تعلیمی شعبہ بحران کے سائے تلے

عبدالقیوم بزدار
زندگی معمول کے مطابق چل رہی تھی کہ اچانک اس میں ٹھہراو کی کیفیت پیدا ہوئی اس ٹھہراو کی کیفیت نے چین سے سفر کا آغاز کیا پھر پوری دنیا کا چکر لگانے کے لیے سفر پرروانہ ہوا جہاں جہاں پہنچی وہاں زندگی معمول کے مطابق چلنے کےلیے موت کی مانگ کررہی تھی یا کچھ وقت کے لیے تھمنے کی صدا دے رہی تھی مگرانسان ہے سمجھ نہیں پارہی ٹامک ٹوئیاں اور چھلانگیں لگانے میں مصروف ہے لیکن ٹھہراو کی کیفیت کہہ رہی ہے ابھی جنبش ناممکن ہے ابھی ٹھہرے رہو ابھی فاصلے پہ رہو،محتاط رہو اور اپنی زندگی کو بچاو یعنی دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ ٹریکٹر پہ لکھی آرٹ کے مطابق سمجھارہی ہے پاس کریا برداشت کر
ابھی ہم اسے صرف احتیاطی تدابیر کےذریعہ پاس کرنا سیکھ چکے ہیں ورنہ ابھی تک ہم اسے برداشت کررہے ہیں
اسی برداشت کرنے کی حکمت عملی کےتحت ہم نے کرونا وبا کےدوران تمام شعبہ زندگی میں انجماد کا فیصلہ کیا جس کی انسانی زندگی اور خدمات کےشعبے پہ گہرے اثرات پڑے وہی تعلیمی میدان میں بھی ٹھہراو کی کیفیت ہے ۔
اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے ماہرین تعلیم نے ای لرینگ سسٹم متعارف کروایا لیکن پاکستان جیسے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں یہ اپنی وقعت کھوبیٹھی ہے کیونکہ پاکستان میں جن لوگوں نے یہ اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا وہ یاتوپاکستان کے معروضی تناظرسے ناواقف ہیں یااپنا الوسیدھا کرنے کے لیے یہ سب کچھ کررہے ہیں تاکہ کل کلاں کوئی ان سے پوچھے تووہ سرخ رو ہوں البتہ وہ سرخ رو ہونے کی بجائے سیاہ رو ہونے کی تابڑ توڑ کوشش کررہےہیں ۔۔۔۔
الاماشاءاللہ!!!انہیں اتنا بھی معلوم نہیں پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی آدھی سےزیادہ آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے اور آدھی آبادی سطح غربت سے نیچے زندگی گزاررہی ہے ۔۔۔جن کاکوئی پرسان حال نہیں
تووہاں آن لائن کلاسز چہ معنی دار ؟
ان کے لیے آن لائن کلاسز کوئی معنی نہیں رکھتی ان کےپاس جدید موبائل اور لیپ ٹاپ تک نہیں وہ آن لائن کلاسز کیسے لیں گے اگر ان کے پاس یہ سہولت موجود ہے تو ان کےپاس انٹرنیٹ سروس نہیں چاہے وہ موبائل ڈیٹا ہو یا ڈی اےسیل
اگروہ ہے توان کے پاس بجلی کی سہولت نہیں ہے اگر بجلی کی سہولت ممکن ہے تو بجلی کی لوڈشیڈنگ ان کا پیچھا نہیں چھڑاتی ۔۔۔اگر یہ سب کچھ ہے کسی کےپاس تو کسی کےپاس نیٹ پیکچ کے پیسے نہیں ہیں۔۔۔

یہ پاکستان ہے کوئی یوروپی ملک تھوڑا ہے جہاں ای لرینگ ممکن ہے مگریہاں ان حالات میں تعلیمی سفر جاری رکھنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے اور ایچ ای سی کی فیصلہ سازی اور اہلیت پہ بھی سوالیہ نشان ہے ۔۔
کیونکہ وہ پاکستان کے تمام علاقوں کی سیاسی ، سماجی ،تہذیبی اور تمدنی تہوں کوسمجھنے میں کلی طور پر ناکام ہوئی ہے انہیں یہ بھی پتا نہیں بلوچستان میں انسرجنسی کی وجہ سے بلوچستان کے شہروں میں انٹرنیٹ سروس بھی دستیاب نہیں ہے تو دیہاتوں میں کہاں دستیاب ہوگی ۔۔
انہیں یہ بھی پتانہیں وزیرستان میں دہشتگردی کی وجہ سے انٹرنیٹ سروس دستیاب نہیں ہے تو آن لائن کلاسز کیسے ہوسکیں گے ۔۔۔؟
انہیں یہ بھی پتا نہیں کہ پنجاب میں کوہ سلیمان کا بیلٹ انٹرنیٹ سروس سے یکسر ناواقف ہے تووہاں آن لائن کلاسز کہاں ہوسکیں گئیں ۔۔۔
انہیں یہ بھی معلوم نہیں جنوبی پنجاب کے اکثردیہاتوں میں یہ بلا نہیں پائی جاتی
انہیں یہ بھی پتانہیں کوہ سیلمان اور پوٹوہار ریجن میں بجلی کی سہولت دستیاب نہیں ہے تو انٹرنیٹ کہاں دستیاب ہوگی ؟؟؟
انہیں یہ بھی معلوم نہیں دیہی سندھ میں بھی انٹرنیٹ کی کم وبیش صورتحال وہی ہے جو پنجاب کےدیہی علاقوں میں ہے
اور شہروں میں بھی انٹرنیٹ سروس کامعیار بھی بہت زیادہ اچھا نہیں ہے مزیدبراں !!!میں یہاں بتاناچاہتاہوں ایچ ای سی کا ای لرینگ پلین جاری ہوئے دودن ہوئے ہیں لیکن بے سود۔۔بے چاری یونیورسٹیز کی ویب سائٹسز کریش کرگئیں ۔۔۔جس کی وجہ سے طلبہ لاکھ کوشش اور ہاتھ پاوں مارنے کے باوجود لاگ ان کرنے میں ناکامی کا برملا اظہار کرتےرہے وہی ذہنی ٹینشن اور ڈپریشن نے بھی طلبہ کےسر پہ سواری کی۔۔۔اللہ جانے!!!یہ سفرکب ختم ہوگی ۔۔۔ طلبہ کےساتھ یہ مذاق رات کب ختم ہوگی ؟ ان کے مستقبل کےساتھ کھلواڑ کب ختم ہوگی ؟؟
ایچ ای سی سےان تمام سوالات کا جواب طلبہ چاہتے ہیں
کیا تعلیم حاصل کرنا ہمارا حق نہیں ہے؟
کیا اپناسال ضائع ہونے سے بچانا ہمارا حق نہیں ہے ؟
ہمارا حق نہیں ہے توبتادیں ازراہِ کرم!!!
کیا ہم ایچ ای سی سے مطالبہ نہیں کرسکتے کہ وہ ہمیں پراپرچینل کےذریعے اس ملک کے حالات کےعین مطابق ہمارے ساتھ رویہ اختیارکرے اور سہولیات فراہم کرنے کی کوشش میں رہے نہ کہ مغربی ممالک کی پیٹرن پہ چل کر کیونکہ مثل مشہور ہے ۔۔
کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا۔۔۔۔
عبدالقیوم

اپنا تبصرہ بھیجیں