صوبے دفاعی بجٹ میں ہاتھ بٹائیں۔؟؟؟

راحت ملک
قراد داد لاہور جب منظور ہوئی اور اس میں جس نئے ملک کا خاکہ و خدوخال بیان کیے گیے تھے ان کی روشنی میں مجوزہ ملک کوخود مختار ریاستوں کا الحاق یا کنفیڈریشن ہونا تھا۔ مگر بعد کے واقعات نے مملکت کو مرکزیت پسند ریاستی سانچے میں ڈھالا۔ حالانکہ مسلم لیگ اور قائداعظمہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد کی بنیاد کے لیے۔ آزاد بھارت میں تمام وفاقی اکائیوں کی مکمل خود مختاری کے متمنی تھے مگر مقامی و عالمی سیاسی صف بندی و سیاسی حالات کے نتیجے میں ہندوستان تقسیم ہوا۔۔ تو پاکستان کے قیام کے لیے مسلم اکثریتی صوبے ایک ملک بن گئے یاد رہنا چاہیے کہ پاکستان انہی صوبوں کے اتحاد کا مجموعہ ہے مشرفی بنگال کا الگ ہونا ایک المیہ تھا۔۔ جسکی وجوہات میں سب بڑا اور مرکزی عامل ملک کو وفاقیت کے سانچے میں ڈھالنے سے انحراف کی پالیسی یا ہٹ دھرمی تھی۔ قیامِ پاکستان کے 26 سال بعد ملک کا پہلا جو جمہوری وفاقی آئین تشکیل پایا۔ اس میں مخصوص حالات کے تحت صوبائی خودمختاری کو دس سال تک التوا میں رکھنا ان معنوں میں طے پایا تھا کہ صوبے اپنے معاملات مشترکہ فہرست میں رہ کر چلائیں گے یہ اجتماعی سیاسی بصیرت کی ایک عمدہ مثال تھی جو سیاست کے حقیقت پسند روی کی ترجمان بھی تھی۔
مگر دس سال بعد 1983 میں جب مشترکہ فہرست صوبائی فہرست بن جاتی۔ ضیاالحق اس میں حائل ہوگے مارشل لاء نے مستحکم پاکستان کے اس خواب کو بھی روند ڈالا۔ بلاخر 2008 کے بعد منتخب پارلیمنٹ نے 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے وفاق اور صوبوں کے تعلقات میں وفاقیت کی بنیاد رکھی تاکہ کم آبادی والے اور مرکزی حاکمیت کے دائرے سے باہر رہ جانے والے صوبوں میں عوامی و قومی اضطراب کا خاتمہ ہو۔
شومئی قسمت 18ویں ترمیم کو روز اول سے ہی مرکزی حاکمیت کے رسیا و استفاد کرنے والے حلقوں کی مخالفت و ناگواری کا سامنا رہا کہ وہ اپنی تاریخ سے بھی سبق حاصل نہ کرنے کامصمم ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کا ہر سیاسی سوال کو لاٹھی کے ذریعے حل کرنے کا یقین اتنا راسخ ہے کہ اسے بدلنے کی کوئی سبیل کارگر ہورہی ہے نہ انداز فکر وعمل میں اصلاح احوال کے امکانات کی نمو داری۔
اب پھر وہی سوال من و تو۔ مرکزیت و وفاقیت کے درمیان زور و شور سے اٹھایا جا رہا۔ وفاق اب ترمیم کو مجموعی سطح پر ہدف بنانے سے گریز کررہا ہے مگر اس ترمیم کے سب سے اہم ستون۔۔۔این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی کا خواہاں ہوا لیکن یہ جان کر پسپا ہوا کہ 18 ترمیم کے تحت این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا مالی حصہ بڑھایا تو جا سکتا ہے اس میں کٹوتی ممکن نہیں۔۔ چنانچہ دسویں قومی مالیاتی کمیشن میں دو مختلف تجاویز پیش کیے جانے کا امکان ہے میرا موضوع ایک مجوزہ امکان تک محدود ہے۔
وفاقی حکومت سمجھتی ہے کہ رائج مالیاتی کمیشن کے مطابق مالی وسائل کی تقسیم کے بعد اس کے پاس ترقیاتی منصوبوں کے لیے معقول رقم نہیں بچتی زیادہ تر وسائل قرضوں کی ادائیگی اور ملک کی سلامتی کے امور پر صرف ہوجاتے ہیں چنانچہ مرکز چاہتا ہے کہ اب صوبے مالیاتی کمیشن سے اپنے ماحصل میں سے ملکی دفاع کے لیے حصہ ڈالیں۔۔ہاتھ بٹائیں۔۔
بلاشبہ پاکستان کا دفاع اور مضبوط دفاع ہر ایک کی غیر متزلزل امنگ ہے پاکستان کا استحکام ہر صوبے اور عوام کی پختہ آرزو و ارادہ ہے اس لیے اگر ملکی دفاع کو مستحکم بنانے کے صوبے مالی طور پر اپنا حصہ ڈالیں تو اس میں کوئی مذائقہ نہیں۔ البتہ اس تجویز کو سر کے بل نہیں بلکہ پاوں کے بل پر کھڑا کیا جانا چاہیے میرا خیال ہے کہ اس تجویز کو عسکری اداروں میں موجود ملازمین کی متناسب نمائندگی کے اصول کو قبول کرکے قابل عمل بنایا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر۔
قومی مالیاتی کمیشن صوبائی حصے میں کٹوتی یا تبدیلی کے بغیر صوبوں کو جو وسائل منتقل کرے اس کی مجموعی رقم میں سے اس تناسب سے رقم منہا کرلی جائے کہ دفاعی ادارے میں اس صوبے سے تعلق رکھنے والے لوگ ملازمت کرتے ہیں اگر فوج اور اسکے تمام ذیلی اداروں میں کسی صوبے کے افراد کا تناسب دس فیصد ہے تو اس تناسب سے وہ صوبہ دفاعی اخراجات کے لیے وفاق کے قابل تقسیم پول سے ملنے والے وسائل سے دفاعی بجٹ میں حصہ ادا کرنے اس تناسبی حصہ داری کا ایک طویل المدتی فائدہ یہ بھی ہوگا کہ دفاعی ادارے میں صوبوں کی نمائندگی میں موجود عدم توازن رفتہ رفتہ توازن پہ رستہ استوار ہوجائے گا
دفاعی ادارے اور اسکے ذیلی محکموں تجارتی کمپنیوں صنعتی اداروں سمیت مراعات مہیا کرنے والے اداروں میں جس صوبے کے افراد جتنی تعداد میں موجود ہیں اس صوبے کو دفاعی اخراجات میں اسی تناسب دفاع کے لیگ سے اپنا حصہ ڈال کر دفاعی امور کی یکسوئی سے انجام پذیری میں ہاتھ بٹانا چاہیے تو ثانوی طور یہ نقطہ بھی طے کر دیا جائے کہ اس تجویز پر آمادگی کے بعد کس آفت ہنگامہ آرائی یا بد امنی پر قابو پانے کے لیے کوئی صوبہ آئین کے تحت فوج یا اس کے کسی ذیلی یونٹ کو مدد کے لیے طلب کرنے گا تو اسے مذکورہ امداد وتعاون کے لیے اسے کسی محکمے کو اضافی اخراجات یا ادائیگیاں نہیں کرنا پڑیں گی۔ اضافی تنخواہ یا دوسری مدات کے مختلف اخراجات کی ادائیگی سے استثنیٰ حاصل ہوگا۔
متذکرہ بالا تجویز اس پس منظرمیں پیش کی گئی ہے ہے جس طرز کا وفاقی نظم اس وقت ملک میں رائج ہے وفاق تمام مالی وسائل پہلے جمع کرتا ہے پھر آبادی کی بنیاد پر صوبوں میں تقسیم کرتا ہے کوئی صوبہ کتنی دولت و وسائل پیدا کرتا ہے اسے در خود اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔۔۔
حالانکہ وفاقی نظام حکومت کی اصولی ساخت اس سے بہت مختلف ہے۔
وفاق کے پاس دنیا کی بیشتر وفاقی ریاستوں میں کم از کم محکمے اور ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔
وفاقی اصول کے تحت مرکز کے پاس صرف دفاع خارجہ امور،کرنسی، خزانہ و مواصلات کے محکمے ہوتے ہیں۔ اور ہر طرح کے ٹیکس کی وصولیاں صوبوں کی ذمہ داری ہوتی ہے جو اس کی مجموعی آمدن کہلاتی ہے اور عدم مرکزیت کے تدارک کے لیے ایسے تمام اختیارات مقامی و ضلعی بلدیاتی اداروں کے پاس ہوتے ہیں یا ہونے چاہیں۔اصولاً مقامی یا بلدیاتی ادراہ اپنی حدود میں ہر طرح کی پیداواری تجارتی سرگرمی اور سروسز پر ٹیکسز عائد کرنے جمع شدہ محاصل کا ایک حصہ (جس کا تعین دستوری سطح پر کیا جا چکا ہو) مثلاً 40: 60 کی شرح یا جس تناسب پر اتفاق رائے ہو جائے تو مقامی حکومتیں اس فارمولے پر عمل کریں۔ اور طے شدہ حصہ خود استعمال کرکے اپنی جغرافیائی حدود میں عوامی بہبود کے ترقیاتی کام کریں۔ تعلیم صحت عامہ جنگلات زراعت وغیرہ تمام امور انجام دیں اور صوبے کا مختص شدہ حصہ صوبائی حکومت کو ادا کر دیں جو پالیسی سازی قانون سازی اور حکومتی نگرانی کے مختصر امور کی انجام دہی کرے اسی طرح صوبہ ور وفاق میں بھی دسائل کی ترسیل( نیچے سے اوپر) شیڈول کے مطابق مرکز کو مہیا کرے تو ایک حقیقی وفاقیت جنم لیتی ہے۔ جو قراد داد پاکستان کا مرکزی محور و مقصد ہے
اس طور پر مرکز کو اپنے زیر انتظام معاملات چلانے میں سہولت ہوگی۔ صوبوں کی جانب سے امتیازی رویوں کی شکایات کا خاتمہ ہوگا تو پاکستان مستحکم و مضبوط ہوگا ملکی دفاع اور ملک کے اندر سیاسی تنازعات سے موثر طور نبرد آزمائی ممکن ہو گی۔دسواں قومی مالیاتی کمیشن جس کی ساخت پر بھی سوالات اٹھ چکے ہیں اگر درست طور و سمت میں فیصلے کرے گا تو ملک میں سیاسی استحکام آے گا معاشی سرگرمیوں کو پر امید یقینی بنیاد میسر آئے گی۔ اس کے برعکس۔ نتائج بہت ہی منفی ہونگے امید کرنی چاہیے کہ حکومت اجتماعی سیاسی بصیرت بروئے کار لائے گی اور وزیر خزانہ ہی کمیشن کے اجلاسوں کی صدارت فرمائیں گے
کسی مشیر کو صدارت سونپ کر بحران پیدا کرنے سے گریز کیا جائے یہ وزیراعظم کی سیاسی بصیرت کا زبردست امتحانی مرحلہ ہے۔
پس نوشت۔
ملکی دفاع کی عمومی مالی سطح کا تعین کیا جائے جس میں اضافہ جی ڈی پی میں سالانہ شرح نمو کے ساتھ مربوط کر دیا جائے

اپنا تبصرہ بھیجیں