مسنگ پرسنز ایک ناقابل فراموش انسانی المیہ

تحریر:انور ساجدی
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا جارہا ہے کانفرنس کےلئے یہ دن اس لئے چنا گیا ہے کہ 10 دسمبر انسانی حقوق کا عالمی دن ہے۔مسنگ پرسنز کا معاملہ ایسا ہے کہ اس پر بولنے کےلئے موذوں الفاظ نہیں ملتے البتہ یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک ریاست اپنے نصف حصہ کے لوگوں کے ساتھ اس طرح کا امتیازی سلوک کیوں برت رہی ہے اور وہ ماورائے آئین و قانون اقدامات کیوں اٹھا رہی ہے ایک سادہ سے مطالبہ ہے کہ جن لوگوں نے قانون توڑا ہے یا ریاست کے خلاف کوئی جرم کیا ہے تو انہیں گرفتار کرکے عدالتوں میں پیش کیا جائے لیکن افسوس کہ بہت کم ایسے لوگ ہیں جنہیں قانون کے مطابق عدالتوں میں پیش کیا گیا ہے۔
جبری گمشدگیوں کی وجہ سے یہ مسئلہ ایک عالمی مسئلہ بن گیا ہے دنیا کے طول و عرض میں اس کے بارے میں نہ صرف بات ہورہی ہے بلکہ کئی ممالک میں مظاہرے بھی ہورہے ہیں عالمی انسانی حقوق کے اداروں میں بھی وقتاً فوقتاً یہ معاملہ پیش ہوتا رہتا ہے مقام افسوس ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے پاکستان کا شمار ان چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیںاگر حکمران کچھ سوچتے تو انہیں پتہ چلتا کہ وہ ریاست کی کوئی خدمت نہیں کررہے ہیں بلکہ ساری دنیا میں ان کی نیک نامی پر حرف آرہا ہے کیا یہ اچھا ہے کہ پاکستان کو اسرائیل ،برما اور بھارت کے ساتھ شمار کیا جائے جہاں فلسطینیوں پر مظالم ہوتے ہیں یا برما کے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کردی گئی ہے یا بھارتی زیر قبضہ کشمیر میں ظلم و جبر کے خلاف قانون ضابطے وضع کئے گئے ہیں۔
مسنگ پرسنز کا مسئلہ ایک ایسا انسانی المیہ ہے جس نے بلوچستان کے طول و عرض کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے کوئی شہر کوئی قصبہ کوئی گاﺅں اور آبادی ایسی نہیں ہے کہ جہاں سے کوئی نوجوان کوئی بزرگ یا بچے مسنگ نہ ہوں یعنی گھر گھر متاثر ہے ہر خاندان سوگ میں ہے اور جگہ جگہ ماتم کی فضا ہے۔
یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ حکمران اپنے ہی شہریوں بچوں اور بزرگوں کو ظلم و زیادتی کا نشانہ بنارہے ہیں اس سے بلوچستان کے سماج پر کوئی مثبت اثرات مرتب نہیں ہورہے ہیں بلکہ زیادہ شدت کے ساتھ باغیانہ اور ریاست گریز رجحانات جنم لے رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود ملک کی مختلف حکومتیں بلوچستان میں امن قائم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
اگرچہ بلوچستان کا مسئلہ 1948ءسے چلا آرہا ہے لیکن 74 سالوں کے دوران ریاست کے بیشتر حکمرانوں نے اسے طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی اور ناکام رہے۔
مارچ 1948ءایوب خان کے مارشل لاء1958ءبھٹو کے سویلین مارشل لاء1973ءاور جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے دوران جو 2008ءمیں ختم ہوئی ظلم کے تمام ضابطے آزمائے گئے ایوب خان دور کی پھانسیوں بھٹو دور کے قتل عام اور مشرف کے دور میں نواب اکبر خان کی شہادت سے لیکر ابتک ایک طویل سلسلہ ہے جو رکنے کا نام نہیں لیتا جنرل پرویز مشرف نے نواب اکبر خان کی آئینی تحریک جو ساحل و وسائل کی واگزاری کےلئے تھی کچلنے کا فیصلہ کیا اور بزرگ رہنما کو شہادت کے درجہ پر فائز کرکے ہی دم لیا لیکن اس سانحہ نے ایک ایسی مسلح تحریک کو جنم دیا جو 17 سال سے جاری ہے بدقسمتی سے جنرل پرویز مشرف نے بدترین غیر آئینی کارروائیوں کا آغاز کرتے ہوئے جبری گمشدگیوں کی بنیاد رکھی اگرچہ اس کا ہدف زیادہ تر بلوچ تھے لیکن انہوں نے نائن الیون کے بعد افغانستان میں جنگ کے دوران بڑے پیمانے پر لوگوں کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کردیا اس بہیمانہ عمل کا اعتراف انہوں نے اپنی خود نوشت کتاب میں بھی کیا ہے ریاست کی امتیازی پالیسی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ پرویز مشرف نواب اکبر خان اور سینکڑوں لوگوں کے قتل کے ذمہ دار تھے مقدمات قائم ہونے کے باوجود وہ ایک دن بھی کسی عدالت میں پیش نہ ہوئے کیونکہ خاص شہری کی حیثیت سے انہیں تحفظ حاصل تھا پاکستان میں کتنے لوگ ہیں جو تاریک راہوں میں بلاوجہ مارے جارہے ہیں لیکن پرویز مشرف کو معزز جج وقار سیٹھ کی عدالت نے زیادہ سے زیادہ سزا سنائی لیکن اس سزا کو غیر سنجیدہ لیکر درخوررعتنا نہیں سمجھا گیا حالانکہ اسی ریاست میں جنرل ضیاﺅ الحق کے دور میں منتخب وزیراعظم کو تختہ دار پر لٹکانے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی گئی نواب اکبر خان بگٹی کے قتل میں وقت کے جو بھی حکمران شریک تھے کسی سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں آفتاب شیرپاﺅ اویس غنی سمیت بیشتر ذمہ داران پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے نزدیک اکبر خان واجہ غلام محمد لالہ منیر شیر محمد اور دیگر زعما عام لوگ تھے اس لئے ان کا مارا جانا ضروری تھا لیکن بلوچستان کےلئے یہ عام لوگ نہیں تھے وہ یہاں کے سیاسی رہبر اور قومی تحریک کے سرخیل تھے اسی لئے ان سے جو سلوک ہوا وہ اہل بلوچستان شاید ہی بھول سکیں۔
حکمران بلوچستان اس کی حساسیت اور لوگوں کی نفسیات سے واقف نہیں ہیں وہ کبھی بلوچستان کے مسئلہ کو ا انسرجنسی اور بغاوت سے تعبیر کرتے ہیں کبھی اسے ریاست کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں اور کبھی کبھی اسے لاءاینڈ آرڈر کا مسئلہ گردانتے ہیں بعض گماشتہ سیاستدان اس مسئلہ کو سیاسی قرار دے کر اس کے سیاسی حل پر زور دیتے ہیں لیکن یہ تمام توجیہات اور مرض کی تشخیص غلط ہے بلوچستان کا مسئلہ سیاسی نہیںایک قومی مسئلہ ہے جس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ بلوچستان کو کالونی سمجھ کر اس پر قبضہ کی کوشش نہ کی جائے اور اس کے وسائل کو مال غنیمت یا تاوان جنگ سمجھ کر ہڑپ نہ کیا جائے اگر ریاستی حکمرانوں کے نزدیک بلوچستان ایک صوبہ ہے اور اس کی زمین اور وسائل پر مرکز کا حق ہے تو یہ سوچ غلط ہے بلوچستان اپنے لاکھوں باسیوں کےلئے ان کا مادر وطن اور گلزمین ہے وہ اسے صرف زمین نہیں سمجھتے وہ برابری اور عزت و احترام کا رتبہ چاہتے ہیں اور کسی طور پر بھی غلامی کی زندگی گزارنے پرتیار نہیں ہیں ریاست کا مسلسل رویہ یہ دکھائی دیتا ہے کہ وہ بلوچستان کو 18 ویں صدی کا مفتوحہ علاقہ سمجھتے ہیں اور یہاں کے لوگوں کو حقیر جان کر طاقت کے زور پر انہیں رعیت بناکر رکھنا چاہتے ہیں اس امپیریل دور کی سوچ کی وجہ سے یہ مسئلہ حل نہیں ہورہا ہے طرح طرح کے حربے آزمائے جارہے ہیں آبادی کے توازن کو بگاڑنے کےلئے ڈیموگرافک تبدیلی کے کئی منصوبے تیار ہیں کیا رویہ ہے کہ بلوچستان کی آبادی کو اقلیت میں بدلنے کےلئے حکمرانوں کو افغانی تورانی خرسانی اور غیر ممالک کے شہر ی تو قبول ہیں لیکن بلوچستان جن کی سرزمین ہے مادر وطن ہے وہ اسے اس کے اصل مالکوں کے حوالے کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں حکمران ایسے منصوبوںکی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ لوگ باہم دست بگریان ہوجائیں مثال کے طور پر ایک کہنہ مشق اور آزمودہ سیاسی اکابر نے حال ہی میں دھمکی دی کہ وہ بلوچستان کو کیک کی طرح کاٹ دیں گے اس کا مقصد عوام میں اشتعال پیدا کرنا ہے ایسے نقشوں کی تشہیر جن میں بلوچستان کو سارے کا سارا گریٹر افغانستان کا حصہ ظاہر کرنا چہ معنی دارد حکمران بلوچ دشمنی میں اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ انہیں ہمسایہ ممالک سے ایسی جسارت پر احتجاج کرنے کی توفیق بھی نہیں حالانکہ اگر بلوچستان نہ رہا تو یہ مملکت خداداد کہاں ہوگی۔
مقام افسوس ہے کہ بلوچستان کی ساری آبادی کو غدار اور باغی تصور کیا جارہا ہے حتیٰ کہ جبری گمشدگیوں کے مسئلہ پر عدالت عظمیٰ سے لیکر متعددکمیشنوں کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی جارہی ہے اگر کسی ریاست کے ایک اکائی کے باشندوں کی اعلیٰ عدالتوں اور اعلیٰ حکمرانوں تک شنوائی نہ ہو تو انہیں اپنی کم مائیگی اور کمتری کا شدید احساس نہ ہوگا تو اور کیا ہوگا مسنگ پرسنز کے لواحقین نے گزشتہ دو عشروں میں جہاں بے شمار مصائب سہے ہیں وہاں انہوں نے اپنے پیاروں کی بازیابی کےلئے ایک ناقابل فراموش اور بے نظیر جدوجہد بھی کی ہے ہزاروں کلو میٹر پیدل مارچ مسلسل کیمپوں میں خوار و زار ہونا غرض کہ انہوں نے کوئی ایسا در نہیں چھوڑا جہاں انصاف مل سکتا تھا لیکن یہ انصاف ہنوز عنقا ہے اور مسنگ پرسنز کے وہ بچے جو ان کی گمشدگی کے وقت شیر خوار تھے آج بڑے ہوکر مسلسل جدوجہد کررہے ہیں کئی مائیں رو رو کر اس دنیا سے رخصت ہوگئیں اور سینکڑوں نوجوان سہاگنیں انتظار کر کرکے مرجھا گئی ہیں اور انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ بیوہ ہیں یا ان کے سرتاج حیات ہیں اور تاریک اور شوریدہ سر زندانوںمیں اپنی زندگی کے آخری دن گن رہے ہیں کسی کا عزیز اگر غائب ہوجائے تو وہ موت سے بدتر اذیت ہے اور اس اذیت کو وہی لوگ محسوس کرسکتے ہیں جو لمحہ لمحہ مرکر دوبارہ زندہ ہوتے ہیں۔
وقت آگیا ہے کہ ریاست اپنا رویہ تبدیل کردے اور اظہار خیرسگالی کے طور پر تمام مسنگ پرسنز کو ان کے گھروں کو لوٹا دے اس سے حکمرانوں کےلئے بھی آسانیاں پیدا ہوجائیں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں