برمش بلوچ کی زخمی صدائیں

بایزید خان خروٹی
قصور کی زینب اور ڈنک کی برمش بلوچ کا کیس تقریبا ایک جیسا ہے فرق میڈیا کوریج کاہے اوربرمش کے صوبے میں کارخانے،کاروباری مراکز اور صنعتی سرگرمیوں کی کمی ہے اس لئے اس کے درد و دکھ کو قومی میڈیا سے دور کر رکھا گیاہے میڈیا کی سب سے بڑی کمزوری اشتہارات اور ویورز شپ ہیں جو کہ قصور کے مقابلے میں بلوچستان سے میڈیا کو نہیں مل رہے ہیں یہاں میڈیا کی کم ویورز شپ عام بلوچستانی کا مسئلہ بیان نہ کرنا ہے جبکہ اشتہارات کیلئے صنعتیں درکار ہیں۔ تو پھر بلوچستان کی اہمیت اور مسائل بیان کیوں کریں؟ برمش کی زخمی صدائیں بھی انصاف کس سے مانگتی ہیں شائد اس معصوم کو یہ معلوم نہیں کہ اسکے صوبے کا نظام تو خوداپنی آخری سسکیاں لے رہا ہے بگڑے ہوئے شہزادے کی بگڑی ہوئی عادتوں کے مانند بلوچستانی انتظامی امور بھی بگڑ چکے ہیں انتظامی امور چلانے والے جہاں ذمہ داریاں لینے سے انکاری ہیں وہیں پر حکومتی سطح پر انکو چیک کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے حکومت کو دو سال ہونے کو ہیں ایک دن بھی وزیراعلی بلوچستان نے صوبے بھر کے ڈپٹی کمشنرز یا ڈسٹرکٹ پولیس آفیسران کا ایک اجلاس تک طلب نہیں کیا ہے انکی جواب طلبی تو دور کی بات ہے اور صوبائی معاملات یاری،دوستی اور تعلق داری کی بنیادوں پر سرانجام دیئے جارہے ہیں یہی وجوہات ہیں کہ کسی بھی واقعہ کی ایف آئی آرکے اندارج اور اپنے مسائل کی داد رسی کے لیے ضلعی انتظامیہ یا پولیس کے پاس جانے کے بجائے ہر مقتول اور زخمی کے ورثاء دادرسی کے لئے اپنے ضلع کے مرکزی چوک پہنچ جاتے ہیں اور پھر دھرنے اور احتجاج کے بعد قانون کے رکھوالے حرکت میں آجاتے ہیں۔ اگر صوبائی سطح پر احتجاج کا نوٹس نہ لیا جارہا ہو توپھرگزشتہ کچھ عرصے سے بلوچستان کے سوشل ایکٹوسٹ ملک کی سول سوسائٹی کو مظلوم کی مدد کرنے کیلئے سوشل میڈیا کے ٹرینڈز کی صورت انصاف کی تلاش میں مددطلب کرنے کیلئے نکلتے ہیں۔ یہاں ہر شخص کو یقین کامل ہے کہ اب ایف آئی آر کا اندراج کا مرکزتھانہ نہیں بلکہ اہم ترین شاہراہیں ہیں قابل رحم ہے وہ معاشرہ جہاں مقتولین کی لاشیں قبروں کی بجائے قاتلوں کی گرفتاری کیلئے یا ایف آئی آر کے اندارج کیلئے مین شاہراوں یا چوکوں پر رکھی جائیں۔ ایسے معاشروں کی قسمت تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے احتجاجوں کی بنیادی وجہ قانون کی عملداری کا ختم ہو جانا ہے یا پھر عام آدمی کا اس پر سے یقین اٹھ جانا ہے۔ اسکی وجوہات جاننے کیلئے یا تو بلوچستان کا نظام چلانے والے سنجیدہ نہیں یا پھر ایسا دانستہ طور پر کیا جارہا ہے ایک طویل عرصہ سے نظام پر نظرباریک بینی سے رکھنے کی وجہ سے مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی دقت نہیں ہورہی ہے کہ بلوچستان میں صرف 5 فیصد انتظامی آفیسران کو اہلیت کی بنیاد پر پوسٹنگ دی گئی ہے جبکہ 95 فیصد افراد پسند ناپسند رشتوں ناطوں یا پھر مشترکہ دنیاوی مفادات کے لیے عہدوں پر تعینات کیے گئے ہیں۔ آرڈر کرنے والے شاید یہ بات بھول گئے ہیں کہ یہ عہدے نظام اور ریاست کے معاملات بہترین انداز میں چلانے کے لیے بنائے گئے ہیں نہ کہ ان کے آبائی گھروں کی چوکیداری کے لئے۔ جہاں پر وہ اپنے پسند ناپسند کی بنیاد پر تعیناتیاں کریں صوبے میں سانحہ ڈنک جیسے واقعات کا رونما ہونا اور موقع پردادرسی نہ ہونا کی بنیادی وجہ تمام اضلاع میں ضلعی انتظامیہ میں بے اختیارانتظامی آفیسران ہیں جنکی پوسٹنگ اب میرٹ پر نہیں جنکی تعیناتیاں بھی ضلعی تعمیراتی محکموں کے آفیسران کے طرز پر ہے۔سانحہ ڈنک جیسے واقعات جہاں قانون شکنی ہے وہیں اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا بلوچستانی چادر و چار دیواری اور اسلامی روایات کے خلاف گردانے جاتے ہیں اور ڈنک واقعہ چادرو چار دیواری پر ڈاکہ ہے اس طرح کے واقعات پرامن معاشروں میں بے چینی، خوف و ہراس اور تشدد میں اضافہ کا موجب بنتے ہیں گزشتہ کچھ عرصہ سے ایک بار پھر اغوا برائے تاون اور بدامنی کی زد میں رہنے والے کیچ میں درندہ صفت ڈاکوؤں کے گھر پر حملے سے زخمی معصوم بچی برمش کی جوان سال ماں کا قتل تربت کے علاقہ ڈنک کا سانحہ سابقہ وارداتوں کی ایک کڑی ہے،وہاں کے مقامی لوگ ڈکیتی اور چوری کی وارداتوں کے واقعات کے رونما ہونے کی وجہ تربت میں سیاہ شیشوں والی گاڑیوں اور اسلحہ کی نمائش کو قرار دے رہے ہیں اور سیاہ شیشوں اور اسلحہ نمائش پرسختی سے پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے مجرموں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے ریاست کے اندر ریاست بننے والوں کی بھرپور اندازمیں حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ عوام کاقانون پر یقین کامل بحال کیا جاسکے کیچ کے عوام میں اس سلسلے میں پائی جانے والی بے چینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آل پارٹیز ضلع کیچ جن میں بی این پی مینگل، پاکستان نیشنل پارٹی عوامی، پاکستان مسلم لیگ ن، بی این پی عوامی،نیشنل پارٹی، جمعیت اہلحدیث، کیچ سول سوسائٹی اوردیگرسیاسی رہنمابھی شامل ہیں کا مشترکہ احتجاج ہورہا ہے اوروہاں کے عوام خو دکو عدم تحفظ کا شکار محسوس کررہے ہیں حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ برمش بلوچ کے علاج معالجے کے ساتھ ساتھ انکے خاندان کو انصاف فراہم کریں ورنہ اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا کوئی نئی باتیں نہیں ہوں گی اور ہر زور ایک برمش خود زخمی اور والدہ کے سائے سے محروم ہوتی رہے گی اور یوں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کیچ تربت کی ذمہ داریاں نبھانے ہر روز وزیرداخلہ بلوچستان کو تربت کے دورے کرنے پڑیں گے جبکہ ڈی پی او کا کام صرف اور صرف اسمگلنگ سے ملنے والی رقم وصول کرنا ہوگا۔ایک زمانہ تھا جب ڈپٹی کمشنر سرکار کا نمائندہ ہوا کرتا تھا اس کی پوسٹنگ ٹرانسفر میرٹ پر ہوتی تھی۔ جس میں عوامی نمائندگان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا تھا۔ انتظامی معاملات چیف سیکریٹری ہی دیکھتے تھے اور اضلاع میں ہر اچھے برے کام کی ذمے داری بھی انہی پر عائد ہوتی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ پاور سنٹر تبدیل ہوتے گئے۔ عوامی نمائندے دوسرے پاور سنٹر زکے ساتھ مل کر انتظامی معاملات میں مداخلت شروع کر دیے۔ اور اپنے چہیتوں اورجی حضوری کرنے والوں کو ڈپٹی کمشنرز تعینات کروانا شروع کر دیا۔ جو نام کے تو ڈپٹی کمشنر تھے لیکن کام وہ پرسنل سٹاف آفیسر کا کر رہے تھے۔ بد قسمتی میں وہ جاپلوسی میں اس حد تک گزر گئے کہ ڈپٹی کمشنر کی سرکاری گاڑی عوامی نمائندوں کے گن مین اور بھائی بند استعمال کرنے لگے اس سے زیادہ زوال کیا ہو سکتا تھا یا ہے۔ اب تو کوئی باضمیر آفیسر ڈپٹی کمشنر لگنا پسند ہی نہیں کرتا ہے۔ اس سارے زوال کی داستان عوامی نمائندوں کے ساتھ پاور فل ہونا ہے۔ اس انتظامی زوال کی جب بھی تاریخ لکھی جائے گی تو تمام ذمہ داروں کا ذکر خیر بہت شدومد سے شامل ہوگا۔
٭٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں