آہن و آتش

انور ساجدی
عمران خان کو مارچ میں ایک وائرس لگ گیا تھا اس وائرس کی تریاق کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں تھی کیونکہ انہیں سیاسی پیسوایمونائزیشن کی ضرورت تھی علاج تھا اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کے پاس چنانچہ وہ لندن کی رومانی اور خنک فضاؤں کو چھوڑ کرواپس آگئے تووائرس زدہ شہبازشریف کے خون سے عمران خان کا علاج کیا گیا جس سے وہ صحت مند ہوگئے جبکہ لیڈر آف اپوزیشن کو کوٹ لکھپت جیل میں بھیجنے کی تیاریاں مکمل ہیں جہاں انہیں بے شمار وائرس کے حوالے کردیا جائیگا اس وقت تو پروگرام یہی ہے کہ ن لیگ کے چیدہ چیدہ رہنماؤں کو جیل بھیج کر نہ صرف احتساب کابول بالا کیاجائے گا جبکہ حکومت اپنی دہشت کی ٹھیک ٹھاک دھاک بٹھادے گی ساتھ ہی مرکز نے سندھ حکومت کا تیاپانچا کرنے کی تیاری بھی شروع کردی ہے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی نے علی الاعلان مطالبہ کیا کہ سندھ میں گورنر راج نافذ کردیاجائے کیونکہ پیپلزپارٹی کی حکومت کی نااہلی سے صوبہ تباہ ہورہا ہے اس مطالبہ کی بالواسطہ طور پر حمایت کرتے ہوئے تحریک انصاف کے ٹائیگر فورس کولانچ کردیا گیا ہے جس کی نگرانی گورنرعمران اسماعیل کریں گے یہ فورس سندھ آکر کیا کرے گی؟یہ کوئی نہیں جانتا ہاں یہ ضرور ہوگا کہ وہ صوبائی معاملات میں مداخلت کرے گی اشتعال دلائے گی حالات کو خراب کرنے کی کوشش کرے گی اور عین ممکن ہے کہ وہ کراچی میں غنڈہ گردی بھی شروع کردے ویسے اس عمل کو چوری اور سینہ زوری کہاجائے تو بے جانہ ہوگاکیونکہ کرونا کے حوالے سے پالیسی بنانے میں وفاق ناکام ہوا۔2ارب ڈالر اسی نے اپنے توشہ خانے میں رکھ کر چھپادیئے کرونا کے بارے میں یکساں پالیسی اس نے نہیں بنائی وزیراعظم نے باربار لاک ڈاؤن توڑنے کی ترغیب دی یعنی خود وزیراعظم نے لاک ڈاؤن کو ناکام بنایاحفاظتی سامان مرکز نے نہیں دیا لیکن اسکے باوجودہ وہ ریاستی طاقت پروپیگنڈہ کے زور پر سندھ حکومت کو نااہل ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے وفاق مسلسل سندھ میں ایسے اقدامات کررہا ہے کہ سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کی راہ ہموار ہوجائے اسکی بڑی وجہ این ایف سی ایوارڈکو ٹالنا اور وسائل کی من مانی تقسیم ہے اگر سندھ حکومت نہیں رہے گی تو کام آسان ہوجائے گا جہاں تک مسلم لیگ ن پرہاتھ ڈالنے کا تعلق ہے تو اس کا مقصد اس جماعت کو ”ادھ مٹوا“ کرکے 18ویں ترمیم میں ردوبدل کیلئے آمادہ کرتا ہے حالانکہ ن لیگ حمایت کا عندیہ دے چکی ہے عجیب بات ہے کہ جب گھی سیدھی انگلیوں سے نکل رہا ہے تو ٹیڑھی انگلیوں کی کیا ضرورت ہے اس سے لگتا ہے کہ معاملہ بہت بڑا ہے پہلی قسط کے طور پر مرضی کا این ایف سی ایوارڈ نافذ کرنا ہے دوسری قسط 18ویں ترمیم کے کانٹے کو ہٹانا ہے جبکہ برسراقتدار ٹولے کا اصل مقصد پورے پارلیمانی نظام کو تہس نہس کرنا ہے آثار بتارہے ہیں کہ ٹرائیکا مستقبل کے ان منصوبوں پر ہم آہنگ یکسو اور متفق ہے اس کی ایک جھلک بازار کھولنے کے بارے میں حالیہ فیصلہ ہے حالانکہ یہ ایک انتظامی معاملہ ہے اور انتظامی معاملات طے کرنا حکومت کاکام ہے ن لیگ کے رہنما خرم دستگیر نے این ایف سی کی تشکیل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے جوکہ از روئے سیاست غلط ہے کیونکہ ہائی کورٹ کے بعد جب یہ معاملہ اوپر جائیگا تو دوسرا سرخ اختیار کرجائیگا اور دستگیر صاحب کیس ہارجائیں گے یہ حکومت کی قانونی جیت کا پہلا مرحلہ ہوگا۔ن لیگ کوڈرا دھمکاکر اور نیب کو استعمال کرنے کے بعد 18ویں ترمیم میں ردوبدل کی منظوری پارلیمنٹ سے حاصل کی جائے گی اسکے بعدعدالتوں سے رجوع کیاجائے گاکہ اس ترمیم نے آئین کی اصل روح کو متاثر کیاجائے لہٰذا اسکی سو میں سے80شقوں کوختم کردیاجائے اللہ بھلا کرے سب کا اس مرحلہ میں 18ویں ترمیم کو برقراررکھنے والی سیاسی طاقتیں ہارجائیں گی جس کے نتیجے میں ضیاء الحق والا آئین دوبارہ بحال ہوجائے گا جس کے نتیجے میں صدر کو حکومتوں کی برطرفی کا سلب شدہ اختیار واپس مل جائیگا اگراس سے کام چل گیا تو ٹھیک نہیں تو ایسی تدابیر اختیار کی جائیں گی کہ پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام آجائے اور 1973ء کے آئین کی جگہ1962ء والا ایوب خان جیسا آئین بناکر نافذ کردیاجائے یہ بات سب ہی مانتے ہیں کہ اگر1956ء کاآئین منسوخ نہ کیاجاتا اور 62والا نافذ نہ کیاجاتا تو مشرقی پاکستانی کبھی الگ نہ ہوتا لیکن ہمارے حکمران ہیں کہ تاریخ سے سبق سیکھنے کیلئے تیار نہیں وہ وہی تجربے دوبارہ آزماتے ہیں جو ناکامی پر منتج ہوئے حتیٰ کہ انکی وجہ سے ملک بھی دولخت ہوا۔
میراوجدان کہتا ہے کہ جلد ایک ایسا فیصلہ کن مرحلہ آنے والا ہے کہ پورے ملک کاسیاسی ومعاشی اورآئینی کنٹرول ایک اشارہ یاایک ہی مرکز میں مرتکز کردیاجائیگاکیونکہ یہ سوچ تقریباً فائنل ہوچکی ہے کہ موجودہ آئین اس کے تحت صوبے متعدد حکومتیں اور اخراجات بے جا ہیں ان تمام وسائل کو صرف سیکیورٹی پرخرچ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مضبوط مرکز کاحامل ملک ہر طرح کے خطرات سے محفوظ رہے کیونکہ اس وقت ملک کی جو قومی آمدنی ہے وہ اتنی قلیل ہے کہ اس سے سیکیورٹی کے عندالطلب اخراجات پورے نہیں کئے جاسکتے طاقت کے عناصر کے نزدیک موجودہ نظام سے ملک کی وحدت اور خودمختاری کوخطرہ ہے لہٰذا ایک نیانظام وضع کردیاجائیگا تاکہ ہر طرح کے اختیارات صرف ایک آہنی ہاتھ میں ہوں لیکن ایسی کوشش کی گئی تواسکے تباہ کن اثرات مرتب ہونگے پورے ملک میں بے چینی کی لہر دوڑ جائیگی مختلف قسم کے تنازعات سراٹھائیں گے ایک انارکی والی کیفیت پیداہوجائے گی چھوٹے صوبوں سے مزاحمت کاسامنا کرنا پڑے گا بے شک وقتی طور پر اس مزاحمت کو طاقت کے بل پر کچل دیاجائے لیکن کب تک طاقت کا بے جااستعمال کیاجائے گا اگرتمام وسائل سیکیورٹی پر جھونک دیئے جائیں تو یہ ملک معاشی اورتکنیکی اعتبار سے کبھی ترقی سے ہمکنار نہیں ہوسکے گا باقی حاکموں کی مرضی
شاہد آفریدی کرکٹ کے نامور کھلاڑی ہیں انہوں نے اپنے کیریئر میں بے شمار ریکارڈ بنائے ہیں زیادہ اسٹروک کھیلنے پر انہیں بوم بوم آفریدی کا خطاب بھی ملا ہے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے سوشل ورک یاخدمت خلق کاراستہ چنا ہے وزیرستان میں طویل بدامنی کے بعد جب حالات قدرے ٹھیک ہوئے تو انہیں وہاں پر بلایا گیا تاکہ علامتی کرکٹ کا آغاز کیاجاسکے اور دنیا دیکھے کہ وزیرستان میں امن قائم ہوگیا ہے۔یہ الگ بات کہ وزیرستان میں ایک بار پھر حالات خراب ہیں
شاہد آفریدی کو ریاست نے اپنا برینڈایمبسیڈر بنایا ہے اس حیثیت سے انہوں نے چند روز قبل شورش زدہ علاقہ بلوچستان کا دورہ کیا اس دوران انہوں نے دوردراز علاقوں میں راشن کے تھیلے بھی تقسیم کئے اس عمل کا مقصد بلوچستان میں شاہد آفریدی کے امیج کو اجاگر کرنا ہے گوکہ شاہد آفریدی کرکٹ کے عظیم کھلاڑی رہے ہیں لیکن انکے کریڈٹ میں کوئی ورلڈ کپ نہیں ہے جیسے کہ عمران خان کے کریڈٹ پر ہے لہٰذا یہ سوچ موجود ہے کہ اگر عمران خان وزیراعظم بن سکتاہے توشاہد آفریدی کوبلوچستان کاگورنربنایاجاسکتا ہے کیونکہ مارشل لاؤں کے بیشتر ادوار میں صوبہ سرحد کے ریٹائرافسروں کو یکے بعد بلوچستان کا گورنر مقرر کیا گیا ان میں ایف ایس کے لودھی کا تعلق اگرچہ پنجاب سے تھا لیکن وہ خود کو پٹھان کہتے تھے۔
ضیاء الحق کے سمدھی رحم الدین خان اگرچہ یوپی کے علاقہ قائم گنج سے تعلق رکھتے تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ پختون ہیں انکے بعد عمران اللہ خوشدل خان آفریدی اور اویس غنی گورنر ہوئے ان سب کا تعلق پشتونخوا سے تھا
گورنر اویس غنی بہت ہی پرخطردور میں بلوچستان کے گورنر تھے انکے دور میں نواب اکبر خان شہید نے ساحل ووسائل کے تحفظ کا معاملہ اٹھایا انہوں نے جو مطالبات کئے وہ جائز اورآئینی تھے لیکن گورنر نے واقعات کوبڑھا چڑھا کر پیش کیا انہوں نے سازش کرکے بلوچستان کے حالات کو بگاڑنے میں اہم کردارادا کیا یہ لومڑی طبیعت کے بہت ہی شاطر انسان تھے جب سیاسی دباؤ پر نواب بگٹی سے مذاکرات کافیصلہ کیا گیا تو اویس غنی نے مذاکرات کے عمل کو ناکام بنادیا اور مسلسل زور دیتے رہے کہ بلوچستان کے مسئلہ کا حل صرف اور صرف طاقت کا استعمال ہے۔اس طرح اس بدبخت گورنر نے بادی نظر میں بلوچستان لیکن دراصل پوری ریاست کو آہن وآتش کے سپرد کردیا ریاستی عناصر نے اس گورنر کو نواب بگٹی کے قتل کیس سے بھی بری کروادیا حالانکہ وہ ایک دن بھی کسی عدالت میں پیش نہیں ہوا بدقسمتی سے بلوچستان کے جتنے بھی گورنر باہر سے آئے انہیں اس صوبہ کی تاریخ کا علم تھا اور نہ ہی جغرافیہ کالیکن وہ مرکز کی نمائندگی اپنے معیارپر کرتے رہے اگرشاہد آفریدی کو اس لئے لانچ کیا گیا ہے کہ انہیں بلوچستان کاگورنر لگادیاجائے تو یہ کونسی بڑی بات ہے لیکن شاہد آفریدی ایک ”بھولے بادشاہ“ ہیں انہیں تاریخ اور جغرافیہ تو اپنی جگہ کسی چیز کا بھی پتہ نہیں ہے۔کرکٹ باؤلر کی حیثیت سے وہ گیند کو بگاڑنے کا کام کرتے تھے ایک مرتبہ تو انہوں نے گندے بال کو اپنے مگرمچھ جیسے بڑے منہ میں ڈال کر چھبایا جس کے بعد انہوں نے خود ہی بتایا کہ جب وہ گھر پہنچے تو انکی بیٹی نے انہیں ایک سیب دیا اور کہا کہ بال کھانے کی چیز نہیں ہے آپ اسکی جگہ سیب کھائیں۔
اگر بلوچستان کے نصیب میں اس طرح کے حکمران لکھے ہیں تو کوئی بات نہیں کمزور لوگوں پرتجربات تو ہوتے رہتے ہیں ایک اور تجربہ صحیح لیکن جبر اور مظالم کا سلسلہ کب تک!

اپنا تبصرہ بھیجیں