گوہرنایاب
تحریر: انور ساجدی
کافی عرصہ پہلے میں نے ”ریکوڈک“ کو خداحافظ کہہ دیا تھا اس وقت سونے کے عالمی ڈاکو بیرک گولڈ سے بات چیت مکمل ہوگئی تھی ڈیل کی تفصیلات منظرعام پر نہیں آئی تھیں، خیر تفصیلات تو اب بھی پوشیدہ ہیں صرف یہ مژدہ سنایا گیا ہے کہ پاکستان پر عائد جرمانہ معاف کردیا گیا ہے۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ جرمانے کی اصل مالیت کیا ہے؟ کبھی10 ارب ڈالر اور کبھی کچھ بتایا جاتا ہے، تاریخ کے اس نوکھے سودے کے بعد یہ مسئلہ وفاق سپریم کورٹ لیکر گیا اور توقع کے عین مطابق سب سے بڑی عدالت نے ڈیل کو قانونی قراردیدیا حالانکہ زرداری کے دور حکومت میں سپریم کورٹ نے ہی افتخار محمد چوہدری کی قیادت میں ریکوڈک کی لیز کینسل کردی تھی جس کی وجہ سے اتنا ہنگامہ کھڑا ہوا متاثرہ کمپنی ثالثی کی عالمی عدالت گئی جہاں پاکستان صحیح طور پر کیس لڑ نہیں سکا یا بوجوہ کمزور طور پر لڑا جس کی وجہ سے وہ کیس ہار گیا۔
کئی حکومتیں گزرجانے کے بعد عمران خان اور قمر جاوید باجوہ نے ازسرنو مذاکرات شروع کئے اور آﺅٹ آف کورٹ ڈیل کی جس کی تفصیلات کوخفیہ رکھا گیا۔ ہوسکتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ڈیل کے سربستہ راز اور خفیہ مندرجات طشت ازبام ہوجائیں، لیکن اس میں وقت لگے گا سردست تو اس بات کو بڑی کامیابی سمجھا جارہا ہے کہ کھربوں مالیت کے ذخائر کے بدلے جرمانے کی ادائیگی معاف ہوگئی ہے۔ یہ بھی سنا ہے کہ سونے اور تانبے کے علاوہ جو دیگر معدنیات اس علاقے میں پائی جاتی ہیں، ان کے حقوق بھی سخاوت کے طور پر بیرک گولڈ کو بخش دیئے گئے ہیں یہ معلوم نہیں کہ ریکوڈک کے ”ڈاکے“ پربلوچستان اسمبلی میں کوئی تفصیلی بحث ہوئی ہے یا نہیں اور اس کے جزئیات اور ماحولیات کے حوالے سے کوئی سوالات کئے گئے ہیں کہ نہیں کیونکہ بلوچستان کے عوام کے بے شمار تحفظات ہیں مثال کے طور پر جو پلانٹ ہے وہ سائٹ پر لگے گا یا کمپنی وہاں سے صرف خام مال نکال پر مطلوبہ ملک لے جائے گی اگر یہ خدشہ درست ہے تو سال کا حساب کتاب کون رکھے گا۔
ابتدائی زمانے میں یہ کہا گیا تھا کہ ایک بڑی پائپ لائن گوادر تک بچھائی جائیگی جو تقریبا 780 کلو میٹر دور ہے اس پائپ کے ذریعے خام مال کوپریشر پمپوں کے ذریعے پورٹ پر کھڑے بحری جہازوں پر لوڈ کیاجائیگا اور قیمتی مال دور دیس لے جایاجائیگا۔ شبہ یہی ہے کہ نئے معاہدہ میں بھی یہ سہولت موجودہے، یعنی پروسسنگ پلانٹ سائٹ پر قائم نہیں کیاجائیگا۔ اگرچہ حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ ماحولیاتی تحفظ کے سلسلے میں ٹھوس ضمانتیں حاصل کرلی گئی ہیں۔ لیکن لگتا یہی ہے کہ حکومت نے سچ نہیں بولا کیونکہ احداثی کے دورن پورے علاقہ میں ماحولیاتی تباہی آنا لازمی ہے۔ نہ صرف یہ، بلکہ اس علاقے میں ایسے زرات پائے جاتے ہیں جنہیں چھیڑنے کی وجہ سے انسانی زندگیوں اور دیگر حیات کو خطرات لاحق ہوجائیںگے۔
مئی1998ء کو رامسکوہ کے پہاڑی سلسلے میں جو ایٹمی دھماکے کئے گئے تھے، اس کے ما بعد اثرات ابھی تک موجود ہیں جب کہ تانبے اور سونے کے ذخائر کو بروئے کار لانے کے بعد مزید تباہی آئیگی۔ کوئی کہے تو کیا کہے، ایٹمی دھماکوں کے بعد متاثرہ علاقے میں ایک جدید اسپتال ک قائم نہیں کیا گیا، تاکہ متاثرین کا علاج ومعالجہ ہوسکے۔ ایٹمی دھماکوں سے پہلے سیندک میں بھی سونے اور تانبے کے ذخائر چینی کمپنی کو بخش دیئے گئے تھے، جس کا آج تک بلوچستان کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ البتہ رپورٹ کے مطابق ذخائر کے ساتھ ایک اور گوہر نایاب بھی دریافت ہوا، جو صادق سنجرانی صاحب ہیں سیندک کا واحد فائدہ اس خاندان کو ہوا جب نوجوان اورفعال صحافی اکبر نوتیزئی نے اس بارے میں ایک رپورٹ سوشل میڈیا پر جاری کردی تو صادق سنجرانی صاحب برا مان گئے اور انہیں قانونی نوٹس بھیجا شائد مقدمہ کی نوبت نہ آئے کیونکہ بے چارہ صحافی اکبر نوتیزئی کو کیا ملنا تھا جو کچھ ملا وہ سنجرابی صاحب کے خاندان کو ملا۔ نہ صرف یہ بلکہ اس گوہر نایاب کو ریت کے صحرا سے نکال کو پھوٹوہار کے مرغذار میں لے جایا گیا اور پاکستان کے تیسرے بڑے منصب پر فائز کردیا۔ حالانکہ سینیٹ کے چیئرمین سے پہلے انہیں کوئی نہیں جانتا تھا۔ انہوں نے بظاہر اور درون خانہ جو وفاداریاں دکھائی گئی ہونگی چیئرمین کا عہدہ ان کا صلہ ہے۔ انہوں نے اپنی سرزمین اس کے بے بس اور لاچار عوام کے مفادات اور قومی وسائل کی لوٹ مار میں جو معاونت کی اس کا معاوضہ تو بنتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس گوہر نایاب کو راتوں رات منظر عام پر لایا گیا اور ایک دوسرے کا منہ نہ دیکھنے کے روادار زرداری اور عمران خان کو ایک پیج پر لاکر موصوف کو چیئرمین بنوایا گیا۔ وہ عزیز تھے کہ جب ان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی اتنے تو مسلم لیگ کے8اور پیپلزپارٹی کے 6سینیٹر نے اپنی جماعتوں سے بغاوت کا ارتکاب کیا اس طرح مسٹر سنجرانی ایک بار پھر ”فیضیاب“ ہوگئے۔ انگریزوں نے ڈیوانڈر لائن بناتے وقت ولایت نیمروز کو امپیریل جبر کے تحت افغانستان کا حصہ بنایا تھا اور سنجرانی غیرروایتی سرداری کو اس علاقہ سے محروم بنایا تھا۔ حکومت پاکستان نے اس کا معاوضہ صادق سنجرانی کو ادا کردیا۔ معلوم نہیں کہ چاغی کی ظالمانہ تقسیم کے وقت صادق سنجرانی کے خاندان کا کوئی رول تھا کہ نہیں، اگر میرہاشم خان سنجرانی زندہ ہوتے تو یہ تاریخ ضرور بتاتے، لیکن نئی نسل میں ایسے لوگ موجود نہیں جنہیں اپنی تاریخ سے آگاہی ہو۔
چاغی کی معدنیات کی جو لوٹ مار کئی عشروں سے جاری ہے، اس میں کئی عالمی ایکڑز بھی شامل ہیں اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی اپنے ہاتھ خوب رنگ رہے ہیں۔ ان لوگوں کو ضرور مقامی سرپرستی اور معاونت حاصل ہے ورنہ یہاں سے تابنا ،لوہا ،اونسکس اورچاندی کے معدنیات کی لیز حاصل کرنا آسان کام نہیں۔ چاغی کا قصور یہ ہے کہ اس کی سرحدیں دو ممالک افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں ،جس کی وجہ سے ایک طرف یہ ”نارکو ٹریڈ“ کا انٹرنیشنل روٹ ہے تو دوسری جانب یہ طرح طرح کی معدنیات سے بھرا پڑا ہے۔ بے شک یہاں کی آبادی پینے کے پانی سے محروم ہو اور انکے علاج کیلئے اسپرین کی گولی موجود نہ ہو لیکن یہ دوسروں کیلئے سونے کی چڑیا ہے۔ اس علاقہ پر کئی ممالک کی بری نظر ہے خاص طور پر افغانستان للچائی ہوئی نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ ایک دفعہ یہاں سے انتہائی جھرلو انتخابات میں پشتونخوامیپ نے بھی کامیابی حاصل کی تھی، خود افغانستان کا یہ عالم ہے کہ ملا عمر کی قیادت میں جب طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا تھا تو انہوں نے نیمروز کے بلوچ زمینداروں کی تمام زرخیز زمینیں ضبط کی تھیں۔ نیمروز واحد علاقہ ہے جہاں ڈیم ہے بجلی کی پیداوار ہے اورنہروں کے ذریعے زمینیں سیراب ہوتی ہیں۔ یہاں پر گورگیج اور سنجرانی بڑے زمیندار تھے ۔ شائد ان کی حیثیت اب معدوم ہوگئی ہے چاغی میں گرین اونسکس کے جو ذخائر ہیں وہ دنیا کے طول وعرض میں سرمایہ داروں کے محلات کو چار چاند لگارہے ہیں۔ لیکن یہاں کے لوگوں کا جو حال ہے جو غربت ہے جو بیماری اور لاچاری ہے وہ بیان سے باہر ہے گزشتہ چند سالوں کے دوران بھی ایک ہی خاندان کا بھلا ہوا ہے، باقی سب کی خیر ہے۔
جہاں تک ریکوڈک کے سودے کا تعلق ہے تو بلوچستان حکومت نے شروع ہی میں آنکھیں بند کرکے اس پر انگوٹھا شبت کردیا تھا۔ تاہم بعدازاں یہ قانونی تقاضہ آیا کہ بلوچستان اسمبلی بھی آنکھیں بند کرکے اس کے حق میں انگوٹھا لگائے۔ چنانچہ حال ہی میں بلوچستان اسمبلی نے بھی بلوچستان کے قانونی حقوق مرکز کے سپرد کردیئے یہ خود سپردگی رضاکارانہ تھی اور ایسے وقت میں ہوئی جب بلوچستان کے تمام قوم پرست بھی اسمبلی کا حصہ ہیں چند ماہ قبل میراسداللہ بلوچ نے شور مچایا تھا لیکن ان کی آواز صدا الصحرا ثابت ہوئی تھی یہ جو ایکٹ اب کیا گیا ہے، یہ کوئی عام واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک تاریخی عمل ہے تاریخ میں لکھا جائیگا کہ ایک قانون ساز اسمبلی نے کس طرح دباﺅ میں آکر اپنے وسائل کو مرکز کے حوالے کیا۔ یہ بھی یاد رکھاجائیگا کہ بلوچستان اسمبلی نے اس عمل کے ذریعے اپنی دقعت کھودی اور یہ سوال بھی اٹھے گا کہ بلوچستان اسمبلی کے موجودہ اراکین کس طرح اپنے صوبے کے مفادات کا تحفظ کریںگے اور عوام کے حقوق اور اپنے وسائل کیلئے لڑیںگے۔ ریکوڈک اور سیندک تو ایک واقعہ ہے جب بلوچستان کے سب سے بڑے وسیلہ ساحل کو وفاق کے حوالے کیا گیا تھا تو باقی چیزیں کیا معنیٰ رکھتی ہیں۔ بلوچستان کے ساتھ روا رکھے جانے والا یہ پہلا ظلم نہیں ہے۔ 1960ءکی دہائی میں ایوب خان نے چاغی کا پانچ ہزار مربع میل کا علاقہ ایران کو تحفے میں دیا تھا، لیکن آج تک کسی نے کچھ نہ کہا مستقبل میں بھی اسی طرح کی مجرمانہ خاموشی اختیار کی جائیگی اور ہر فیصلے پر آنکھیں بند کرکے انگوٹھا لگانے کا سلسلہ جاری رہے گا، تاوقتیکہ یہ بیش بہا وسائل اس کے حقیقی وارثوں کے ہاتھ نہ آجائیں۔