دوبارہ وحدانی نظام کیوں؟

تحریر: انور ساجدی
سوشل میڈیا پر ایک افغان شہری پاکستانی حکمرانوں کو برا بھلا کہہ رہا تھا اور تلقین کررہا تھا کہ اپنے کام سے کام رکھو، ہمارے ملک میں مداخلت مت کرو، اپنے قرضوں کا بندبست کرو، موصوف نے وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے لئے ایک ناشائستہ جملہ بھی کہا اس سے پتہ چلتا ہے کہ افغانستان کے لوگ پاکستانیوں کے لئے کس طرح کے جذبات رکھتے ہیں۔ یہ چمن پر پہلے حملہ کے بعد کا واقعہ ہے جبکہ جمعرات پر ایک اور حملہ ہوا ہے جس میں 12شہری زخمی ہوگئے ہیں۔ گویا معاملہ یہاں تک پہنچا ہے کہ افغانستان جیسا کمزور ملک بھی پاکستان کو آنکھیں دکھا رہا ہے اور اسے کوئی پرواہ نہیں کہ اگر پاکستان سے ضروری اشیاءکی فراہمی بند ہوگئی تو کیا ہوگا۔ ان معمولی باتوں میں بہت ہی گہری باتیں پوشےدہ ہیں اور یہ اس بات کی غماز ہے کہ افغانستان کے حوالے سے بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی اور دیگر پالیسیاں شدید ناکامی سے دوچار ہیں۔
جب جنرل ضیاءالحق نے سوویت افواج کی آمد کے بعد 1980 کی دہائی میں افغانستان میں جہاد چھیڑ دیا تھا تو ان کا یہی موقف تھا کہ ہم سوویت افواج کو افغانستان کے اندر جنگ میں مصروف رکھیں گے تاکہ وہ بارڈر کراس کرکے پاکستان کا رخ نہ کریں، یہ بات انہوں نے اس تناظر میں کہی کہ طورخم اور چمن کے اس پار امریکہ موجود تھا جس نے کچھ ہی عرصہ بعد ضیاءالحق کے نام نہاد جہاد کو گود لے لیا ، اس وقت دنیا دو سپر پاورز کے درمیان تقسیم تھی اور ضیاءالحق امریکہ کے لاڈلے بن گئے تھے ۔کوئی شک نہیں کہ افغانستان جہاد کی وجہ سے جو امریکی ڈالروں کی زور پر لڑا گیا تھا۔ بالآخر سوویت یونین نا صرف شکست سے دوچار ہوگیا بلکہ اپنا وجود بھی برقرار نہ رکھ سکا۔ افغانستان کی فتح کے بعد ضیاءالحق اور ان کے ساتھی یہی سمجھ بیٹھے کہ افغانستان ہمیشہ ان کا باجگزار بن گیا ہے اور مغربی سرحد مستقل طور پر محفوط ہوگئی ہے۔ جہاد کے خاتمہ کے بعد امریکہ پاکستان کو یک و تنہا چھوڑ کر چلا گیا اور پاکستان کے حصے میں 50لاکھ مہاجرین ، لاکھوں کلاشنکوف اور ہیروئن کا کاروبار آیا۔
گزشتہ باتیں تو پرانی ہوچکی ہیں اور تاریخ کا حصہ ہیں لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ نائن الیون کے بعد جنرل مشرف نے امریکہ کی جنگ میں حصہ لے کر جو جرم کیا اس کے اثرات کبھی ختم نہیں ہوں گے اور یہ جو دنیا بھر کے جہادیوں اورتخریب کارگروپوں کو فاٹا اور پاکستان میں پناہ دی گئی وہ گلے پڑی ہوئی ہے۔ دو عشرے ہونے کو آگئے ہیں لیکن وزیرستان تخریب کاروں سے پاک نہ ہوسکا ، حالانکہ یہ رقبہ بلوچستان کے ایک ضلع سے بھی چھوٹا ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے جو غلطیاں کیں اس کا خمیازہ طویل عرصہ تک بھگتنا ہوگا۔ مثال کے طور پر جنرل باجوہ کے دور میں ٹی ٹی پی سے جو معاہدہ کیا گیا ،اس کی کیا ضرورت تھی ۔یہ جو ہزاروں جنگجوﺅں کو واپس آنے کی اجازت دی گئی یہ یک طرفہ فیصلہ تھا ۔اس کے بارے میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اس سے قبل ایک علامتی واقعہ کے طور پر جنرل فیض نے کابل جا کر سیرینا ہوٹل میں قہوہ کا پیالہ نوش فرمایا، جس کا مقصد دنیا کو یہ دکھانا تھا کہ افغانستان اور نئی رجیم پاکستان کے کنٹرول میں ہے لیکن یہ کنٹرول جلد ختم ہوگیا ۔ قندھار کی حکومت نے نا صرف ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا بلکہ وزیرستان میں مداخلت بھی شروع کردی، یہ جو قبائلی علاقے ہیں ان کی اپنی تاریخ ہے انگریزوں نے باقاعدہ معاہدہ کے تحت انہیں آزاد علاقہ گردانا تھا جو نہ تو ہندوستان کے کنٹرول میں تھے اور نہ افغانستان کے انتظامی بندوبست کا حصہ تھے۔ نہ جانے پاکستانی حکمرانوں کو کیا سوجھی کہ انہوں نے ان کو صوبہ پشتونخواہ میں ضم کردیا اگرچہ یہ کوئی غلط اقدام نہیں تھا لیکن روایات اور وعدوں کی خلاف ورزی تھی۔
طالبان کی تازہ آمد کے بعد پہلے انہوں نے سوات پر حملے کئے اس کے بعد وزیرستان ان کا مرکز بن چکا ہے جہاں وہ تابر توڑ حملے کررہے ہیں حتیٰ کہ متعدد خودکش حملے بھی ہوچکے ہیں۔ بھائی افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ حکمرانوں نے سیاسی عمل کو روکنے کے لئے پشتونخواہ کے کئی علاقے طالبان کے حوالے کردیئے ہیں ۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ٹی ٹی پاکستان ہی دوبارہ پاکستانی حکمرانوں کی پراکسی بن جائیں ۔ اس بات سے حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پشتونخواہ حکومت کے کئی وزیر اور اکابرین جان بخشی کے عوض بھتہ دینے پر مجبور ہیں ۔ جب سے ٹی ٹی پی واپس آئی ہے پورا کے پی کے عدم استحکام کا شکار ہوگیا ہے حالانکہ اگر پی ٹی ایم کو روکنا تھا محسن داوڑ اور افراسیاب خٹک کو سیاست سے باہر کرنا تھا یا اے این پی کو سبق سکھانا تھا تو اس کے لئے مسلح لشکروں کو لانے کی ضرورت کیا تھی۔ یہ لوگ تو سیاسی مدبر ہیں، عدم تشدد کے پیروکار ہیں ۔ ویسے بھی یہ صوبہ ایک سازش کے تحت گزشتہ 10سال سے جالندھر کے ایک باشندہ کے قبضہ میں ہے جو پشتون اور علاقہ کی روایات سے ناواقف ہے۔ سوال یہ ہے کہ آئندہ کے انتخابات میں یہ اتنے اہم صوبے کو کس کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔کیا ضروری ہے کہ اپنے غیر منطقی نظریات مسلط کرنے کے لئے کشت و خون کا بازار گرم کردیا جائے یہی صورت بلوچستان میں ہے بلکہ اس سے بھی بری ہے۔
نواب اکبر خان کے سیاسی و آئینی مطالبہ کہ ساحل وسائل بلوچستان کا مالک بلوچستان کے عوام کو قرار دیا جائے اس کی ایسی سزا دی گئی کہ ریاست برسوں سے ایک عذاب میں مبتلا ہے اور نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔
دو روز قبل وزیراعظم شہباز شریف نے کابینہ کے اجلاس کے دوران کہا کہ ایسی رکاوٹیں موجود ہیں جو گوادر پورٹ کو آپریشنل نہیں ہونے دیتں۔ انہوں نے نشاندہی نہیں کی کہ یہ رکاوٹیں کیا ہیں البتہ وزیر داخلہ نے ایک گینگ کی گرفتاری کا انکشاف کیا ہے ۔ جسے بھارت کی سرپرستی حاصل تھی ایک ہی دن بعد خارجہ امور کی وزیر مملکت حنا ربانی کھر نے الزام لگایا کہ بلوچستان کی صورتحال بگاڑنے میں بھارت ملوث ہے۔ وزیر مملکت کا بیان دراصل نئی رجیم کی پالیسی شفت کا اعلان ہے یعینی دوبارہ پاکستان کے اندرونی حالات کا ذمہ دار بھارت کو قرار دے کر پرانی پالیسی کو بحال کیا جائیگا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے پائلٹ ابی نندن کے جہاز گرائے جانے کے باوجود سرحدی کشیدگی کو بڑھاوا نہیں دیا اور باجوہ سر نے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات میں کمی کا معاہدہ کیا تھا لیکن یہ پالیسی تبدیل ہورہی ہے کیونکہ ملک جن مسائل سے دوچار ہے حکمرانوں کے نزدیک اس کے پس منظر میں ایک نئے بیانیہ کی ضرورت ہے۔ کوئی سوچنے
کی زحمت نہیں کرتا کہ پاکستان کن معروضی وجوہات کی بنا پر ناکامی کے اس درجہ پر پہنچا ہے اس کے سیاسی و معاشی دیوالیہ پن کی کیا وجہ ہے اور وہ خطہ کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پیچھے کیوں رہ گیا ہے۔
بدقسمتی سے ایوب ، یحییٰ اور ضیاءالحق نے جو غیر حقیقت پسندانہ پالیسیاں بنائیں ان کا تسلسل جاری ہے ۔ آج 16دسمبر ہے 51 سال پہلے انہی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان دولخت ہوگیا تھا اس کے باوجود وہ پالیسیاں برقرار ہیں ، حکمران تلے ہوئے ہیں کہ کس طرح پاکستان کو ایک فیڈریشن کی بجائے ایک وحدانی طرز کی ریاست میں تبدیل کیا جائے ۔ 1973 کے آئین کو منسوخ کرکے اس کی جگہ ایوب جیسا صدارتی نظام لایا جائے اور صوبوں کی نفی کرکے ایک بار پھر مضبوط مرکز کا ناکارہ اور فسطائی تصور بحال کیا جائے۔ اگر ہمارے حکمران 1970 کے عام انتخابات کے نتائج تسلیم کرتے اور اقتدار اکثریت کو منتقل کرتے تو سقوط مشرقی پاکستان کا المیہ وقوع پذیر نہ ہوتا۔ 21ویں صدی میں ملک کو قدرتی اور سائنسی بنیادوں پر چلانے کی بجائے کاسمیٹک ہائی برڈ طریقے سے چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ صوبوں میں زبردستی ایسے لوگ مسلط کئے جارہے ہیں جو اوسط درجہ کی ذہانت بھی نہےں رکھتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صوبوں کو ڈائریکٹ کنٹرول کیا جارہا ہے اور تمام صوبائی امور اپنی مرضی سے چلائے جارہے ہیں یہ ایک ایک مذاق ہے اگر آئین نافذ ہے ، نظام پارلیمانی ہے تو آپ غلط طریقے سے وحدانی طرز کیوں مسلط کررہے ہیں۔ بحران کی اصل وجہ یہی پالیسی ہے ۔ تصور کیجئے کہ گوادر سے وزیرستان تک ہر جگہ جنگ ہے، بدامنی ہے اور اسے روکنے کی بجائے ہوا دی جارہی ہے ۔ ان حالات میں سیاسی و معاشی استحکام کیسے آئے گا اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ مشرقی سرحدوں کے علاوہ مغربی سرحدوں کے محفوظ نہ ہونے اور عوامی بے چینی کی وجہ سے ایک یا ایک سے زیادہ سقوط نہ ہوں۔ اگر طالبان کو استحکام حاصل ہوا تو وہ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ دوبارہ اٹھائیں گے، آزاد قبائلی علاقوں کے بارے میں اقدامات کو تسلیم نہیں کریں گے۔ اس وقت ریاست کو دانشمندانہ طریقے سے چلانے کی ضرورت ہے، معاشی طور پر اور سیاسی طور پر ایک دیوالیہ ریاست کو ہمیشہ سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔