پاکستان کا جمہوری نظام اور دائمی ادارے

نصرت جاوید
پاکستان میں ’جمہوری نظام‘ کے عنوان سے جو جھانسہ تشکیل دیا جاتا ہے اس کی تشکیل میں پنجاب کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔آبادی کے اعتبار سے اس سب سے بڑے صوبے میں ایک صنعت کار گھرانے سے نواز شریف 1980ء کی دہائی میں ابھرے۔ ’فرسودہ اور نااہل سیاستدانوں‘ سے اکتائی عسکری اشرافیہ کو ان کا چہرہ ’نئے نظام‘ کی تعمیر کے لیے بہت بھایا۔ان کی ہر انداز میں سرپرستی ہوئی۔
پرانے سیاست دانوں میں سے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکادینے کے بعد ’نظامِ نو‘متعارف کروانے کو بے چین دائمی اداروں نے بتدریج دیگر قدآور سیاست دانوں کو بھی طویل مارشل لاء کے ذریعے مفلوج بنادیا۔ان کی جگہ لینے کو مقامی حکومتوں کی بدولت ’جی حضوریوں‘ کی جو کھیپ تیار ہوئی انھیں اقتدار میں تھوڑا حصہ دے کر ’شراکت دار‘بناتے ہوئے 1985ء میں ’غیر جما عتی‘ انتخاب کے ذریعے جمہوری جھانسہ بحال کرنے کی کاوش ہوئی۔جنرل ضیاء کے نامزد کردہ وزیر اعظم-محمد خان جونیجو- مگر خود کو باختیار ثابت کرنے کو ڈٹ گئے۔انھیں قابو میں رکھنے کے لیے نواز شریف کی مزید سرپرستی لا زمی قرار پارئی۔ بالآخر عوام کے منتخب کردہ نمائندوں سے ’شراکت داری‘ کا جو نظام بہت چ آ سے تشکیل دیا گیا تھا وہ مئی 1988ء میں اپنے خالق ہی کے ہاتھو ںمسمار کردیا گیا۔ مذکورہ نظام کے خاتمے کے بعد ’حقیقی اسلام‘ لاگو کرنے کا ارادہ تھا۔ 17 اگست 1988ء کے فضائی حادثے نے مگر یہ مشن مکمل ہونے نہیں دیا۔ نئے انتخاب سے فرار کی کوئی راہ باقی نہ رہی۔
نئے انتخابات کا عمل شروع ہوا تو ٹھوس وجوہ کی بنا پر تاثر یہ ابھرا کہ مارشل لائ￿ کی مسلسل مزاحمت کی بدولت محترمہ بے نظیر بھٹوکی انتہائی محنت ولگن سے زندہ رکھی پیپلز پارٹی 1988ء کے انتخاب واضح اکثریت سے جیت جائے گی۔بھٹو کی بیٹی واجب خدشات کی وجہ سے محمد خان جونیجوسے کہیں زیادہ ’خطرناک‘ سمجھی جاتی تھیں۔ انھیں اڑان بھرنے کا موقع فراہم کرنا ’قومی سلامتی‘کے بارے میں فکر مند اداروں کو قبول نہیں تھا۔پیپلز پارٹی کے پرکاٹنے کو لہٰذا راتوں رات بے تحاشہ ’نظریاتی اور اصولی‘ اختلافات میں تقسیم ہوئی بقیہ جماعتیں ’اسلامی جمہوری اتحاد(آئی جے آئی)‘ میں یکجا کروادی گئیں۔ مذکورہ اتحاد کی بدولت پیپلز پارٹی مرکز میں بھاری بھر کم اکثریت نہ حاصل کرپائی۔ پنجاب میں بھی وہ صوبائی حکومت تشکیل دینے کے قابل بھی نہ ر ہی۔
انتخابی عمل کو انتہائی منظم انداز میں مینج کرلینے کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کو وزیر اعظم کا حلف اٹھانے سے قبل ان کی ’محدودات‘ سے آگاہ کردیا گیا۔ ایوانِ صدر میں وہ غلام اسحاق خان کو براجمان رکھنے کو مجبور ہوئیں۔ افسر شاہی سے ابھرے اس ’منتخب صدر‘کو وہی اختیارات میسر رہے جو ضیاء الحق فوجی وردی پہنے استعمال کرتے رہے تھے۔ ’افغان پالیسی میں تسلسل‘یقینی بنانے کے لیے صاحبزادہ یعقوب علی خان وزیر خارجہ کے منصب پر بٹھائے گئے۔ آئی ایم ایف کی عائد کردہ شرائط پر کامل عمل درآمد کے لیے افسر شاہی سے ابھرے وی اے جعفری وزارت خارجہ کے مدارالمہام ہوئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت مسلط کردہ سمجھوتوں پر رضا مند ہونے کی وجہ سے اصولی طورپر بے اختیار ہی رہی۔ دکھاوے کی یہ ’منتخب حکومت‘بھی لیکن ٹکنے نہیں دی گئی۔ اسے کمزور تر بنانے میں بھی نواز شریف نے کلیدی کردار ادا کیا۔
بالآخر 1990ء آگیا۔ ’عوام کی بھرپور حمایت‘ سے قائم ہوئی حکومت دوبرس ہی مکمل کرپائی۔ غلام اسحاق خان نے آٹھویں ترمیم کی بدولت فراہم ہوئے اختیار کو بروئے کار لاکر اسے کرپشن کے سنگین الزامات لگاتے ہوئے برطرف کردیا۔ نئے انتخاب ہوئے۔ غلام اسحاق خان اور ان دنوں کے آرمی چیف اسلم بیگ کا خیال تھا کہ بے نظیر کی فراغت کے بعد سندھ سے ابھرے غلام مصطفیٰ جتوئی کو وزیر اعظم کے منصب پر بٹھایا جائے گا۔ وہ جونیجو صاحب کے مقابلے میں ’بیبے‘یا ’مہذب، تابعدار‘ سمجھے جاتے تھے۔ نواز شریف نے مگر پنجاب میں اپنی مقبولیت ثابت کردی تھی۔ انھیں چودھری نثار علی خان اور ملک نعیم جیسے کئی نوجوان اور سیاست میں نسبتاً نئے خیالات کے حامل افراد کی بے پناہ حمایت حاصل تھی۔ وہ ’نظامِ کہنہ‘ کے متبادل قرار پائے اور نواز شریف کو اقتدار سونپنا پڑا۔
وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے چند ہی ہفتوں بعد نواز شریف نے مگر یہ ثابت کرنا شروع کردیا کہ وہ اتنے بھی بھولے نہیں ہیں۔ وطنِ عزیز کو جدید بنانے کے لیے ان کے ذہن میں چندمنصوبے تھے جنھیں وہ ہر صورت لاگو کرنا چاہ رہے تھے۔غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے لیے ’گرین چینل‘ کا قیام اور موٹروے وغیرہ کی تعمیر ایسے ہی منصوبے تھے جو دائمی اداروں میں بیٹھے نظامِ کہنہ کے محافظوں کو پسند نہیں آئے۔ غلام اسحاق خان بنیادی طورپر انھی کے نمائندہ تھے۔ انھوں نے نواز شریف کو قابو میں ر کھنا چاہا تو موصو ف نے ’میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘ والا خطاب فرمادیا۔ اس خطاب کے ایک دن بعد برطرف کردیے گئے۔
نسیم حسن شاہ کے سپریم کورٹ نے ان کی حکومت کو بحال کردیا تھا۔مذکورہ بحالی لیکن ملک میں سیاسی استحکام یقینی نہیں بناپائی۔ان دنوں کے آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ کو متحرک ہونا پڑا۔ ان کے دیے فارمولے نے 1993ء کے انتخاب کی راہ بنائی۔ اس کے نتیجے میں قائم ہوئی حکومت مگر تین برس بھی مکمل نہ کرپائی۔ اسے پیپلز پارٹی ہی کے لگائے ’فاروق بھائی‘نے وہی اختیارات بروئے کار لاتے ہوئے برطرف کردیا جو جنرل ضیاء اور غلام اسحاق خان نے جونیجو اور بے نظیر حکومت کو فارغ کرنے کے لیے استعمال کیے تھے۔ ایک بار پھر انتخاب ہوئے اور نواز شریف ’ہیوی مینڈیٹ‘ کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹ آئے۔ ان کی خودمختاری 12 اکتوبر 1999ء کے مارشل لاء کا سبب ہوئی۔
حسبِ عادت طویل تمہید کے ساتھ تاریخ دہرانے کو ایک بار پھر مجبور ہوا ہوں۔بنیادی مقصد مسلم لیگ (ن)کو یہ سمجھانا ہے کہ ان کی نیت خواہ کچھ بھی ہو پنجاب کی اکثریت کے دلوں میں یہ تاثر گھر کرچکا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی مداخلت سے 30 اپریل کے دن پنجاب کے لیے طے ہوئے صوبائی انتخاب سے بھاگنے کی کوشش کررہی ہے۔اسے یہ خوف لاحق ہے کہ اس دن یہ انتخاب واقعتا منعقد ہوگئے تو تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدواروں کے لیے میدان تقریباً خالی ہوگا۔ وہ بھاری اکثریت کے ساتھ صوبائی حکومت تشکیل دے سکتے ہیں۔اس کے بعد عمران خان کو قومی اسمبلی کے انتخابات کے دوران بھاری اکثریت سے وزیر اعظم کے منصب پر لوٹنے سے روکنا بھی ناممکن ہوجائے گا۔ صدر علوی کو بھی مزید پانچ برس مل جائیں گے۔ سینیٹ میں بھی اسی جماعت کی اکثریت ہوگی۔
یہ سب روکنے کے نام پر ہی مسلم لیگ (ن) نے اپریل 2022ء میں عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی گیم لگائی تھی۔ ان کی تحریک عدم اعتماد تو کامیاب ہوگئی۔عمران خان مگر سیاسی اعتبار سے اس کے بعد توانا تر بن چکے ہیں۔
بارہا اس کالم میں عرض کرتا رہا ہوں کہ ریاست کے ’دائمی ادارے‘ کسی کے بھی ’سگے‘ نہیں ہوتے۔ان کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ ’عوامی مقبولیت‘ کے زعم میں کوئی سیاستدان ان پر حاوی ہونا چاہے تو ریاست کے پاس اسے قابو میں لانے کے ہزاروں ہتھکنڈے موجود ہوتے ہیں۔ اس ہدف کے حصول کے لیے چند سیاستدانوں میں سے ریاست اگر ’سہولت کار‘ ڈھونڈنے نکلے تو ہزاروں مل جاتے ہیں۔
سیاست دان کے لیے اپنی قوت دکھانے کا اصل میدان انتخاب ہی فراہم کرتا ہے۔وہ اگر اس سے بھاگتا نظر آئے تو عوام کی نگاہ میں ’بکری‘ ہوا نظر آتا ہے اور ’بکری‘دکھتے افراد پر نگاہ ڈالنے کو بھی کوئی رضا مند نہیں ہوتا۔اپنی جنگ ہر سیاستدان کوخود ہی لڑنا ہوتی ہے۔1997ء میں حکومت سے فراغت کے بعد پیپلز پارٹی کی اکثریت اس گمان میں مبتلا رہی کہ نسیم حسن شاہ کے سنائے فیصلے کے بعد سجاد علی شاہ کے سپریم کورٹ کو بھی اس کی حکومت بحال کرنا پڑے گی۔ خوش گمانی میں انتخابی مہم کی بھرپور انداز میں تیاری کو آمادہ ہی نہ ہوئے۔ آج کی مسلم لیگ (ن) مجھے ویسی ہی خوش گمانی میں مبتلا نظر آرہی ہے۔ چند آڈیو ٹیپس پر تکیہ کیے ہوئے ہے۔ اپریل 2022ء سے ہمارے ہاں آڈیوز لیکس کا طوفان برپا ہے۔ان میں جو حقائق منکشف ہوئے عمومی حالات میں عوام کے روبرو آتے تو ان لیکس میں ملوث افراد کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے۔ ہمارا معاشرہ مگر اندھی نفرت وعقیدت میں ہیجان آمیز انداز میں تقسیم ہوچکا ہے۔ ہر فریق کا ’سچ‘ ہی ایک دوسرے سے قطعاً جدا ہے۔اس ’سچ‘ پر سوال اٹھانے والی ہر حوالے سے مستند آڈیوز پر بھی اعتبار نہیں کرے گا۔ مسلم لیگ (ن) اگر سیاسی اعتبار سے اپنا وجود برقرار رکھنا چاہتی ہے تو اسے فوری طورپر صوبائی انتخابات کے لیے اپنے امیدواروں کے چن آ کو ترجیح دینا ہوگی۔اپنے ا میدوار طے کرنے کے بعد انتخابی میدان میں اترے اور بھول جائے کہ ’عمران خان کے خوف سے‘ کوئی اور دائمی ادارہ ان کی مدد کو آگے بڑھے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں