پراسرار حالات وواقعات

تحریر:انورساجدی

کراچی پولیس کے دفتر پر ٹی ٹی پی کا حملہ ایک علامتی کارروائی ہے کیونکہ اس کی سنگینی پشاور اور خیبرپختونخوا کے دیگر علاقوں میں ہونے والی دہشت گردی کے مقابلے میں کافی کم تھی، جانی نقصان زیادہ نہیں ہوا لیکن ’’سیکورٹی لیپس‘‘ اس بات کا ثبوت ہے کہ کراچی دہشت گردی کے حملوں کے لئے ہموار مقام ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ٹی ٹی پی نے اچانک بڑی جنگ کیوں چھیڑ دی ہے، اس کے بنیادی مقاصد کیا ہیں، آیا اس کے پیچھے کوئی بڑی اور تزویراتی گیم تو نہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب بہت ہی اوپر کی سطح کے لوگ دے سکتے ہیں، البتہ دنیا دیکھ رہی ہوگی کہ پاکستان کے تین صوبے میدان جنگ کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔ کے پی کے میں جو جنگ ہے وہ افغان صورتحال کے تناظر میں ہے جبکہ بلوچستان میں لڑائی مختلف عوامل کی وجہ سے ہے، سندھ کو ٹارگٹ بنانا ایک اور طرح کی صورتحال کی وجہ سے ہے۔
پاکستان کی داخلی حالات کو لیکر انڈیا کا میڈیا اسے اور رنگ دے رہا ہے اور اس کا تعلق پاکستان کے ایٹمی اثاثوں سے جوڑ رہا ہے اور یہ پروپیگنڈہ کررہا ہے کہ دنیا اس کا نوٹس لے رہی ہے اور پاکستان کے عدم استحکام پر سخت تشویش لاحق ہے، انہیں خدشہ ہے کہ کہیں ایٹمی اثاثے انتہا پسندوں اور مسلح جتھوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں، حالانکہ بظاہر حالات ایسے نہیں کہ ملک باقاعدہ خانہ جنگی کا شکار ہو، مکمل انارکی کی صورتحال ہو اور ریاست کمزور یا غیر موثر ہوگئی ہو، خراب حالات کے باوجود اہم ادارے اپنی جگہ موجود ہیں، جو اسٹرٹیجک اثاثہ جات ہیں ان کی نگرانی اور سیکورٹی محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور اس بات کا شائبہ نہیں کہ طالبان گروپس یا دیگر انتہا پسند ان تک رسائی حاصل کرسکیں۔ بھارتی میڈیا یہ دور کی کوڑی بھی لے آیا ہے کہ پاکستان کمزور معیشت کو لیکر عالمی برادری کو آنکھیں دکھارہا ہے اور شمالی کوریا جیسا رویہ اختیار کررہا ہے حالانکہ شمالی کوریا اور پاکستان میں کوئی مماثلت نہیں بنتی۔ شمالی کوریا مکمل طور پر آئسولیشن میں ہے، اس کے وسائل نہ ہونے کے برابر ہے، وہ صرف چین کی امداد پر زندہ ہے، وہ کافی عرصے سے ایٹمی اسلحہ بنارہا ہے، اس کا دعویٰ ہے کہ اس کے بیلسٹک میزائلوں کا رینج امریکہ تک ہے، وہ یہ دعویٰ بھی کررہا ہے کہ وہ اپنے خطرناک اسلحے کے ذریعے پورے کرہ ارض کو نیست ونابود کرسکتا ہے، وہ بارہا اپنے اسلحے کا ٹیسٹ کرچکا ہے لیکن امریکہ کی سربراہی میں سرمایہ دار دنیا اس کی بات سننے کو تیار نہیں اور نہ ہی اس کے بلیک میل میں آرہا ہے۔ شمالی کوریا سے فوری طور پر جاپان اور جنوبی کوریا کو خطرات درپیش ہیں جبکہ وہ چین کی مدد کیلئے سائوتھ چائنا سٹی میں فوجی کردار ادا کرسکتا ہے، اس کے مقابلے میں پاکستان شروع سے امریکہ اور مغرب کا اتحادی رہا ہے، اس نے سوویت یونین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے امریکہ سے بے مثال تعاون کیا اور نائن الیون کے بعد افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کیلئے امریکی جنگ کا حصہ بنا، اس کا فوجی ساز وسامان کا زیادہ حصہ امریکہ سے آتا ہے، پرزے پاٹ بھی وہاں سے آتے ہیں، پاکستان نے بہ یک وقت چین امریکہ سے متوازن تعلقات قائم رکھے ہیں اور البتہ چین کی طرف کچھ جھکائو زیادہ ہے کیونکہ چین نے ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول میں پاکستان کی بہت مدد کی ہے جبکہ سی پیک کی بدولت اس کی اقتصادی مدد بھی غیر معمولی ہے، البتہ عمران خان کے دور میں چین سے تعلقات سرد مہری کا شکار ہوگئے، اس کی وجہ یہ تھی کہ عمران حکومت نے سی پیک کو سرد خانے میں ڈال دیا جس کی وجہ سے چین ناراض ہوگیا جبکہ پی ڈی ایم کی حکومت نے سی پیک کی بحالی کیلئے کوششیں شروع کردی ہیں ،اس کی پوری کوشش ہے کہ چین کا اعتماد بحال ہوجائے لیکن بوجوہ چین نے پاکستان کی معاشی امداد کو آئی ایم ایف کے قرضوں سے مشروط کردیا ہے، یہی شرط سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے عائد کی ہے، یو اے ای تو خواہاں ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن معاہدہ ہوجائے تاکہ جنوبی ایشیاء جنگ اور ایٹمی اسلحہ کے استعمال کے خطرات سے آزاد ہوجائے لیکن پاکستانی مقتدرہ سردست بھارت سے ایسے معاہدے کے حق میں نہیں ہے۔ باجوہ سر نے تو کچھ رضامندی ظاہر کی تھی لیکن نئی قیادت اس موڈ میں نہیں ہے، باالفرض محال اگر دونوں ممالک کے درمیان امن معاہدے کی بات چلے تو کوئی بھی فریق ایٹمی اسلحہ تلف کرنے کیلئے راضی نہیں ہوگا خاص طور پر انڈیا بالکل نہیں ہوگا کیونکہ امریکہ یقین رکھتا ہے انڈیا کو چین کے مقابلے کیلئے تیار کیا جاسکتا ہے چنانچہ انڈیا بولتا ہے کہ اس کا جنگی سازوسامان چین کے خلاف ہے پاکستان کے نہیں، پاکستانی قیادت رائے عامہ سے خوفزدہ ہے کیونکہ جس حکومت نے بھی ایٹمی ہتھیار تلف کردیئے عوام اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونگے حالانکہ عمران خان اس بات کے حق میں تھے کہ انڈیا سے دشمنی ختم کی جائے، اس سے دو طرفہ تجارت کے ذریعے فائدہ اٹھایا جائے لیکن پہلے اعلیٰ حکام نہیں مانے اور بعد میں عمران خان بھی بدل گئے۔
کچھ عرصہ قبل اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو ایک فنکشن میں کہہ رہے تھے کہ انہیں ایران اور پاکستان کا ایٹمی اسلحہ کسی صورت گوارہ نہیں کیونکہ یہ اسلحہ اسرائیل کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے اس لئے اسرائیل کو جب بھی موقع ملے وہ کارروائی ضرور کرے گا۔
اس کے بعد پاکستان کا ایٹمی پروگرام دوبارہ زیر بحث آیا، مخالفین کہنے لگے کہ چین نے چشمہ کے مقام پر ایٹمی توانائی کے جو پلانٹ لگاکر دیئے ہیں وہ بہت خطرناک ہے، اس طرح کینوپ کی دوبارہ بحالی بھی مخالفین کیلئے پریشان کن ہے حالانکہ دنیا کے کئی ممالک ایٹمی توانائی سے استفادہ کررہے ہیں، اب یہ معلوم نہیں کہ چین نے چشمہ میں 7 ارب ڈالر کی مالیت سے جو پلانٹ بنائے ہیں وہ قرضہ ہے یا اس کی ادائیگی کردی گئی ہے کیونکہ چین کا قرضہ بہت بڑھ گیا ہے اور پاکستان اس پوزیشن میں نہیں کہ موجودہ صورتحال میں ان قرضوں کی ادائیگی کرسکے چنانچہ آئندہ کچھ عرصے میں یہ معاملہ آئے گا، چین زیادہ سے زیادہ قرضوں کی ادائیگی ری شیڈول کرسکتا ہے، معاف نہیں کرسکتا یا اس کے بدلے میں پاکستان سے کچھ اور طلب کرے گا لیکن بجلی کمپنیوں کا قرضہ ناقابل برداشت ہوگیا ہے اس کی وجہ سے پاکستان ڈیفالٹ کرگیا ہے، یہ ڈیفالٹ بھاری قرضہ جات کی ادائیگی سے معذوری ہے، البتہ عالمی قرضوں کی اقساط ادا کی جارہی ہیں تاکہ پاکستان کو عالمی سطح پر ڈیفالٹ ڈکلیئر نہ کیا جائے چنانچہ کمزور معیشت کی گھمبیر صورتحال میں ٹی ٹی پی کے تابڑ توڑ حملے بہت خطرناک ہیں اور خاصا پراسرار بھی، اگر کوئی بڑی سیکورٹی لیپس ہوگئی تو بہت بڑی انہونی ہوسکتی ہے جس کے بعد پاکستان سے اہم مطالبات کئے جاسکتے ہیں، اوپر سے انڈیا اسرائیل مل کر آسمان سر اٹھائیں گے، اگرچہ 28 مئی 1998ء کو پاکستان کے ایٹمی دھماکے نواز شریف نے کئے تھے ،اتفاق سے جس دن دھماکے ہوئے اگلے دن پاکستان دیوالیہ ہوچکا تھا، نواز شریف حکومت نے لوگوں کے ڈالر اکائونٹس ضبط کرکے کام چلایا تھا، بدقسمتی سے آج نواز شریف کے بھائی کے دور حکومت میں نواز شریف کے قائم کردہ میراث کو خطرات لاحق ہیں۔
عمران خان کی معزولی کے بعد شہباز حکومت جو آئی ہے تو یہ جونیجو اور راجہ پرویز اشرف کی حکومت سے بھی کمزور ہے، اوپر سے عمران خان بارودی سرنگیں بچھاکر گئے ہیں جس کی وجہ سے یہ حکومت ہر روز حادثات کی زد میں آرہی ہے، خود عمران بھی زخمی لنگڑیال ہیں یعنی ساری قیادت بند گلی میں پہنچ گئی ہے، اگر استحکام نہ آیا تو نہ صرف باقاعدہ ڈیفالٹ کا خطرہ بڑھ جائے گا بلکہ ایٹمی اثاثوں کو عالمی سپردگی میں دینے کا دبائو بھی بڑھے گا۔ آئی اے ای کے سربراہ کا حالیہ دورہ اور اہم سائٹس کے معائنہ سے کافی خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ تحریک انصاف نے تو یہ کہا ہے کہ شہباز حکومت کوئی خطرناک کھیل کھیل رہی ہے حالانکہ کمزور شہباز شریف نے کیا کھیل کھیلنا ہے، اصل کھیل تو زرداری اور عمران خان کھیل رہے ہیں، انہی کو اصل بات کا پتہ ہے کہ کیا ہونے والا ہے، فی الحال سیاستدانوں کو آپس میں اور عدلیہ کے ساتھ الجھایا جارہا ہے تاکہ اصل معاملات تک دھیان نہ پہنچنے، یہ جو جیل بھرو تحریک یا گرفتار کرکے چھوڑنے والا معاملہ ہے یہ سب سطحی باتیں ہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں