”سافٹ کو“
تحریر:انور ساجدی
ریکوڈک کے حقوق عالمی کمپنی کو منتقل کرنا ایک ”ساوارن گارنٹی“ ہے جو خفیہ مذاکرات کے نتیجے میں مملکت پاکستان نے متعلقہ کمپنی کو دی۔ اسے روبہ عمل لانے کےلئے ایک ”سافٹ کو“ وقوع پذیر ہوا جس کے نتیجے میں وفاق نے 18 ویں ترمیم کو بلڈوز کرتے ہوئے صوبائی اختیارات اپنی تحویل میں لے لئے، مسئلہ اتنا حساس تھا کہ بلوچستان اسمبلی کے علاوہ سندھ اسمبلی کو بھی قرار داد منظور کرنا پڑی۔ سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی کثرت رائے سے معاہدہ کے حق میں انگوٹھا ثبت کردیا، جبکہ سپریم کورٹ پہلے ہی معاہدہ کو قانونی قرار دے چکی ہے۔
یہ جو ”آئینی سافٹ کو“ ہوا اس نے عملاً ملک کو وحدانی طرز حکومت میں تبدیل کردیا ہے، اس کے بعد وفاقی اکائیوں اور صوبائی اسمبلیوں کی حیثیت ثانوی ہوگئی ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ ایوب خان کے دور میں ڈویژنل کونسلوں کی جو حیثیت تھی اس وقت صوبائی اسمبلیوں کی وہی حیثیت رہ گئی ہے۔
ریکوڈک کا مسئلہ جب بلوچستان اسمبلی میں پیش ہوا تو صوبائی اپوزیشن اس کےلئے تیار نہ تھی، جبکہ ایجنڈے کو بھی خفیہ رکھا گیا تھا ۔اس طرح اچانک حملہ کے نتیجے میں صوبائی حکومت نے یہ قرار داد منظور کروائی ۔یہ جو اپوزیشن کا احتجاجی ردعمل یا واویلا ہے یہ بعداز مرگ واویلا ہے ،جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ البتہ سردار اختر مینگل کےلئے ایک بڑی آزمائش شروع ہوگئی ہے ۔اگر وہ عملی طور پر کچھ نہیں کرتے اور زبانی کلامی احتجاج پر اکتفا کرتے ہیں، توبلوچستان کے حقوق کے علمبردار ہونے کا دعویٰ باطل ہوجاتا ہے۔ اگر وہ عملی قدم اٹھاتے ہیں تو انہیں وفاقی اور صوبائی حکومت سے علیحدگی اختیار کرنا پڑے گی۔ جس کے نتیجے میں دونوں حکومتوں کو سخت دھچکہ لگے گا ۔ہوسکتا ہے کہ یہ حکومتیں برخاست ہوجائیں کیونکہ دونوں جگہ معمولی اکثریت ہے۔ خاص طور پر اگر زور لگایا جائے تو صوبائی حکومت ریت کی دیوار ثابت ہوسکتی ہے۔ وفاق میں چونکہ اپوزیشن ایوان سے باہر ہے اس لئے وہاں کا معاملہ مختلف ہے۔ اگر عمران خان ایک غلط اور غیر سیاسی فیصلہ نہ کرتے تو شہباز حکومت دھڑام سے گرسکتی تھی لیکن عمران خان اپنی معزولی کے بعد سے مسلسل غیر سیاسی فیصلے کررہے ہیں۔ جس سے بالآخر ان کی سیاست اور عوامی مقبولیت کو نقصان پہنچے گا۔
ریکوڈک کی خفیہ ڈیل ایک سربستہ راز ہے اس کی کیا تفصیلات ہیں آج تک بلوچستان اسمبلی اور وفاقی پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ 12 دسمبر کو جب اختر مینگل نے شدید احتجاج کیا تو حکومت نے ایک کمیٹی بنائی اور یقین دہانی کروائی کہ ریکورڈک کی قرار داد میں ضروری ترامیم کی جائیں گی۔ لیکن اس یقین دہانی کے باوجود بل کو قومی اسمبلی سے منظور کروایا گیا ۔حالانکہ اختر مینگل نے اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس بلایا تھا جس نے ریکوڈک بل پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اجلاس میں جے یو آئی ایف اور اے این پی نے بھی شرکت کی تھی۔قومی اسمبلی سے بل کی منظوری کے بعد اختر مینگل نے صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر ان کی بات نہ سنی گئی تو وہ حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کرسکتے ہیں انہوں نے کہا کہ کونسی حکومت ہے جس نے بلوچستان کی بہتی گنگا سے ہاتھ نہ دھوئے ہوں۔ ایک بات طے ہے کہ وفاق نے جس طرح بلوچستان کے وسائل پر قبضہ کیا ہے اس کے خلاف احتجاج یا کوئی سخت ردعمل دکھانے میں اختر مینگل اکیلے رہ جائیں گے۔ جہاں تک جے یو آئی کا تعلق ہے وہ زبانی حد تک ضرور اختر مینگل کا ساتھ دیں گے۔ لیکن وہ انتہائی قدم اٹھانے میں ساتھ نہیں دے گی کیونکہ جے یو آئی ایف اس وقت وفاقی حکومت کی اہم حصہ ہے او روہ طویل عرصہ کے بعد اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے، لہٰذا وہ آسانی کے ساتھ اپنی حکومت گرانے کا رسک نہیں لے گی۔ البتہ اگر جمعیت کو پکا یقین ہو کہ صوبائی وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں وزارت اعلیٰ اسے ملے گی تو وہ کوئی بھی قدم اٹھانے کو تیار ہوگی۔ اگر اختر مینگل ساتھ دینے کےلئے تیار ہوجائیں تو عدم اعتماد کی تحریک لانے کی کوشش کامیاب ہوسکتی ہے۔
18 ویں ترمیم کیا ہے؟ یہ صوبائی خود مختاری کی وہ کامل آئینی دستاویز ہے جو زرداری نے اپنے دور میں اتفاق رائے سے منظور کروایا تھا۔ اس ترمیم کی منظوری کے بعد اسلام آباد اور راولپنڈی کے اصل حکمرانوں کو پتہ چلا کہ زرداری نے ان کے ساتھ ہاتھ کیا ہے اورشبخون مار کر پاکستان کو ایک فیڈریشن بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اس ترمیم کی منظوری کے بعد زرداری نے ایک دن بھی سکون سے حکومت نہیں کی،انہیں طرح طرح سے تنگ کیا گیا۔ حتیٰ کہ انہیں غدار قرار دے کر گرفتار کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔
ترمیم کے نفاذ کے بعد آئین کی دفعہ 58 ٹو بی ختم ہوگئی، جس کے تحت صدر کو حکومتوں کی برطرفی اور اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد وفاق تو اپنی جگہ کسی صوبے میں گورنر راج بھی نہیں لگ سکتا، نہ صرف یہ بلکہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت ملکی وسائل کا زیادہ حصہ صوبوں کےلئے مختص رکھا گیا جس کی وجہ سے اسلام آباد میں کہا جانے لگا کہ زرداری نے سازش کے تحت وفاق کو کمزور کیا ہے۔ اس قانون کے ذریعے مضبوط مرکز کا جو پرانا اور فسطائی نظریہ تھا وہ زمین بوس ہوگیا تھا۔
ان فوائد اور افادیت کے باوجود زرداری نے اس معاہدہ کی خاطر جوعمران خان نے غیر ملکی کمپنی سے کی تھی خود اپنے ہاتھوں 18 ویں ترمیم کو بلڈوز کردیا ہے کیونکہ حکومت مجبور ہوگئی تھی۔ اسے بین الاقوامی معاہدوں کا پاس رکھنا تھا جس کے بعد ریاست کی ساکھ باقی نہ رہتی اس مجبوری کی وجہ سے وسائل کے حقوق صوبوں سے وفاق کو منتقلی کا بل سندھ اسمبلی سے بھی منظور کرنا پڑا اگر دیکھا جائے تو یہ زرداری کےلئے ایک ڈس کریڈٹ ہے اور اس کے نتیجے میں رفتہ رفتہ وفاق تمام معدنیات پر حقوق جتائے گی جیسے کہ اس نے بلوچستان کے سونے کے ذخائر اور تھرکے کوئلہ پر جتایا ہے حالانکہ ازروئے آئین یہ معدنیات صوبوں کی ملکیت ہیں اور وفاق کو حق نہیں کہ وہ بزورطاقت ان پر قبضہ کرلے لیکن زرداری نے وفاق کو یہ راستہ دکھا دیا ہے جس کی وجہ سے مستقبل میں صوبوں اور مرکز کے درمیان ایک رسہ کشی کا آغاز ہوگا جس کے نتیجے میں دونوں کمزور ہونگے۔
ایسے وقت میں جبکہ عمران خان نے ریاست کو جامد کردیا ہے اور عملی طور پر ملک ڈیفالٹ ہوچکا ہے۔ اتحادی حکومت کے درمیان اختلافات اور ناچاقی سے حالات مزید خراب ہونگے جس کا سیاسی فائدہ عمران اٹھائے گا تاہم معاشی زبوں حالی سے عمران خان کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا اگر آئندہ انتخابات کے نتیجے میں عمران خان حکومت میں آبھی گئے تو وہ معاشی مسائل کو حل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہونگے ۔سردست تو عمران خان کسی قیمت پر بھی اقتدار میں آنا چاہتے ہیں اس مقصد کےلئے وہ نئے آرمی چیف کو اللہ رسول کا واسطہ دے کر التجا کررہے ہیں کہ جلد انتخابات کروا کر اقتدار ان کے حوالے کیا جائے گویا وہ ایک بار پھر فوج کو سیاست میں مداخلت کی دعوت دے رہے ہیں ایک طرف وہ سویلین بالادستی کی تحریک چلارہے ہیں دوسری طرف وہ گڑگڑا رہے ہیں کہ خدارا انہیں اقتدار میں واپس لایا جائے یہ ایسا تضاد ہے جو عمران خان کے سوا کسی اور لیڈر میں دکھائی نہیں دیتا عمران خان کا احسان ہوگا کہ وہ قوم کو بتائیں کہ ریکوڈک کی خفیہ ڈیل پر اسے کس نے مجبور کیا تھا اگر اس ڈیل میں ان کی کوئی کمزوری موجود نہیں تو انہیں اس کی تفصیلات طشت ازبام کرنا چاہےے۔