کمپنی بہادر کی آمد

تحریر: انور ساجدی

میں نے ایک وی لاگ دیکھا جس میں ایران کے ایک ایسے گاﺅں کی کہانی بیان کی گئی تھی جہاں کے سارے باسی بونے ہیں۔ جب نارمل قد کاٹھ کے لوگ بونوں کی اس بستی میں آتے ہیں تو بونے ان کا مل کر مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ لمبے لوگ نارمل نہیں ہیں اور ان کا تعلق ایک اور دنیا سے ہے۔ یہی صورتحال اس وقت مملکت پاکستان میں ہے۔ جنرل ضیاءالحق نے جب سے ریاست کو سیاسی بونوں کی بستی میں تبدیل کیا تھا، اس کے بعد سے اونچے قد کے سیاستدان ناپید ہوگئے۔ اگر کوئی سنجیدہ رہنما قسمت آزمائی کیلئے آجاتا تو یہ بونے مل کر اس کا مذاق اڑاتے تھے۔
ایک سیاست پر کیا موقوف زندگی کے تمام شعبوں پر بونوں کا راج ہے۔ صحافت ہو تدریس ہو سائنس ہو یا کوئی اور شعبہ ”بونے“ چھائے ہوئے ہیں۔ بونوں کی بالادستی کی وجہ سے ہر روز طرح طرح کے لطائف بھی دیکھنے اور سننے کو مل جاتے ہیں۔
چند روز ہوئے حق دو تحریک گوادر کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن کی ایک تصویر نظر آئی جس میں وہ ”امیل“ پہنے ہوئے ہیں جبکہ ان کے ساتھی کلاشنکوف لہرا رہے ہیں، مولانا کی پرامن تحریک میں کلاشنکوف کا ورود کیا ہے؟ اگر وہ مسلح جدوجہد شروع کرنا چاہتے ہیں، تو ان کے پاس باطل کا ٹیلا ہے، جس پر چڑھ کر وہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے حق کیلئے پہاڑوں پر چڑھ گئے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو مولانا کا یہ عمل ایک سیاسی لطیفہ اور سرکس کے کرتب جیسا ہے اس کے باوجود کہ انہیں گوادر شہر کی بیشتر آبادی کی حمایت حاصل ہے لیکن یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ وہ بہت پاپولر ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گوادر میں سیاسی قد کاٹھ کے لوگ گوشہ نشین ہوگئے ہیں یا مصلحتوں کا شکار ہیں۔ اس لئے ملا صاحب کو موقع ملا ہے کہ وہ اپنے عوام کی رہبری کریں 15ویں صدی میں اس سرزمین پر میر حمل جیند نے غیر ملکی قبضہ کیخلاف مزاحمت کی تھی اور خود گرفتار ہوکر تمام عمر زندانوں میں گزاری۔ پھر بھی پرتگیز استعمار کا شکریہ انہوں نے ”گوا“ پر قبضہ کے بعد وہاں پر میر حمل کی یادگار تعمیر کی اور وہاں پر ان کا مجسمہ ایستادہ کردیا۔ گوا پر ہندوستان کے قبضہ کے بعد ہی جب کچھ لوگوں کا وہاں جانا ہوا تو ان پر انکشاف ہوا کہ پرتگیزیوں نے میر حمل کی بہادری کے اعتراف میں ان کی یادگار بنائی ہے۔ اگر مولانا اپنی یادگار بنوا کر تاریخ میں امر ہونا چاہتے ہیں تو انہیں بلوچ سرزمین کی سوگند کھا کر حلف اٹھانا ہوگا اور اپنی دیگر وابستگیوں کو ترک کرنا ہوگا ورنہ لوگ یہی سمجھیں گے کہ ان کی تحریک ایک نورا کشتی ہے اور اس کا مقصد آئندہ انتخابات میں گوادر کی سیٹ حاصل کرنا ہے تاکہ ساحل جیسے اہم علاقے میں اپنا بندہ ہی آگے آنا چاہئے۔
ایک اور لطیفہ یہ ہے کہ ریکوڈک کی ڈیل فائنل کرنے کے بعد بلوچستان کے حکومتی اکابرین ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں وہ یہ سمجھنے سے عاری ہیں کہ ان سے بہت بڑا گناہ سرزد ہوگیا ہے۔ وہ معاہدہ کو پڑھے بغیر فرحاں اور شاداں ہیں۔ مبارکباد کس بات کی؟ اس بات کی کہ ہم نے مل کر اپنی سرزمین کے ایک حصے کا سودا منظور کیا ہے جس کا فائدہ اغیار کو ہوگا۔ ریکوڈک کا سودا آج کل ہر جگہ زیر بحث ہے یہ سودا باجوہ سر اور عمران خان کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جبکہ انگوٹھا موجودہ حکومت کو چسپاں کرنا پڑا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ریکوڈک کا پوشیدہ معاہدہ کسی نے پڑھا نہیں ہوگا۔ اس بارے میں جو بھی معلومات دی ہیں وہ کمپنی بہادر نے دی ہیں یعنی بیرک گولڈ نے اس کے سربراہ نے جو بیان جاری کیا ہے وہ سفید جھوٹ ہے اس کے اعلان کے مطابق ہر سال 8 کروڑ ٹن خام مال نکالا جائے گا اور اسے مطلوبہ ملک منتقل کیا جائے گا یہ عمل 40 سال تک جاری رہے گا۔ کمپنی نے اگرچہ مالیت بتانے سے گریز کیا ہے لیکن آزاد معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ یہاں سے ایک ہزار سے تین ہزار ارب ڈالر کا تانبا، سونا اور دیگر معدنیات نکالی جائیں گی۔ یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ پاکستان کے تمام قرضے اترسکتے ہیں بلکہ کھربوں ڈالر ترقیاتی کاموں کیلئے بھی دستیاب ہونگے۔ لیکن بونے حکمرانوں نے اس بیش بہا دولت کو محض چھے ارب ڈالر میں فروخت کرنا مناسب سمجھا۔ چونکہ عمران خان اور باجوہ پارسا حکمران تھے اس لئے ان پر کک بیک لینے کا نامعقول الزام نہیں لگایا جاسکتا۔
سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ہر روز نئے لطائف اور شگوفے چھوڑ رہے ہیں۔ درجنوں گھڑیوں، ہیرے کے متعدد سیٹس کوڑیوں کے مول بیچنے کے بعد موصوف بدستور ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے قائدین کو چور مخاطب کررہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ میری گھڑی میری مرضی۔ کم بخت کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ 6 ارب مالیت کے تحائف لینے اور بیچنے کے بعد وہ بھی شریف اور زرداری کی صف میں شامل ہوگئے ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ سارے اختیارات باجوہ کے پاس تھے اور وہ بے بس تھے بذات خود ایک لطیفہ ہے۔ ایک لطیفہ یہ ہے کہ پرویزالٰہی باجوہ کو محسن اور عمران خان غدار قرار دے رہے ہیں۔
اگرچہ بظاہر عمران خان کی جانب سے ان کی دو حکومتوں کا خاتمہ اور دو اسمبلیوں کو تحلیل کرنا نہایت سنجیدہ عمل معلوم ہوتا ہے لیکن یہ بھی ایک سیاسی لطیفہ ہے۔ اگر ان کا مشن کامیاب ہوا تو وہ دوبارہ دو صوبوں کی حکومت لینے کیلئے لاکھ جتن کریں گے، یہ کونسی عقلمندی ہے۔
لاہور میں موجود سیاسی، صحافتی اکابرین اور دانشور یہی سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے لوگ پاگل ہیں اور وہ جو باتیں کررہے ہیں ان کی حیثیت ”نوحہ“ کی ہے، وہ بھی انڈین ”نوحوں“ کی، جب گورے ایک ایک کرکے ان کے علاقوں پر قبضہ کررہے تھے تو وہ مزاحمت کے بجائے نظمیں لکھتے تھے، تقاریر کرتے تھے اور قابض فورسز کو برا بھلا کہتے تھے۔ ”نواڈا“ کے انڈین سرداروں کے نوحے تو بہت مشہور ہیں لیکن امریکی ریاست واشنگٹن کی زمینوں پر قبضے کی دستاویز تیار ہوئیں تو گوری حکومت نے وہاں کے ایک قبائلی سردار کو بلاکر حکم دیا کہ وہ ”قانونی دستاویز“ پر دستخط کردیں۔ مذکورہ سردار نے اس پر جو نوٹ لکھا وہ امریکی آرکائیوز میں محفوظ ہے جس میں لکھا ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی سرزمین قابضین کے حوالے کرنے کے گناہ پر دستخط نہیں کرسکتے۔ دو صدیاں بعد ہمارے جو لیڈر ہیں انہیں اتنا بھی احساس نہیں ہے جو انڈین سرداروں کو تھا یہ خانہ خراب تو 75 سال سے انگوٹھا لگائے جارہے ہیں اور انہیں کوئی شرمندگی اور خجالت بھی نہیں ہے، انہیں خوش فہمی ہے کہ وہ اپنے صوبے کے حکمران ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کی حیثیت کٹھ پتلی کی ہے ان کو اس لئے لایا گیا ہے کہ وہ آنکھیں بند کرکے انگوٹھے لگاتے جائیں۔
2006ءمیں نواب شہید نے راقم کو بتایا تھا کہ انہوں نے ذلت کی زندگی کے بجائے عزت کی موت کا انتخاب کیا ہے، باعزت موت مرنا ان کا اپنا انتخاب ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ساحل گیا، وسائل گئے تو بہتر یہی ہے کہ وہ آخری قربانی دیں، شاید آنے والی نسلیں اس قربانی کا اداراک کرکے اپنی سرزمین کو بچائیں۔
بدقسمتی سے بلوچستان میں کوئی اپوزیشن نہیں ہے۔ جو ہے وہ بونی ہے اور کسی کام کی نہیں یہی حال اوپر ہے۔ وہاں پر جو پارلیمنٹ ہے اسے ربر اسٹیمپ بنادیا گیا ہے، پارلیمنٹ اپوزیشن کے بغیر چل رہی ہے۔ غالباً دنیا کی پہلی ریاست ہے جہاں حکومت تو قائم ہے اپوزیشن کا وجود نہیں ہے۔
بلوچستان کے ایک بذلہ سنج رہنما عبدالکریم نوشیروانی ہیں انہوں نے 1990ء میں کہا تھا کہ میں اونٹ پر سوار تھا لیکن پھر بھی سانپ نے کاٹ لیا لگتا ہے کہ بلوچستان کے سارے رہنماﺅں کو سانپ سونگھ گیا ہے صرف ایک شخص سرگرم ہے بولتا بھی ہے پھر بھی سکون میں ہے وہ مولانا ہدایت الرحمن ہیں۔ غالباً ان کی اس جرا¿ت کی وجہ یہ ہے کہ ان کی پشت پر جماعت اسلامی ہے۔ وہ مقتدرہ کے نزدیک پسندیدہ جماعت ہے اور جس نے 1971ء میں الشمس اور البدر بناکر بنگالی عوام کے قتل عمومی میں حصہ لیا تھا۔ کیا معلوم کہ بطور ایم پی اے منتخب ہونے کے بعد وہ بھی ایک عدد الشمس اور ایک عدد البدر بنالیں اور جو لوگ حقیقی معنوں میں آواز اٹھائیں تو ان کے ساتھ وہی سلوک ہو جو بنگالیوں کے ساتھ ہوا تھا۔ یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ جماعت اسلامی کا بندہ اس حد تک لبرٹی لے اگر مولانا کا تعلق مضبوط نہ ہوتا تو ابتک گرفتار ہوتے یا ان کا شمار مسنگ پرسنز میں ہوتا پھر بھی وہ جو بول رہے ہیں یہ اچھا ہے ان کی وجہ سے کچھ نہ کچھ مسائل اجاگر ہورہے ہیں۔ اگر وہ گرفتار ہوگئے تو کمپنی کی مشہوری بہت ہوجائے گی اور ان کو زبردست سیاسی تقویت حاصل ہوجائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں