خطرات ہی خطرات… ایک نعرہ مستانہ

تحریر: انور ساجدی


یہ جو جعلی نوساختہ اور گماشتہ ایلیٹ ہے اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں یہ جانے ان کی ریاست جانے لیکن پائیہ تخت سے دور رہ کر اندازہ یہی ہورہا ہے کہ جعلی اشرافیہ کی جنگ نے اپنی ریاست کے وجود کو خطرات میں ڈال دیا ہے۔
نہ جانے کن مقاصد کے تحت عمران خان کے دور میں ٹی ٹی پی سے باقاعدہ معاہدہ کرکے اسے واپس ان علاقوں میں لایا گیا جو دو عشروں کے دوران انہی کے ہاتھوں تاراج ہوئے تھے اسلام آباد کی حکومت میں کوئی جان نہیں کہ وہ ٹی ٹی پی سے ہونے والے معاہدہ کی تحقیقات کرے اور ذمہ داران کا تعین کرے ۔وزیرستان تو گرفت میں تھا لیکن خود دارالحکومت اسلام آباد بھی زد میں آگیا ہے ۔جمعہ کی صبح ایک خودکش حملہ نے جہاں ایک طرف خوف و ہراس پھیلایا تو دوسری جانب یہ بتادیا کہ طالبان اندر آچکے ہیں اگرچہ ان کا پہلا حملہ ناکام ہوگیا اور بارود سے بھری گاڑی دارالحکومت کے حساس علاقوں تک نہ پہنچ سکی لیکن ٹی ٹی پی کوئی معمولی فورس نہیں ہے وہ بنوں آپریشن کا بدلہ ضرور لیں گے اور فاٹا کے متعدد علاقوں کے امن و امان کو تہس نہس کرسکتے ہیں ۔عمومی طور پر جب ٹی ٹی پی سرحد پر لگی باڑ کو توڑنے لگتے ہیں تو افغان حکومت یا ٹی ٹی پی حرکت میں آجاتے ہیں کیونکہ وہ سرحدی لکیر کو تسلیم نہیں کرتے ابھی تو شروعات ہے جوں جوں افغان حکومت مستحکم ہوگی یہ مسئلہ اور شدت اختیار کرے گا اور کسی دن خان عبدالولی خان کی طرح وہ بھی کہیں گے ہم سرحد کی زنجیر اٹک پر لاکر لگادیں گے۔
ابھی یہ معلوم نہیں کہ پاکستان کے سب سے بڑے آتشین اور میں نہ مانوں والے لیڈر عمران خان طالبان کیلئے کیا جذبات رکھتے ہیں جب امریکی انخلا کے بعد افغانستان کا قبضہ طالبان کو دیا گیا تھا تو اس وقت عمران خان نے ایک تقریر میں کہہ دیا تھا کہ طالبان نے غلامی کی زنجیروں کو توڑ ڈالا ہے اور وہ آزاد ہوگئے ہیں۔
اگر کسی مقام پر طالبان اور عمران خان کا موقف یکساں ہوگیا تو اس ریاست کا کیا بنے گا؟ ابھی تک تو چونکہ عمران کی سیاسی طاقت کا محور پنجاب ہے اس لئے وہ کوئی ایسی بات نہیں کرتے کہ سیاسی قلعہ ان سے چھن جائے لیکن اگر وہ زیادہ عرصہ تک اقتدار سے باہر رہے تو وہ ضرور کوئی تیسرا راستہ تلاش کریں گے تب تک پنجابی عوام کا ایک بڑا حصہ بے وقوف بنارہے گا ابھی تک عمران خان پنجاب کے طول و عرض میں مقبول ہیں اور ایسے اشارے نہیں ملے ہیں کہ عوام انہیں پختون سمجھ کر ان کی قیادت کو مسترد کردیں ۔اگر لڑائی اسی طرح جاری رہی تو ن لیگ زعما خود ایک بار پھر جاگ پنجابی جاگ کانعرہ بلند کردیں گے حالانکہ ن لیگ کے 80 فیصد اکابرین کا تعلق مغربی پنجاب سے نہیں ہے سارے کے سارے مشرقی پنجاب ہریانہ ہما چل پردیش اور سابقہ گریٹر پنجاب کے مختلف علاقوں سے آئے ہیں خیر یہ تو پنجابی قوم کا اپنا مسئلہ ہے لیکن اقتدار کی جنگ میں بالآخر قومی عصبیت کے ہتھیار سے بھی کام لیا جاتا ہے۔
عمران خان کو یہ کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے سب کچھ بے نقاب کردیا ہے انہو ں نے اداروں مقتدرہ عدلیہ مقننہ اور سیاستدانوں کو اپنی ذات کی طرح الف ننگا کردیا ہے جس سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ یہ جو تخت لاہور ہے یا پاور مرکز راولپنڈی یا پائیہ تخت اسلام آباد ہے یہ کتنے پانیوں میں ہے اور جو زعما 25 کروڑ کے ملک کو چلارہے ہیں ان کی قابلیت اہلیت اور صلاحیت کیا ہے جو حالیہ بحران ہے اس سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ نام نہاد ایلیٹ ملک چلانے میں مکمل طور پر ناکام ہے اور اس کے اندر بڑے بحرانوں کو چاہے وہ سیاسی ہوں عدالتی ہوں یا آئینی ہوں حل کرنے کی اہلیت نہیں ہے ان کا حال یہ ہے کہ ریاست کی بقاء بوجوہ خطرے میں پڑچکی ہے اقتدار کی جنگ کی وجہ سے معیشت ڈوبنے کے قریب پہنچ چکی ہے لیکن یہ بچوں کی طرح لڑرہے ہیں اور خود اپنے ہاتھوں سے اپنی بقاء کی جڑیں کھود رہے ہیں حالات اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ عمران خان کی معزولی کے بعد سے وفاقی دارالحکومت تقریباً محصور ہے لاہور میں پہلوانوں کی کشتی ہورہی ہے اور راولپنڈی حیران پریشان ہے کہ وہ کیا کرے ایسے میں اپنے مولوی ہدایت الرحمن 50 دنوں سے گوادر میں ایک دھرنا دیئے بیٹھے ہیں کہ اسلام آباد کے حکمران یا بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ان کے نمائندے گوادر کے عوام کے مسائل حل کریں گے خود صوبائی حکومت کا یہ حال ہے کہ وزیراعلیٰ مرکز سے رحم کی اپیل کرچکے ہیں کہ کچھ نقد امداد دی جائے تاکہ ہم اپنے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا بندوبست کرسکیں ایسی صورت میں مولانا صاحب پر کوئی توجہ نہیں دے گا تاوقتیکہ وہ کوئی بڑا قدم نہ اٹھاسکیں اس قت وفاق کا تو حال ہے برا لیکن سب سے بڑا صوبہ پنجاب دوسرا بڑا صوبہ پشتونخواء اور سب سے چھوٹا صوبہ بلوچستان اقتصادی طور پر دیوالیہ ہوچکے ہیں صرف سندھ اپنے پیروں پر کھڑا ہے اور اپنے وسائل سیلاب زدگان کی امداد کی بجائے اپنی اشرافیہ پر احتیاط کے ساتھ خرچ کررہا ہے گویا جو صوبے پارسائوں کے ہیں وہ دیوالیہ ہوچکے ہیں صرف زرداری کا صوبہ بچا ہوا ہے جس کے بارے میں مشہور کیا گیا ہے کہ وہ سب سے زیادہ کرپٹ ہیں۔
سنجیدہ بات یہ ہے کہ عمران خان گفت و شنید اور مذاکرات پر یقین نہیں رکھتے اس لئے بحران بڑھتا جارہا ہے پنجاب بھی جو دھینگامشتی چل رہی ہے اس کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام آخری حدود کو چھورہا ہے لیکن بات چیت کے دروازے بند ہیں صدر علوی نے بہت کوشش کی کہ پنجاب کے مسئلہ کا حل بات چیت کے ذریعے نکل آئے لیکن عمران خان اور اس کے ’’چھوٹو‘‘ مونس الٰہی طاقت کے زعم میں ہیں اس لئے گورنر کے حکم کے تحت پرویز الٰہی وزیراعلیٰ نہیں رہے پی ٹی آئی نے گورنر کے احکامات کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا ہے اس ہائی کورٹ کا جو بھی فیصلہ آجائے اسے سپریم کورٹ لے جایا جائے گا جہاں چیف جسٹس عمر بندیال اور ان کے دوست حتمی فیصلہ کریں گے ویسے عدالتی مسئلہ کے بارے میں کوئی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی لیکن گمان یہ کہتا ہے کہ وہاں سے پرویزالٰہی کو ریلیف ملے گا لیکن اس کے باوجود انہیں اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا۔
سیاسی کشمکش میں پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے بہت ہی معنی خیز بیان دیا ہے کہ جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ آصف علی زرداری کے پنجاب میں داخلہ پر پابندی لگادی جائے یہ پریکٹس طویل عرصہ سے روبہ عمل نہیں ہے لیکن بھٹو اور ضیائوالحق کے دور میں سیاسی رہنمائوں کی صوبہ بدری عام بات تھی فواد چوہدری کا مطلب یہ ہے کہ زرداری کا ڈومیسائل سندھ کا ہے اس لئے ان کو پنجاب آنے نہ دیا جائے یعنی پی ٹی آئی ملک کو تقسیم کرنے پر تلی ہے پھر تو عمران خان بھی سندھ اور بلوچستان میں داخل نہیں ہوسکتے یہ کیا ہے یہ غیر سنجیدہ اور معمولی بات بہت سنجیدہ ہے کیونکہ سیاسی رہنما خود علاقائی بنیادوں پر اپنے ملک کو تقسیم کرنے کے راستے پر چل پڑے ہیں اگر کل سندھ اور بلوچستان یہ کہیں کہ ہم اپنی گیس پنجاب کو نہیں دیں گے تو چوہدری صاحب کیا کریں گے 18 ویں ترمیم میں واضح طور پر لکھا ہے کہ جو قدرتی چیز جس صوبے سے نکلے اس پر پہلا حق اس صوبے کے لوگوں کا ہے اس فارمولہ کے تخت تو مولانا ہدایت الرحمن سارے ملک کو بحر بلوچ کی لذیزسمندری خوراک سے بھی محروم رک سکتے ہیں 1973 کے آئین کے مطابق تمام وسائل کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر ہوگی جس کے تحت ملک کے جملہ وسائل اسلام آباد میں جمع ہوتے ہیں ان میں سے 60 فیصد نکال کر پنجاب کے حوالے کئے جاتے ہیں جن میں گیس تیل محصولات حتیٰ کہ مچھلی کی آمدنی بھی شامل ہوتی ہے سمندری غذا وفاقی بجیکٹ ہے اور غیر ملکی فشنگ ٹرالروں کو لائسنس مرکزی محکمہ زراعت جاری کرتا ہے حالانکہ یہ مچھلیاں تو ساحل کے غریب لوگوں کی ملکیت ہوتی ہیں مرکز کو کیا حق ہے کہ وہ اس آمدنی کو ہڑپ کرلے۔
ظلم کی انتہا یہ ہے کہ 1952 سے سوئی سے نکلنے والی گیس سے سوئی ہی کے لوگ محروم ہیں جبکہ ملک کے کونے کونے میں یہ گیس بے رحمی کے ساتھ استعمال ہورہی ہے دراصل یہی ناانصافی ہے جس نے پہلے بھی پاکستان کو دولخت کیا اگر یہ آئندہ بھی جاری رہے اور اس کے حکمران اس ناانصافی کو بندوق کے زور پر جاری رکھیں تو ہمیشہ یہ فارمولہ نہیں چلے گا۔
ریاست کی خوشبختی ہے کہ اسے وفاق کی اکائیوں میں بزدل اتحادی ملے ہیں جو اپنا ذاتی پیٹ اور وقتی مفاد دیکھتے ہیں اگر مزید نواب بگٹی پیدا ہوجاتے تو تب حکمرانوں کو آٹے دال کا بھائو پتہ چلتا۔
میرے خیال میں گوادر کے ملا ہدایت الرحمن بھی ایک بے ضرر انسان ہیں ان کی پشت پر مرکز پرست جماعت اسلامی کا ڈسپلن اور پائوں میں جماعتی بیڑیاں ہیں اگر نہ ہوتیں تو وہ ایک نعرہ مستانہ کے ذریعے ایسے حالات پیدا کرسکتے تھے کہ اسلام آباد کے حکمرانوں کو دن میں تارے نظر آتے لیکن وہ مجبور ہیں گوادر تک محدود ہیں غالباً ان کا مطمع نظر زیادہ بڑا نہیں ہے کوئی وزیری اور گزری لینا ہے اس پر حکمرانوں کو شکر ادا کرنا چاہئے ورنہ ملا صاحب خطابت کے ایسے ماہر ہیں کہ وہ منٹوں میں ہیجان پیدا کرسکتے ہیں اور کوہ سلیمان سے لیکرکوہ باطل تک جادوئی کمالات دکھاسکتے ہیں۔
بہرحال 1971 کے بعد یہ ریاست بہت زیادہ خطرات میں گھری ہوئی ہے اور فیصلہ کرنا پنجاب کی جعلی اشرافیہ کے ہاتھ میں ہے باقی لوگ تو محض تماشائی ہیں ان کی مرضی جو فیصلہ کریں باقی اللہ اللہ خیر صلہٰ

اپنا تبصرہ بھیجیں