نئی روشنی

انور ساجدی
بلوچستان میں اس وقت چار فیکٹر کام کررہے ہیں بے حسی،ڈر، خوف اور لالچ
بی بی ملک ناز کی شہادت اور اس سانحہ کی چشم دیدگواہ معصوم برمش نے تھوڑے سے ضمیروں کو جھنجھوڑا ہے اور کافی عرصہ کے بعد تربت میں ایک بڑا مظاہرہ ہوا ہے لیکن واقعہ کی جو نوعیت ہے ہر شہر اور ہر مقام پر صدائے احتجاج بلند ہوجانا چاہئے تھا یہ بات ماننے کی ہے کہ اس ریاست میں بلوچوں کی تعداد کم ہے لیکن دیگر اقوام کے مقابلے میں اس نے ہمیشہ احتجاج اور مزاحمت کا راستہ اختیار کیا ہے۔
2006 میں پہاڑوں پر جانے سے قبل ڈیرہ بگٹی میں جب نواب صاحب بگٹی اکابرین کے بیچ میں بیٹھے تھے تو میں نے پوچھا کہ کیا آپ آخری قربانی کیلئے تیار ہیں نواب صاحب نے کہا کہ ہاں میں تیار ہوں میرے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے کیونکہ جب یہ لوگ مجھے گرفتار کریں گے تو پنجرے میں ڈال کر ہر شہر میں نمائش کریں گے اور اپنے لوگوں کو بتائیں گے یہ ہے بلوچ یہ ہے اس کی وقعت میں نے کہا کہ آپ کی آخری قربانی کے بعد آپ کے خیال میں کیا ہوگا؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ میں نہیں جانتا لیکن میں اپنی ذات کیلئے قربانی نہیں دے رہا میں اپنی سرزمین کیلئے اپنا چھوٹا سا حصہ ڈال رہا ہوں یہ نوجوانوں کا کام ہے کہ وہ میری موت کے بعد کیا ردعمل ظاہر کریں گے اور اسے ایک تحریک کی شکل دے سکیں گے کہ نہیں لیکن یہ بات ضرور ہوگی کہ ایک بڈھے بلوچ نے اپنا ساحل اپنے وسائل اور اپنی سرزمین آنکھیں بند کرکے زور آوروں کے حوالے نہیں کی۔
آج 14 سال بعد نواب صاحب کی شہادت کا ردعمل جاری ہے کچھ وقفہ کے بعد واجہ غلام محمد لالہ منیر اور شیر جان کی قربانی نے حالات وواقعات کو مہمیز دیا ایک طرف روائتی بلوچ مزاحمت شروع ہوئی تو دوسری جانب ماما قدیر نے گاندھی بن کر احتجاج کے پرامن ذرائع استعمال کئے انہوں نے کوئٹہ سے اسلام آباد تک خواتین کے ہمراہ لانگ مارچ کیا اس کا مقصد طاقت کے منبع پنجاب کے عوام کے ضمیروں کو جگانا تھا کہ ہماری سرزمین بھی آپ کی ریاست کا بڑا حصہ ہے ہم بھی اس کے شہری ہیں لیکن ماما کا یہ احتجاج پنجاب کی حد تک رائیگاں گیا اور حکمرانوں نے اس کا برا مانا ماما کی یہ پرامن تحریک ان ہزاروں نوجوانوں کی بازیابی کیلئے تھی جو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں رات کی تاریکی میں اٹھائے گئے تھے اور جن کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا آج بھی سینکڑوں مائیں اپنے جگر گوشوں کے انتظار میں رو رو کر اندھی ہوگئی ہیں تاریک راہوں میں مارے جانے والے ان افراد کے بچے کسمپرسی اور لاچاری کی زندگی جینے پر مجبور ہیں۔
یہ عالمی اصول ہے کہ اگر ریاست کو اپنے شہریوں پر اعتراض ہے تو وہ اس کا جواب دے اگر انہوں نے کوئی جرم کیا ہے تو وہ قانونی کارروائی کرے لیکن بدقسمتی سے یہ راستہ اختیار نہیں کیا گیا اس دوران ایک طویل انتظامی پلان بنایا گیا جس کے تحت سیاسی معاشرتی اور معاشی تبدیلیوں کے نکات وضع کئے گئے لیکن مسئلہ کے سیاسی حل کیلئے کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی بلکہ یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ 2008،2013 اور 2018 کے انتخابات کو انجنیئرڈکیا گیا اور ایسے لوگوں کو کامیاب کروایا گیا جن کا کوئی سیاسی پس نظر اور جدوجہد نہیں تھی یعنی اس عمل کے ذریعے بلوچستان کے سماج کو ڈی پولیٹیکلائز کیا گیا ایسے نمائندے مسلط کئے گئے عوام جانتے تھے کہ یہ ہمارے ووٹوں سے نہیں آئے ہیں اس دوران کئی تجربات کئے گئے 2008 میں نواب رئیسانی کو آزمایا گیا انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز میر صاحب کی جماعت پاکستان نیشنل پارٹی سے کیا تھا انہوں نے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد وفاداری کا حلف تو اٹھایا لیکن 4 سال کے دوران کئی خاص مواقع پر وہ حیل و حجت سے کام لینے لگے کبھی بیمار ہوتے تھے کبھی اسٹیجپر بے ہوش ہوجاتے تھے لیکن جب زیادہ دباؤ پڑا تو انہیں ہوش میں آنا پڑا ایک تجربہ ڈاکٹر مالک و حاصل کا کیا گیا خیال تھا کہ لوہا لوہے کو کاٹتا ہے یہ تجربہ بھی نیم کامیاب رہا البتہ اس دوران تحریک کا زلزلہ پیما مرکز مشرقی بلوچستان سے کیچ منتقل ہوگیا کیونکہ اسی دوران سی پیک کا قاتلانہ معاہدہ کیا گیا جس کا مقصد آواران سے گوادر تک اپنی رٹ قائم کرنی تھی تحریک کا شفٹ ہونا اسی کا ردعمل تھا کیونکہ مستقبل کا سیاسی و مزاحمتی میدان وہی تھا اس دوران متعدد غیر سیاسی جتھے تیار کئے گئے جنہوں نے معاشرے میں ڈر اور خوف پیدا کیا ان جتھوں نے بڑے پیمانے پر قتل و غارتگری برپا کیا جس کی وجہ سے لوگوں کو مجبوراً خوف کے سائے تلے زندگی گزارنا پڑی ہیومن رائٹس کے اداروں نے اس طرز عمل کی خاصی مذمت کی اور اسے انسانیت کے خلاف جرم قرار دیدیامعاشرہ کے بااثر طبقات کو جن میں سرداروں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی منظم کیا گیا تاکہ وہ زندہ باد مردہ باد کیلئے کام آئیں اور لوگوں کو لالچ دے کر اپنے ساتھ ملائیں ان سے کہا گیا کہ جو تحریک چل رہی ہے وہ عام لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے وہ سرداروں کو بھی کیفر کردار تک پہنچا کر دم لیں گے طاقت کے اس نئے اتحاد نے ظلم کی رفتار میں اضافہ کیا لیکن یہ سردار اور بااثر طبقات آبرومندانہ طرز اختیار کرنے کی بجائے مخبر بن گئے جب نوجوانوں نے تحریک کی کمان سنبھالی تو بلوچستان کے سب سے بڑے سردار میر خیر بخش مری نے اعلان کیا میرے بعد بلوچ کسی سردار کو قبول نہیں کریں گے یا میرے بعد سرداری سسٹم کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی انہوں نے کہا کہ وہ آخری سردار ہیں۔
جو کام ڈاکٹر مالک اور میر حاصل خان نے کیا میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا لیکن ان سے میری گزارش ہے کہ اگر ان سے غلطیاں سرزدہوئی ہیں چاہئے دانستگی میں یا نادانستگی میں وہ عوام سے اس کی معافی مانگیں کیا ہی اچھا ہوتا جب ڈاکٹر مالک سے پہلے کہا گیا تھا کہ آپ سوئیٹزرلینڈ میں جاکر میر براہمدغ بگٹی سے مذاکرات کریں اور پھر ہمیں آگاہ کریں تاکہ ڈائیلاگ کی کوئی صورت پیدا ہوسکے ڈاکٹر سوئیٹزر لینڈ گئے بات کی واپس آکر وزیراعظم کو رپورٹ دی لیکن جلد ہی کہا گیا کہ جو ہم کررہے ہیں وہ درست حکمت عملی ہے آپ آئندہ زحمت نہ کریں اسی مقام پر ڈاکٹر مالک کو بطور وزیر اعلیٰ استعفیٰ دیدنا چاہئے تھا لیکن وہ جرأت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے اسی طرح میں بی این پی مینگل کی سیاست اور کردار پر ہمیشہ تبصرے سے گریز کرتا ہوں لیکن سانحہ ڈنک کے بعد حالانکہ 20 برسوں میں اس سے بھی بڑے سانحات رونما ہوچکے ہیں بی این پی مینگل کو غور و فکر کرنا چاہئے اگر اس کے آئینی مطالبات پورے نہیں ہوئے تو اسے حکومت کی حمایت سے دست کش ہونا چاہئے کیونکہ اس کا انجام بھی نیشنل پارٹی کی طرح ہوگا۔
یہ دونوں جماعتیں بڑے سیاسی ادارے ہیں اگر انہیں قائم رکھنا ہے تو حکمت عملی میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔
زورآوروں نے فنڈز اور ترقیاتی اسکیموں کی جو منفعت بخش ترغیبوں کا سلسلہ شروع کیا ہے اگر کوئی خودکو اس میں آلودہ کرتا ہے تو اسے سیاست کا نام ہرگز نہیں دیا جاسکتا ہے ایک محکوم قوم کی سیاست قربانی دینے کا تقاضہ کرتی ہے دونوں جماعتوں کو چاہئے کہ برمش کے واقعہ کو امید اور روشنی کی شکل دیں اور ماضی سے کنارہ کشی اختیار کرکے ایک نئی مگر مختلف جدوجہد کا آغاز کریں یہ عمل ان کی بقاء کیلئے بھی ضروری ہے اور بلوچستان کیلئے بھی ناگزیر ہے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں