پل صراط
تحریر: انور ساجدی
تباہ کن سیلاب کے بعد وفاقی حکومت کو جو امداد ملی اس نے بلوچستان حکومت کو اس سے محروم رکھا جس کی وجہ سے صوبہ کے نشیبی علاقہ نصیر آباد ڈویژن کے بعض حصوں میں جو تباہی آئی اس کے اثرات اب تک موجود ہیں اب جبکہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے نام پر جنیوا کی عالمی کانفرنس میں جو امداد دینے کا اعلان کیا گیا ہے اگر یہ امداد مل گئی تو بلوچستان کو خاطر خواہ حصہ نہیں ملے گا کیونکہ وفاق یہ سمجھتا ہے کہ بلوچستان شدید مالی بدانتظامی کا شکار ہے اس میں صلاحیت نہیں کہ وہ سیلاب متاثرین کی دوبارہ آباد کاری کرسکے جنیوا کانفرنس میں بوجوہ وزیراعلیٰ قدوس بزنجو شرکت نہ کرسکے اور ان کی جگہ صوبہ کے جہاندیدہ اور انتہائی تجربہ کار چیف سیکریٹری مسٹر عبدالعزیز عقیلی نے حصہ لیا اور ایک تفصیلی رپورٹ پیش کردی بلوچستان اور پشتونخواء کے صوبے پہلے سے شدید مالیاتی خسارے کا شکار ہیں بلکہ خیبرپختونخواء عملاً دیوالیہ ہوچکا ہے جبکہ بلوچستان کے پاس بھی سرکاری ملازمین کو تنخواہ دینے کے لئے رقم نہیں ہے صوبہ کی سابقہ حکومتوں نے این ایف سی ایوارڈ کے تحت ملنے والی اربوں روپے کی رقم غیر ضروری اور غیر مفید منصوبوں پر خرچ کرکے اپنی تہی دامانی کی بنیاد رکھی بدانتظامی کا یہ حال ہے کہ درجنوں ڈیم جن پر اربوں روپے خرچ کئے گئے گزشتہ سیلاب کی وجہ سے ٹوٹ گئے، یہ ڈیم کسی مناسب منصوبہ بندی اور ماہرین کی رائے کے برعکس تعمیر کئے گئے تھے اگرچہ بلوچستان کو ڈیموں اور چلک ڈیمز کی اشد ضرورت ہے کیونکہ لاکھوں بور لگنے کے بعد اس کے زیر زمین پانی کی سطح بہت گرگئی ہے سولر پینل کی وجہ سے بور لگانا اور چلانا بہت آسان ہوگیا ہے اسی لئے لوگ بھیڑ چال کا شکار ہوکر قدم قدم پر بور لگارہے ہیں اگر اس کے لئے کوئی قانون نہیں بنایا گیا تو پورا بلوچستان بارکھان سے گوادر تک ایک صحرا میں تبدیل ہوجائے گا زیر زمین پانی کے ذخائر کو بچانے کیلئے لاتعداد چھوٹے ڈیموں کی ضرورت ہے لیکن بلوچستان کا محکمہ منصوبہ بندی یہ صلاحیت نہیں رکھتا کہ وہ مختلف شعبوں میں صوبوں کی ترقی کو ڈیزائن کرے غالباً یہ واحد صوبہ ہے جس کا محکمہ منصوبہ بندی تکنیکی ماہرین سے خالی ہے لہٰذا صوبے کے وسائل میں کتنا ہی اضافہ کیوں نہ ہو اس کے عوام کی حالت بدلنے والی نہیں ہے یہاں کے بیڈ گورننس کی وجہ سیاسی انجینئرنگ ہے جس کے ذریعے حقیقی اور شفاف انتخابات کے انعقاد سے گریز کیا جاتا ہے تاکہ تابع فرمان لوگوں کی ایک کھیپ اسمبلی پہنچے یہ دراصل بلوچستان کو غیر سیاسی عمل سے گزارنے کی ایک پریکٹس ہے تاکہ کوئی حقیقی نمائندہ صوبہ کے عوام کے حقیقی مسائل کو اجاگر نہ کرسکے صوبہ کے جملہ انتظامات طویل عرصہ سے کاسمیٹک طریقہ سے چلائے جارہے ہیں بظاہر اسمبلی کابینہ اور وزیراعلیٰ موجود ہیں لیکن انہیں وہ مقام و مرتبہ حاصل نہیں ہے جو باقی صوبوں کے منتخب نمائندوں اور اداروں کو حاصل ہے اسے بدقسمتی کہیئے یا کچھ اور کہ بلوچستان میں اپوزیشن سرے سے موجود نہیں ہے جو اپوزیشن ہے وہ فرینڈلی ہے اور مراعات کے حصول میں سرکاری اراکین سے بھی آگے ہے جس کی وجہ سے نام نہاد منتخب نمائندے ایک کل جماعتی حکومت کا حصہ ہیں جس کی بنیاد 1985ء کے بعد سے پڑی ہے۔
بلوچستان کے وسائل زرداری کے وضع کردہ نئے این ایف سی فارمولہ کے تحت کافی بڑھ چکے ہیں جو کھربوں میں ہیں اتنی بڑی رقم کے باوجود زمین پر اتنے حجم کی ترقی نظر نہیں آرہی ہے عوام ہر طرح کی سہولتوں سے محروم ہیں، اسپتالوں کی حالت زار یورپ کے اینمل ہینسڈری اسپتالوں سے بھی بدتر ہے جس کی وجہ سے بلوچستان کے عوام اپنے علاج و معالجے کیلئے کراچی کا رخ کرتے ہیں جس کے اخراجات ان کے بس سے باہر ہے بلوچستان میں غیر نمائندہ اور بے ضرر حکومتیں اس لئے قائم کی جاتی ہیں کہ وفاق کو اس کی زمین اور وسائل درکار ہیں جیسے کہ ساحل اور معدنی وسائل گوادر پورٹ کا معاہدہ جب چین سے ہوا تو بلوچستان کے وزیراعلیٰ سے پوچھا تک نہیں گیا اسی طرح ریکوڈ ک کی فروخت میں وزیر اعلیٰ سے دستخط تو لئے گئے لیکن انہیں بتایا نہیں گیا کہ اندر لکھا کیا ہے عمران خان نے اپنے دور اقتدار کے وسط میں سندھ اور بلوچستان کے پانچ جزائر کو عالمی سرمایہ کاری کیلئے پیش کرنے کا پلان بنایا تھا اسی مقصد کیلئے دبئی میں عالمی اداروں سے مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط بھی کئے گئے تھے لیکن بوجوہ یہ تباہ کن منصوبہ پائیہ تکمیل تک نہیں پہنچا جس کے بعد عمران خان نے راوی شہربسانے کا فیصلہ کیا۔
جو اگر شروع ہوا تو ہمارے بعد 2050ء کو پائیہ تکمیل تک پہنچے گا بلوچستان سیندک اور ساحل سے پہلے محروم ہوا لیکن ریکوڈک اور دیگر معدنیات سے حال ہی میں محروم ہوا ہے عجیب بات ہے کہ سندھ اور بلوچستان اسمبلی نے اپنے صوبوں کے اختیارات وفاق کو تفویض کئے جو 18 ویں ترمیم کی خلاف ورزی ہے جبکہ اس ترمیم کے خالق آصف علی زرداری ہیں اس طرح مرکز آئندہ جو بھی چاہے کرسکتا ہے اور صوبے اس کے پابند ہونگے کہ وہ ہرڈیل کو من و عن تسلیم کریں بلوچستان اسمبلی کے جملہ اراکین قرار داد کی منظوری کے وقت خاموش تھے اگر زابد ریکی کو سمجھایا جاتا تو وہ پہلے کی طرح بطور احتجاج اپنی قمیض نکال کراحتجاج ریکارڈ کرواسکتے تھے سندھ اسمبلی کو تو قرار داد کی منظوری کے وقت سانپ سونگھ گیا تھا حالانکہ حالیہ سیلاب نے سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کا پول کھول دیا تھا جہاں کئی مہینے بعد بھی متاثرین کھلے آسمان تلے بھوکے پیاسے بیٹھے ہیں بلاول روز غریبوں کا ذکر کرتے ہیں لیکن ان کی نظر بھی بے بس بھوکے اور ننگے سیلاب متاثرین پر نہیں جاتی اگر بے حسی کا یہی عالم رہا تو جنیوا میں کئے گئے وعدوں کے مطابق اربوں ڈالر ملے تو وہ حقداروں تک نہیں پہنچیں گے حالانکہ عالمی کانفرنس کا انعقاد تنہا بلاول کی کاوشوں کا نتیجہ ہے انہوں نے سیلاب کو لیکر بھرپور عالمی مہم چلائی تھی جس کی وجہ سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور ترقی یافتہ مغربی ممالک نے ایک ڈونرز کانفرنس کے انعقاد کا وعدہ کیا تھا انہی کوششوں کے نتیجے میں جنیوا کانفرنس منعقد ہوئی جو بنیادی طور پر ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے یعنی یہ طے ہوگیا ہے کہ آئندہ دنیا کے کسی بھی حصے میں کوئی قدرتی آفت آئے تو امیر ممالک اخلاقی طور پر اس کی مدد کے پابند ہونگے اگر جنیوا کانفرنس کے کے وعدے کے مطابق امداد دی گئی تو پاکستان کیلئے مالیاتی آسانیاں پیدا ہونگی اور ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل جائے گا اس کے علاوہ آرمی چیف کے دورہ سعودی عرب اور یو اے ای کا نتیجہ بھی جلد نکلے گا سابق وزیراعظم نے شہباز حکومت کی جانب سے بھیک مانگنے کے عمل کو شرمناک قرار دیا ہے لیکن وہ بھول گئے جب وہ سابق آرمی چیف کا ہاتھ پکڑ کر انہی ممالک کے پاس جاتے تھے تو وہ کیا تھا کیا عمران خان نے اس وقت کوئی لاج محسوس کی تھی وہ بھی معاشی بدحالی کی وجہ سے مجبور تھے اور موجودہ حکومت بھی اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ مجبور ہے۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ اعتماد کا ووٹ لینے میں ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں کیونکہ وہ اسمبلی توڑنا نہیں چاہتے جبکہ عمران خان ان پر مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں اب جبکہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ پرویزالٰہی کو اسمبلی میں اکثریت حاصل نہیں ہے عمران خان کا دباؤ ایک بدترین سیاسی بحران پیدا کرنے کا موجب بنے گا غالباً عمران خان بھی یہی چاہتے ہیں انہیں حالات کی کوئی پرواہ نہیں ہے وہ جلد انتخابات کروا کر اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں لیکن ایسا ہونے والا نہیں ہے انہیں لاتعداد مقدمات اور نااہلی کے خطرات کاسامنا ہے آئندہ انتخابات تک پہنچنے میں عمران خان کو پل صراط سے گزرنا پڑے گا۔