستی ہے جس میں قیام کرنے ولا مسافر وقتی طور پرسمجھ رہا ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول میں کامیابی سے ہمکنار ہورہا ہے جبکہ یہ وقتی کامیابیاں جبکہ مستقبل کے مسافر بستی کی تبائیوں کا پش خیمہ ہیں بلوچستان کے حکومتی نظام کا مرددرحقیت خواتین آفیسران کے سامنے شرمند ہ کھڑا ہے
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں