کھلنائک

تحریر: انور ساجدی
وزیراعظم کوگزشتہ روز ورلڈ اکانومک فورم سے خطاب کا موقع ملا جسے تحریک انصاف کے حلقے ایک بڑا اعزاز سمجھتے ہیں لیکن جس طرح کے پراثراورزوردار خطاب کی توقع تھی وہ پوری نہ ہوسکی پاکستان میں کرونا کی صورتحال کی زیادہ تفصیل بیان کی گئی اور آخر میں وہی ہوا جس کا ڈر تھا وزیراعظم نے کشکول پھیلاتے ہوئے امیر ممالک سے اپیل کی کہ وہ دل کھول کر غریب ممالک کی مدد کریں اس وقت دنیا کے کم از کم 150ممالک غریب ہیں 5بہت زیادہ اور15کافی حد تک امیر ہیں تمام امیر ملک مغربی یورپ شمالی امریکہ اور مشرقی ایشیائے سے تعلق رکھتے ہیں جی20ممالک میں انڈیا برازیل سعودی اور روس بھی شامل ہیں جبکہ پاکستان کا تعلق انتہائی غریب ممالک میں ہوتا ہے جس کی آمدنی کابڑا ذریعہ اس کا ہیومن ریسورس ہے جو باہر کے ممالک میں مزدوری کیلئے مقیم ہے اور سالانہ تقریباً20ارب ڈالر بھیجتا ہے پاکستان کی سب سے بڑی منڈی انکے22کروڑ عوام ہیں یہی لوگ سوئی سے لیکر دھاگہ تک ہرچیز پر سیلز ٹیکس دے کر مملکت کو روز مرہ اخراجات چلانے کا موجب ہیں فی کس آمدنی بہت کم، بیروزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے جبکہ امیر لوگ وڈیرے اوراشرافیہ ٹیکس چوری میں ملوث ہیں یہی طبقہ ایک طرف ٹیکس چوری کرتا ہے اور دوسری طرف اربوں روپے سبسڈی کے نام پر حاصل کرتا ہے اسکی تازہ مثال چینی مافیا کودی جانے والی سبسڈی ہے۔اس مافیا نے لاکھوں ٹن چینی برآمد کرکے ایک سو ارب روپے کمایا اور چینی کی قیمت بڑھاکر دن دہاڑے غریب عوام پر ڈاکہ ڈالا وزیراعظم نے خفت مٹانے کیلئے تحقیقات کیلئے کمیشن بنایا لیکن چند کمزور لوگوں کو قربانی کا بکرا بناکر بڑے ڈاکوؤں کو بچانے کی کوشش کی جائے گی چونکہ ملک میں دوبارہ وحدانی طرز حکومت رائج ہوگیا ہے اس سلسلے میں تمام فیصلے ایک ہی ”مرکز“ میں ہورہے ہیں کئی بار وزیراعظم بھی ان فیصلوں میں شامل نہیں ہوتے انہیں بعد میں بتادیا جاتا ہے جس طرح زرداری نے انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں اپناواحد ٹارگٹ یہ بنارکھا تھا کہ کسی طرح وہ پانچ سال پورے کریں۔اسی طرح عمران بھی محض اپنی مدت پوری کرنے کے جتن کررہے ہیں تبدیلی توہواہوگئی ہے۔اس عرصہ میں زرداری نے بڑے بڑے طوفانوں کاسامنا کیا جس میں ایبٹ آباد آپریشن میمواسکینڈل توہین عدالت پروزیراعظم یوسف گیلانی کی برخاستگی کرپشن کے بڑے بڑے الزامات شامل تھے۔ایبٹ آباد آپریشن توبظاہر بڑی ہزیمت تھا لیکن اس پر چپ سادھ لی گئی اور موجودہ چیئرمین نیب جاوید اقبال کی سربراہی میں ایک نام نہاد کمیشن بنایاگیا جس نے حسب ضرورت رپورٹ دی لیکن یہ بھی حمود الرحمن کمیشن کی طرح چھپادی گئی اگرچہ اسامہ بن لادن کی مخبری کا الزام ڈاکٹرشکیل آفریدی پرلگایا گیا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ ایک اہل کار کو امریکہ نے اسامہ کی مخبری پر50لاکھ ڈالر کے انعام سے نوازا تھا جب موصوف امریکہ پہنچا تو اس نے اپنی بیش بہا دولت کی نمائش شروع کردی ایک ارب مالیت کا گھر اور اتنی ہی مالیت کی قیمتی گاڑیاں۔اس اہلکار کے خلاف آج تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی کوئی وقت آئیگا جب وہ تمام نام افشا ہونگے جنہوں نے انعام کے لالچ میں اسامہ کا سودا لگایا اور ڈالروں کے بدلے میں اپنی ریاست کیلئے رسوائی کا سبب بن گئے جو لوگ اس وقت اقتدار کوکنٹرول کررہے تھے وہ سارے ملک سے چلے گئے ہیں کوئی امریکہ میں کوئی آسٹریلیا اور کچھ دیگرممالک میں پرتعیش زندگی گزاررہے ہیں لیکن اسکے باوجود میمواسکینڈل زرداری کیخلاف کھڑا کیا گیا اس سے پہلے کہ حاضر سروس صدر کی گرفتاری عمل میں آتی کچھ بیرونی طاقتوں نے مداخلت کی اور صدرصاحب رسوائی سے بچ گئے میمواسکینڈل کے مدعی میاں نوازشریف تھے انہیں بری طرح استعمال کیا گیا بدلے میں ایک مرتبہ انہیں اقتدار دیا گیا لیکن زرداری سے زیادہ رسوا کرکے ہمیشہ کیلئے سیاست سے خارج کردیا۔
2008ء سے2013ء تک جو اہم واقعات حادثات اور بیرونی مداخلت رہی یہ تمام اہم راز آصف علی زرداری کی ڈائری میں محفوظ ہیں جو انہوں نے لندن میں چھپارکھی ہے ہوسکتا ہے کہ وہ کبھی ان رازوں پرسے پردہ اٹھائیں لیکن فی الحال زرداری علیل ہیں اور انہوں نے بلاول ہاؤس میں خود کو قرنطینہ کرلیا ہے کئی روز سے زرداری کے مخالفین انکی موت کی افواہ پھیلارہے تھے اس افواہ کو سچ جان کر معاشرہ کا ایک طبقہ خوشی سے سرشار تھا۔اگرچہ زرداری کئی امراض کاشکار ہیں جس میں اعصابی کمزوری سرفہرست ہے نوازشریف کے دور میں انکی زبان کاٹ کر جس طرح انہیں بہیمانہ تشدد کانشانہ بنایا گیا اس کی وجہ سے انکے عوارض میں اضافہ ہوگیا اس میں کوئی شک نہیں کہ زرداری کرپشن کے سنگین الزامات اور اختیارات مرکز سے چھین کر صوبوں کو دینے کی وجہ سے مخالفین کے اندر اور صوبہ پنجاب میں کافی غیر مقبول ہیں مخالفین نے عوام کے اندر انہیں ولن اور کھلنائک کے طور پر پیش کیا ہے لیکن سندھیوں کی مجبوری ہے کہ وہ زرداری کا ساتھ دیں اگرزرداری نہ رہے تو سندھیوں کی سیاسی طاقت ختم ہوجائے گی اور بے شمار طاقتیں ”گرگ باراں دیدہ“ کی طرح اس صوبہ پر حملہ آور ہونگی حالانکہ جو انڈی جینٹس سندھی ہیں زرداری انہیں بھی ایک آنکھ نہیں بھاتا وہ جس طرح پنجاب کے لوگوں میں ناپسند کئے جاتے ہیں اسی طرح سندھ کے ”سمارٹ“ آبادی کیلئے بھی وہ پسندیدگی نہیں رکھتے لیکن مجبوری یہ ہے کہ سندھ کیلئے وہ ایک قلعہ کی حیثیت رکھتے ہیں جب یہ قلعہ ”ڈھے گیا“ تو وہ اس وقت سندھ کیلئے ایک المیہ سے کم نہ ہوگا زرداری نے جب سے18ویں ترمیم منظور کی ہے وہ طاقت کے عناصر کیلئے بھی قابل قبول نہیں رہے لیکن جب تک سندھ ایک بارپھر فتح نہیں ہوگا زرداری کافیکٹرختم نہیں ہوسکتا۔ زرداری کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ انہوں نے سندھ کے حالات بدلتے اور غریب عوام کے بھلے کیلئے موثر اقدامات نہیں کئے اگرچہ 2018ء کے انتخابات میں متنازعہ تھے لیکن پھر بھی لیاری پیپلزپارٹی کے ہاتھوں سے نکل گیا اور لاڑکانہ بھی پیپلزپارٹی کاگڑھ نہ رہا زرداری کو چاہئے کہ وہ اب بھی آنکھیں کھولیں اور باقی ماندہ مدت ایک موثر حکمت عملی کے ذریعے سندھ کی ترقی کو یقینی بنائیں ورنہ انہیں انتہائی ناموافق حالات کاسامنا کرنا پڑے گا عین ممکن ہے کہ جب سندھ کی حکومت برخاست کی جائے تو عوام اس کیلئے کوئی آواز نہ اٹھائیں ویسے بھی ملک میں عملاً ایوب خان والا نظام دوبارہ رائج ہوگیا ہے طاقت کے عناصر بڑی تیزی کے ساتھ مضبوط مرکز کی طرف رواں دواں ہیں اگر ان کا بس چلے تو وہ صوبوں کے اختیارات بھی اپنے ہاتھوں میں لیکر اختیارات کی تقسیم کا سورج غروب کردیں بہر حال یہ جو بھی کریں کا سہ گدائی طویل عرصہ تک دامن نہیں چھوڑے گا کیونکہ ملک کے معاشی حالات بہت زیادہ خراب ہیں۔اگرچہ عمران خان کی حکومت کے حالات بھی اچھے نہیں ہیں لیکن اسے زبردستی چلایاجارہاہے۔کابینہ کے اندر اختلافات بہت بڑھ گئے ہیں وزراء ایک دوسرے کیخلاف بیانات دے رہے ہیں حتیٰ کہ سول ایوی ایشن کے وزیرغلام سرور خان نے کہا کہ وہ کابینہ کے کئی ارکان کو نہیں جانتے پتہ نہیں انہیں کہاں سے لایا گیا ہے سائنس کے وزیر فوادچوہدری اور قانون کے وزیرفروغ نسیم بھی ناراض ہیں جبکہ ق لیگ کے وزیر نے کابینہ اجلاسوں کا بائیکاٹ کررکھا ہے بابر اعوان کو مشیر بنانے کامطلب مزید سازش لڑائیاں اور دست گریبان ہونا طے ہے لیکن جب تک طاقت کے عناصر اپنی آہنی گرفت جاری رکھیں گے تو وفاقی وزراء کیا بھان متی کاکنبہ بھی اکٹھے رہنے پر مجبور رہے گا لیکن تابع کئے زورزبردستی سے معاملات چلانے سے گڈگورننس توقائم نہیں ہوگی معاشی حالات ٹھیک نہیں ہونگے کرونا کی وجہ سے جو کروڑوں لوگ بیروزگار ہوگئے ہیں ان کو روزگار نہیں ملے گا معیشت کی کشتی تو پہلے سے ڈوبنے کے قریب تھی لیکن اب اس کا ذمہ دار کرونا کوقرار دیا جارہا ہے اس سے حقیقت تو نہیں بدل سکتی۔حکومت کی ناکامی تو کامیابی میں بدل نہیں سکتی بجٹ کے بعد ایک بار پھر وفاقی کابینہ میں تبدیلی لائی جائے گی لیکن اس سے کونسے مسائل حل ہونگے آئندہ سال اس لئے تباہی لیکر آئے گا کہ تمام رکے ہوئے قرضوں کی اقساط ادا کرنا پڑیں گی۔تب تک حکومت اپنے تمام قیمتی اثاثے بیچ کر گزارہ چلائے گی۔
لیکن دوسو ارب روپے کا جو قرضہ حال ہی میں مارکیٹ سے حاصل کیا گیا ہے وہ مشکوک ہے۔شک ظاہر کیاجارہا ہے کہ اسکی ضمانت کے طور پر کوئی بہت ہی قیمتی اثاثہ رکھ دیا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں