مستحکم ابہام، بھیانک انجام

تحریر: راحت ملک
2013 کے دوران سیاست کے اپنے نیوکلیس میں اور پھر اس نیوکلس میں غیر سیاسی مداخلت کا ایک فائدہ بہر طور یہ ہوا ہے کہ پس منظر اب پیش منظر میں بدل چکا ہے۔ البتہ اس عمل سے پاکستان کی ساخت تعمیر و تعبیر اور تشکیل کے متعلق ابہام زیادہ شدت سے بڑھ گیا ہے
نصابی سطح پر ہی سہی سیاسیات کے مقامی و عالمی محققین اس سوال کو زیر بحث لا سکتے ہیں کہ مملکتِ پاکستان کو آئینی پارلیمانی ریاست کے زمرے میں شمار کیا جائے یا ایک وفاقی ملک تسلیم کیا جاسکتا ہے یا یہ محض آئین کے ہوتے ہوئے شاہانہ وحدانی طرز حکمرانی رکھنے والا ملک ہے؟ جو اپنے قیام کی اساسی دستاویز مقاصد کے واضع اظہار کے باوصف مختلف الخیال سیاسی تصورات کی تجربہ گاہ بنا ہوا ہے۔تاحال کسی واحد مرکزی نقطہ نظر کی تلاش میں ہے؟؟
اس نوعیت کے دیگر بہت سے سوالات پاکستان کی سیاسی تاریخ کے تجزیاتی مطالعہ کا حصہ ہو سکتے ہیں مگر موجودہ حکومت اور اس کی طرز حکمرانی کا شکریہ کہ اس نے پہلے سے موجود فکری ابہامات کی بحث کا رخ موڑ دیا ہے اور اب سوال یہ اُٹھ رہا ہے کہ کیاپاکستان میں کوئی واحد مقتدرہ و حاکمیت اعلیٰ وجود رکھتی ہے؟؟؟
کرونا بحران نے دیگر حکومتی اقدامات نقائص کی پردہ پوشی کے علاوہ اس کے احسن پہلوؤں کو بھی مزید تاریکی میں دھکیلا ہے۔ حکومت 20 فروری سے ہی کرونا کے متعلق غیر سنجیدہ تھی۔ ہر سطح پر ایک متفقہ سریع الجہت پلان بنا کر آنے والے وبائی بحران سے نبردآزمائی کے متعلق کسی بھی قابل ستائش عزم،ارادے اور تصور سے عاری رہی۔ عجلت پسندی یا پھر غفلت شعار طریق پر عمل پیرائی اس پہ مستزاد تھی جس سے عمومی تاثر ابھرا کہ یا تو کرونا کوئی بھیانک وبائی مرض نہیں جس کو سنجیدگی سے لیا جانا ہے یا پھر یہ کہ شاید حکومت کرونا کے پھیلاؤ میں کسی گہری تزویراتی حکمت عملی کے تحت دلچسپی رکھتی ہے!! جس کا ادراک تو ممکن ہے اظہار البتہ ناممکن۔چنانچہ مختلف اور متضاد بیانات کے علاوہ بہت سے منتشرالخیال اقدامات وسیع سطح پر مشاہدہے میں آئے۔ کبھی لاک ڈاؤن کو واحد ممکن حل بیان کیا گیا لیکن اسے ناقابل عمل ثابت کرنے کی مدبرانہ سعی بھی جاری رہی اور آبتک مرکزی کابینہ کا باضابطہ طور پر ملک بھر میں لاک ڈاؤن بافذکرنے کرنے کا فیصلہ سامنے نہیں آ سکا۔ لاک ڈاؤن کی ستائش بعض حکومتی افراد نے ضرور کی تو بھی وزیراعظم کا موقف مختلف ہی رہا وہ لاک ڈاؤن کو روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں کے لیے موت کے مترادف سمجھتے رہے۔ بلاشبہ محنت کشن دیہاڑی دار طبقے اور کمزور مالی حیثیت رکھنے والے افراد کے لیے روزگار کی بندش جان لیوا عذاب ہوتی ہے یہاں جو سوال تھا وہ ریاستی کردار کو مبہم بناتا رہا کہ کیا لاک ڈاؤن یا سماجی فاصلے کے ماسوا کوئی دوسری موثر ترکیب موجود ہے؟ کسی آفت کی صورت میں عوام کی کفالت ریاست کی بنیادی ذمہ داری نہیں؟؟
کیا ملک میں موجود معاشی تفریق کرونا کے ساتھ ملک میں داخل ہوئی ہے یا یہ کیفیت پہلے سے ہی موجود تھی؟ کیا معاشی تقاوت لاک ڈاؤن کی پیدا کردہ ہے یا ریاست کی ترجیح اور رائج اقتصادی حکمت عملی کے نتیجے میں فروغ پذیر ہوئی ہے؟
ان سوالات پر براہ راست رائے دینے اور معاشی سانچے کے غیر انسانی پن کو بدلنے کا احساس کرکے نئی اور مبنی بر انصاف معاشی پالیسی اپنانے کی بجائے محض غرباء کی بھوک کے ہاتھوں مر جانے کے ہمدردانہ بیانات پر اکتفا کیا۔نرم خو انداز بیان سے ایسا لائحہ عمل اپنانے کا ارادہ کیا جس سے محنت کشوں اور نچلے متوسط طبقے سمیت ہر کسی کے لیے کرونا سے متاثر ہونے کا راستہ آسان بنایا گیا۔ یہ ابہام خیالی اگر حکومت تک محدوررہتی تو غنیمت ہوتی ستم یہ ہوا سپریم کورٹ کے 18 مئی کے حکم تبصرے نے واضح کردیا کہ ابہام تمام ریاستی اداروں میں گہرائی سے سرایت کر چکا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق عدالت عظمٰی نے حکم دیا کہ ملک بھر میں بند تمام کاروبار فوری کھول دئیے جائیں۔(لاک ڈاؤن ختم کیا جائے)کیونکہ کاروبار بند رکھنا یا (کرانا) غیر آئینی عمل ہے۔تاہم آئین ریاست کو جس طرح تمام شہریوں کی صحت عامہ اور زندگی محفوظ بنانے کا پابند کرتا ہے اسے حکم میں دھندلا دیا گیا۔عدالت کے خیال میں ” پاکستان میں کرونا وباء موجود نہیں لہذا (بچاو کے نام) پر اس کے لیے کثیر رقم خرچ کرنے کا بھی جواز نہیں "
چنانچہ پورے ملک میں جائز طور پر جس تاثر بلکہ حتمی رائے نے جنم لیا اور عمل میں ڈھلی وہ تھی ” لاک ڈاؤن ختم ہوگیا ہے۔
دلچسپ بات یہ رہی کہ سوموٹو اختیار ٍ سماعت کے مقدمہ میں محو بالا فیصلوں کے متعلق حکومت پاکستان کے لا ء افسر اٹارنی جنرل نے اگلے ہی روز ہوئی سماعت میں موقف اپنایا کہ ” عدالتی حکم سے تاثر ملا ہے کہ کرونا کوئی سنجیدہ مسئلہ نہیں۔ جناب اٹارنی جنرل نے عدالتی احترام ملحوظ رکھتے ہوئے استدعا کی کہ معاملے کو سنجیدہ لیا جائے۔یہ جملہ بہت گہری معنویت رکھتا ہے۔ اے جی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ” اگلے ماہ یعنی جون کے دوران وائرس میں شدت آئے گی "۔یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کونسی وباء میں شدت آنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا؟کرونا وباء کی موجودگی سے تو قابل احترام عدلیہ پہلے ہی انکار کر چکی تھی؟؟
سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ” لاک ڈاؤن پہلے جیسا موثر نہیں رہا۔ ” یہ بھی شائستگی سے کہی گئی بات تھی کہ عدالتی حکم نے لاک ڈاؤن کو زائل کر دیا ہے۔ جناب چیف جسٹس نے کہا ” یہ کاروبار ہماری وجہ سے نہیں کھل رہا۔ ” بلکہ پولیس رشوت لے کر دکانیں کھولنے کی اجازت دے رہی ہے۔بصد احترام عرض کرنا ہے کہ جناب سندھ میں جاری لاک ڈاؤن عدالتی حکم سے غیر موثر ہوا ہے اگر انتظامیہ کا رویہ نرم یا کرپشن والا ہوتا تو لاک ڈاؤن کیخلاف مرکزی حکمران پارٹی واویلا کیوں مچاتی؟ عدالت نے بھی تو کہا تھا ” کاروبار بند کرانا آئین کے خلاف ہے اسی لیے تو سیل شدہ دکانیں بھی کھولنے کا حکم صادر ہوا۔ اس صورتحال میں صرف ایک بات ثابت ہوئی ہے کہ ابہام پسندی تمام اداروں میں سرایت کرچکی ہے۔محکمہ لیبر ملک بھر میں تمام کاروباری اداروں دکانوں کو سرکاری فیس وصول کرکے ہفتہ وار ناغے کی پابندی کا سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے۔ جس کی خلاف ورزی پر لیبر انسپکٹر جرمانہ عائد کرنے کا قانونی مجاز افسر ہے۔کیا یہ قانونی اقدام (ہفتہ وار تعطیل) آئین کی اس روح سے متصادم تو نہیں ہوگا جس کا عدالت عظمیٰ نے سہارا لیتے ہوئے بلا تعطیل کاروبار کھولنے کا حکم دیا ہے؟ عدالتی فیصلے بارے اٹارنی جنرل کا انداز ٍ نظر ناقدانہ تھا جبکہ وزیراعظم نے 19 مئی کو اس کی توصیف کی اور اسے ” عوامی جذبات کا عکاس ” قرار دیا۔ ابہام کا پہلو یہ ہے کہ اے جی صاحب نے عدالت میں حکومت کے کس موقف کی نمائندگی کی تھی؟وزیراعظم نے بھی فیصلہ کی حمایت قانون کے تناظر میں نہیں کی تھی بلکہ اسے عوامی امنگوں کا ترجمان کہا تھاجو بذات خود دلچسپ پہلو ہے اس بیان کی لفظیات سے حکومت سمیت پاکستان میں اختیارات کی ٹرائی کاٹمی میں پایا جانے والا کچھاؤ ظاہر ہوا ہے میں جسے محتاط طور پر ابہام کہہ رہا ہوں۔ کیونکہ آئین میں تو تمام اداروں کے اختیارات و حدود کا تعین ہوچکا ہے۔ لگتا نہیں کہ ٹرائیکا آئینی بندوست کے اس تقسیم اختیارات سے مطمئن ہے اگر ایسا نہیں تو پھر ابہام کیونکر ہے؟
وضاحت کی گئی کہ کاروبار صرف عید کی خریداری کے لیے کھولے گئے ہیں۔
لگتا ہے کرونا کے ساتھ بھی اعلیٰ سطحی این ار او ہوا ہے کہ رمضان کے آخری ایام اور عید کے دنوں میں کرونا پاکستان کا رخ نہیں کرے گا۔!!!!!
مگر ٹھہرئیے صاحب ہمارا تو دعوی ٰ تھا کہ پاکستان میں کرونا نہیں ہے۔ تو پھر 10 جون تک سماعت ملتوی کرنے کا کیا مقصد اس کے سوا کیاہو سکتا ہے کہ حکم عبوری مدت کے لیے حتمی فیصلہ سماعت مکمل ہونے کے جاری ہوگا۔ کیا اس طور سے سماجی فاصلہ ختم ہوجانے اگر کسی کی صحت و زیست کو گزند پہنچی تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ عید تیک کھولے گئے بند کاروبار کے لیے کرونا سے بچاؤ کی ایس او پیز کی تیاری اور مکمل عملدرآمد کا قانونی مفہوم اخذ کیا جانا چاہیے؟؟
مارکیٹس کھولنے کے لیے ایک جانب طبی ماہرین سے مشورے کا حکم بھی دیا گیا تو دوسری جانب سندھ حکومت کی مشاورت کی استدعا مسترد بھی ہو گئی۔۔ جس میں طبی ماہرین سے مشاورت کے لیے مہلت مانگی گئی تھی۔سماجی فاصلہ رکھنے کے ایام میں فیصلوں میں قانون سے فاصلے کی روایت بھی شعوری کوشش نہیں بلکہ ذہنوں میں سرایت شدہ کشمکش سے درآیا ابہام فعال کردار ادا کرہا ہے۔
مبہم پالیسیوں سے ڈر محسوس کرنا بہر طور انسانی فطرت ہے۔ میں انسان ہوں اور پاکستان کا شہری بھی اس لیے مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے !!!!

اپنا تبصرہ بھیجیں