ریاست کا ڈیفالٹ عام آدمی کی نظر میں

تحریر :انورساجدی

ہم لوگ ہیں عام آدمی، پبلک یا عوام ہم ریاست کے پایہ تخت سے بہت دور رہتے ہیں اور حکمران ہمارے قریب نہیں ہیں اس لئے ہمیں علم نہیں کہ ریاست کیسے چل رہی ہے اس کے حکمران کیا فیصلے کررہے ہیں اور اپنی ریاست کو کس سمت لے جارہے ہیں البتہ حکمرانوں کے فیصلے ہم پر ضرور اثر انداز ہوتے ہیں، جب عام آدمی رات ختم ہونے کے بعد صبح پیٹرول پمپوں کا رخ کرتا ہے تو اچانک سے اسے یہ جھٹکا لگتا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں 35 روپے فی لیٹر اضافہ ہوچکا ہوتا ہے اس طرح ہر چند دن بعد بجلی اور گیس کی قیمتوں کا بوجھ بھی عام آدمی کو سہنا پڑتا ہے جبکہ وہ زندہ رہنے کے لئے جو اشیائے ضروریہ خریدنے جاتا ہے تو سرپکڑ کر بیٹھ جاتا ہے کہ اتنی مہنگائی کے بعد وہ اپنے بھوکے بچوں کا پیٹ کس طرح بھرے، اگرچہ اطلاعات عام آدمی کے پاس بھی ہوتی ہیں اور اس کے کانوں میں یہ آوازیں آتی ہیں کہ ملک دیوالیہ ہوگیا ہے، نئے قرضے نہیں مل رہے ہیں، دوستوں نے 75 سال تک امداد دے دے کر ہاتھ کھینچ لیا ہے، آخر کب تک وہ 25 کروڑآبادی کے ملک کو اپنی امداد سے چلائیں گے اس لئے حکمران اپنی مجبوریاں بتاتے ہیں کہ اگر عام آدمی پر بوجھ نہ ڈالیں تو ملک نہیں چل سکے گا اس کے ادارے زمین بوس ہوجائیں گے۔ بجلی گھر ایندھن نہ ہونے کی وجہ سے بند ہوجائیں گے جیسے کہ چند دن پہلے ہوئے تھے، کوئی ٹیکنیکل فالٹ نہیں آیا تھا، بجلی گھروں کو چلانے کیلئے کوئی کوئلہ، تیل اور فرنس آئل نہیں تھا اس لئے سارا ملک 24 گھنٹے تک تاریکی میں ڈوب گیا تھا، حکمران اپنی مجبوریاں گنواتے ہیں کہ اگر 2 کھرب روپے کے ٹیکسز عام آدمی پر نہ لگائیں، تیل، گیس اور بجلی کی قیمتیں نہ بڑھائیں تو ریاست نہیں چلے گی۔ سادہ لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ جنوبی ایشیاء کا دوسرا بڑا ملک عالم اسلام کا واحد ایٹمی طاقت دیوالیہ ہوگئی ہے۔ عام آدمی کو سمجھ میں نہیں آتا کہ جب ایٹم بم ہے تو یہ کیسے دیوالیہ ہوسکتا ہے کیونکہ حکمرانوں نے ایک دفعہ ملک ٹوٹنے کے بعد 50 سالوں میں یہی شیخی بگھاری ہے کہ ہمارے پاس ایٹم بم ہے، ہم سب سے بڑی طاقت ہیں، کوئی دشمن ہمارا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا لیکن کسی نے نہیں بتایا کہ ایٹم بم کوئی گندم، آٹا، گوشت اور سبزی نہیں ہے اور نہ ہی یہ پیسہ بنانے کی مشین ہے جو ملک کو دولت مند کردے، یہ الٹا ایک بوجھ ہے اور اس کی حفاظت پر سالانہ اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، حکمرانوں اور اس کے لے پالک اشرافیہ خود ایک آنہ قربانی دینے کیلئے تیار نہیں ہے، وہ ہر قربانی عام آدمی سے مانگتے ہیں، کوئی ان سے پوچھتا بھی نہیں کہ آپ لوگوں نے آخر وہ کونسی غلطیاں کی ہیں جس کی وجہ سے یہ ملک قلاش اور دیوالیہ ہوگیا ہے۔
مہنگائی کا سونامی لاکر حکمران کہہ رہے ہیں کہ اس بغیر آئی ایم ایف قرضہ منظور نہیں کرے گا، وہ بتاتے نہیں کہ آئی ایم ایف کتنا قرضہ دے گا اور اس کی بدولت کتنا وقت اور نکلے گا اور اس کے بعد کیا ہوگا، اس کے بعد پاکستان کیا بچ کر خود کفیل ہوجائے گا اور اس کی محتاجی ختم ہوگی، حکمران جتنا جھوٹ بولیں اب حقیقت کو نہیں چھپاسکتے کیونکہ حقیقت کو چھپایا بھی نہیں جاسکتا۔ریلو کٹا وزیر خزانہ اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کا ذمہ خدا نے خود اٹھایا ہے۔ اس لئے یہ ریاست رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔ وزیر باتدبیر نے یہ نہیں بتایا کہ خدا نے یہ ذمہ 1947 میں اٹھایا تھا یا 16دسمبر 1971 کو ٹوٹنے کے بعد خدا نے یہ ذمہ اٹھایا ہے یعنی اپنی غلطی کوئی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
ایک غلطی تو شروع سے ہوئی تھی جب حکمرانوں نے قرار دیا تھا کہ ایک صوبہ کے عوام اشرف المخلوقات ہیں باقی کمی کمین ہیں۔ انہوں نے 54 فیصد بنگالیوں کو بھی جانور سمجھ کر ان کے ساتھ حیوانوں کا سلوک کیا تھا جس کے نتیجے میں اکثریتی آبادی کو اپنے سے علیحدہ کرکے حکمرانوں نے یہ سمجھا کہ اس بوجھ کے ہٹنے کے بعد ہم خوشحال ہوجائیں گے ،ذوالفقار علی بھٹو کو قائد عوام بنا کر الو سیدھا کیا گیا لیکن سقوط ڈھاکہ کے 6سال بعد ان کا تختہ الٹ دیا گیا اور 4اپریل 1979 کو تختہ دار پر لٹکا کر نشان عبرت بنایا گیا۔
یہ ملک دیوالیہ ہورہا ہے اس کی بنیاد اسی وقت رکھی گئی تھی ، پھانسی کی کال کوٹھری میں لکھی گئی اپنی آخری کتاب میں بھٹو نے پیشگوئی کی تھی کہ میرے بعد ایسے آئینی، سیاسی اور معاشی بحران آئیں گے کہ انہیں کوئی بھی حل نہیں کرسکے گا۔
سو وہ وقت آگیا ہے ، بار بار آئین کو پامال کرنے، جعلی الیکشن کروانے اور جعلی حکومتیں مسلط کرنے کا تجربہ ناکام ہوگیا ہے۔ رہی سہی کسر عمران خان نے پوری کردی۔ انہیں 2018 کے انتخابات میں زبردست جھرلو کے ذریعے مسلط کیا گیا اور پھر خود ہی انہیں اقتدار سے علیحدہ کیا گیا۔ انہوں نے اپریل 2022 سے اب تک ایسے حالات پیدا کئے ہیں کہ نہ صرف ملک معاشی اعتبار سے دیوالیہ ہوگیا ہے بلکہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اس کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ اتنی بڑی ریاست 25 کروڑ لوگون کا ملک جو دنیا کی چھٹی بڑی فوج رکھتا ہے اپنے ایٹمی اسلحہ سمیت خطرات سے دوچار ہے۔ اس کا کوئی بیرونی دشمن نہیں ہے، اس کے سارے دشمن اندرونی ہیں وہ غلط پالیسیاں جنہوں نے اپنے ہی عوام کو زندہ درگور کردیا ہے اس کی ناکامی کا بنیادی سبب ہیں۔ ایک مضمون دیکھنے کو ملا کہ برطانیہ کی حکومت کے پاس کابینہ کے لئے صرف 45 گاڑیاں ہیں، پاکستان میں یہ تعداد 25 ہزار ہے۔ بیشتر سرکاری گاڑیاں دفتری اوقات کے بعد سڑکوں پر رواں دواں ہیں ۔ ایک صوبے کی گاڑیاں دوسرے صوبوں کے شہروں میں چل رہی ہیں۔ صرف پنشن کی رقم چار کھرب روپے ہے، بھلا اتنے دیوہیکل اخراجات کا بوجھ یہ ریاست کیسے اٹھا سکتی ہے۔
لہٰذا آخری کوشش کے طور پر تمام اخراجات کو منجمد کیا جائے، سیکورٹی کے خرچے کو نصف کیا جائے، نئی بھرتیوں پر پابندیاں عائد کی جائیں، ہمسایہ ممالک سے غیر جنگی دوستانہ معاہدے کئے جائیں، تجارت کے لئے ہمسایوں کو ترجیح دی جائے، پرائیویٹ بینکوں میں رکھے گئے ڈالر ضبط کئے جائیں اور نودولتیہ اشرافیہ نے جو لوٹ مار کی ہے ان کی جائیدادوں اور بینک بیلنس کو بحق سرکار ضبط کیا جائے۔ سرکاری استعمال کی تمام گاڑیوں کو فروخت کردیا جائے، وزراء کو مجبور کیا جائے وہ ذاتی گاڑیاں اور تیل استعمال کریں، صوبائی حکومتوں کے جو پرائیویٹ جہاز ہیں وہ بھی فروخت کئے جائیں ، ذاتی جیٹ رکھنے کی اجازت نہ دی جائے، پرائیویٹ اور جعلی ہائوسنگ اسکیموںکو بے گھر افراد میں تقسیم کیا جائے جو لاکھوں ایکڑ زمین الاٹ کی گئی ہے وہ الاٹمنٹ منسوخ کرکے زمین ہاریوں کے حوالے کی جائے۔
یہ تمام اقدامات باقی پاکستان کے لئے ہیں۔ بلوچستان چونکہ ریاست سے لاتعلق ہے جسے جبری طور پر ریاست نے اپنے سے لاتعلق کررکھا ہے۔ لہٰذا وہ کسی زمرے میں نہیں آتا ، بلوچستان کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا ہے اور حکومتوں نے یہاں پر دو کوڑی کا کام بھی نہیں کیا ہے۔ جو 50ہزار ارب ڈالر کے قرضے لئے گئے ہیں وہ سارے کا سارا دوسرے صوبوں پر خرچ کیا گیا ہے یا حکمران اور اس کی پارٹنر اشرافیہ لگائی گئی ہے لہٰذا بلوچستان کو ان قرضوں سے بری الذمہ سمجھا جائے۔ بلوچستان اور اس کے لوگوں کو معاف کرکے مسخ شدہ لاشوں اور لوگوں کو مسنگ کرنے کا سلسلہ ترک کیا جائے۔ ریاست ہر چیز سے بے شک اپنا ہاتھ کھینچ لے صرف لوگوں کے جینے کا حق تسلیم کرلے ، اگر یہ انقلابی اور بنیادی اقدامات نہ کئے گئے تو جو کچھ ہوگا وہ بہت بھیانک اور ناقابل یقین ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں