چین کے عزائم

انور ساجدی
شکر ہے کہ اس وقت کے حکمران لاڈلے اور محب الوطن ہیں یہی وجہ ہے کہ ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرلیا تو برسراقتدار گروہ پر نہ تو نااہلی کاالزام لگا اور نہ ہی غداری کا لیبل لگایا گیا اگرزرداری جیسے ناپسندیدہ شخص اقتدار میں ہوتے تو بھارتی اقدام کے بعد پھانسی چڑھ چکے ہوتے یہ پہلا موقع ہے کہ بھارت نے گلگت،بلتستان پربھی کلیم کیا ہے زرداری نے اس کلیم سے بچنے کیلئے گلگت،بلتستان کو صوبہ ”جیسا“ درجہ دیا جبکہ موجودہ حکمران سوچ رہے ہیں کہ اسے مکمل صوبہ بنادیاجائے جیسے کہ بھارت نے آئین میں ترمیم کرکے کشمیر کو ہندوستان کاحصہ بنادیا پاکستان کو توقع ہے کہ چین بھارت کشیدگی کے بعد چین بھارت کاراستہ روکے گا اور اسے کارگل سے اس طرف آنے نہیں دے گا غور کی بات ہے کہ ایک چھوٹے سے کمزور ملک نیپال نے بھی سرحدی تنازعہ پربھارت کوناکوں چنے چبوادیئے اس کا سبب بھی یہی ہے کہ چین نیپال کی سوشلسٹ حکومت کے پیچھے کھڑا ہے چین جدید دنیا کا سود خور ساہوکار ہے نیپال پرغلبہ بلاوجہ نہیں ہے اسے ضرور اپنے تذویراتی مقاصد حاصل کرنے ہیں کیونکہ ہمالیہ کامغربی سائڈ نیپال میں ہے شمال مشرقی حصہ تبت میں ہے اس نے کھربوں ڈالر خرچ کرکے ہمالیہ کے پانیوں کارخ اپنی جانب موڑ دیا ہے اور اس مقصد کیلئے دنیا کے طویل ترین ٹنل بنائے ہیں آثار بتارہے ہیں کہ وہ گنگا جمنا کے کیچمنٹ پرقبضہ کرکے بھارت کو شدید نقصان پہنچانا چاہتا ہے بھارت کے ساتھ چین کی دست درازی کا اصل مقصد اسے سی پیک کے روٹ میں مداخلت سے روکنا ہے تاکہ وہ بحر ہند کے اس حصے پراپنی بالادستی قائم کرے جسے خلیج اومان کہاجاتا ہے خلیج اومان کی شمالی پٹی پربہت دور تک ایران قابض ہے اور بلوچ سمندر کے ساتھ سو کلومیٹر مستقبل میں چین کے تصرف میں آئیگا خلیج کے کئی ممالک میں امریکی اڈے ہیں جبکہ بحر ہند کے دور افتادہ مقام ڈیگوکارشیا امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ ہے یہ اہم علاقہ پہلے برطانیہ عظمیٰ کے پاس تھا لیکن زوال کے بعد یہ اس نے بطور تحفہ امریکہ کے حوالے کردیا روس اگرچہ بحرہ روم میں موجود ہے لیکن بحر ہند سے وہ دستبردار ہوچکا ہے اسکی جگہ چین نے لی ہے اور اس نے بحر ہند کے چھوٹے سے ملک جبوتی کو اپنااڈہ بنالیا ہے جبوتی سے زیادہ اہم جگہ اور کوئی نہیں ہے کیونکہ یہ خلیج اور افریقہ کے سنگم پر واقع ہے اگرمستقبل میں چین اور امریکہ کے درمیان فوجی محاذ آرائی ہوئی تو چین کامیابی کے ساتھ اس کا راستہ روک سکتا ہے سردست چین کی پالیسی یہ ہے کہ وہ صبر سے کام لیتا ہے لڑتا نہیں ہے لیکن لداخ میں اسکے فوجیوں نے بھارتی فوجیوں کو گھونسے اورلاتیں ماریں توپوں اور گولوں کے استعمال کی نوبت نہیں آئی چین کے اس عمل پر پاکستان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور یہاں کے لوگ سمجھے کہ چین نے ہمارا بدلہ لیا ہے لیکن پاکستانی زعما کوعلم نہیں کہ کوئی ملک دوسرے کیلئے لڑتا نہیں ہے ہر ملک کواپنی لڑائی لڑناپڑتی ہے۔اگرچین جیسا ملک سرپرستی تو وہ دوسری طرح دشمن کو تنگ کرے گا لیکن میدان جنگ میں خود لڑنا پڑتاہے۔
ماؤزے تنگ کا مشہور مقولہ ہے
کہ چاول اپنے ہی دیگ میں پکتے ہیں
جب سے عمران خان برسراقتدار آئے ہیں بھارت مسلسل سرحدی چھیڑخانی کررہا ہے لیکن اس کا بھرپور جواب دینے کی بجائے پاکستانی وزیراعظم صرف واویلا مچانے پراکتفا کررہے ہیں وہ جنگ سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ ساری دنیا کو بتارہے ہیں کہ بھارت فالس اسٹرائیک کرنے کا منصوبہ بنا چکا ہے یہ بات صرف عمران خان تک محدود نہیں ہے بلکہ عالم اسلام کے عظیم سپہ سالار اور خودساختہ امیرالمومنین جنرل ضیاء الحق بھی جنگ سے خوفزدہ تھے جب بھارت نے سیاچن پر قبضہ کرلیا تو ضیاء الحق نے یہ کہہ کر اس قبضہ پر مٹی ڈال دیا کہ سیاچن پرتو گھاس بھی نہیں اگتی چونکہ سیاچن کے کمانڈر پرویز مشرف تھے اس لئے انہوں نے بدلہ لینے کیلئے کارگل میں جنگ چھیڑدی جب لینے کے دینے پڑ گئے توقصور وار نوازشریف کو ٹھہرادیا۔یہ بات یقینی ہے کہ چین کے مقابلہ کیلئے امریکہ بھارت کی پشت پناہی کرے گا لیکن جس طرح پاکستانی اکابرین بھارت سے جنگ لڑنے کی پوزیشن میں نہیں اس طرح بھارت بھی چین سے جنگ لڑنے کی دقعت نہیں رکھتا امریکہ کو جو حالیہ زوال آیا ہے اسکی وجہ نالائق اورناسمجھ صدر ٹرمپ کی ناقص پالیسیاں ہیں انہوں نے نسل پرستی کو فروغ دے کر اپنے مسائل میں اضافہ کردیا ہے۔امریکہ واحد ملک ہے جو کرونا سے سب سے زیادہ متاثر ہوا جس کی وجہ سے چار کروڑ لوگ بیروزگار ہوگئے ان میں اکثریت سیاہ فام اور لاطینی امریکن ہیں یہی وجہ ہے کہ حالیہ فسادات میں بڑے پیمانے پر لوٹ مار ہوئی کیونکہ کالوں کی اکثریت بے روزگار اور بھوکی تھی تیل کی قیمت گرنے اور تجارت بند ہونے سے امریکہ کو1929ء کے بعد سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے اگریہی حالات رہے تو صدر ٹرمپ کو دوسری مدت کے صدارتی انتخاب میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا بعض مبصرین کے مطابق20فیصد سیاہ فام آبادی ڈیموکریٹ پارٹی کے حق میں اکٹھے ووٹ ڈالے گی تاہم کچھ مبصرین کاخیال ہے کہ حالیہ پرتشدد احتجاج کے بعد صدر ٹرمپ کو اس کا فائدہ پہنچے گا کیونکہ سفید فام اکثریت ردعمل میں ٹرمپ کے حق میں ووٹ ڈالے گی اور وہ مزید چارسال تک امریکہ کی تباہی وبربادی کاسامان کرے گا اور چین جنوبی ایشیاء میں مزید پیش رفت کرے گا۔
اگرچہ امریکی حکومت اور ادارے بارہا اس شک کااظہار کرچکے ہیں گوادر پورٹ صرف ایک کمرشل پورٹ نہیں ہوگا بلکہ چین یہاں پر اپنا نیول بیس تعمیر کرے گا چین اور پاکستانی حکومت کئی بار اسکی تردید کرچکے ہیں لیکن حال ہی میں ایک مستند امریکی جریدہ نے اس مسئلہ کو دوبارہ اٹھایا ہے اور گوادر میں ممکنہ چینی نیول بیس کی تعمیرات کے سٹلائٹ تصاویر جاری کی ہیں جریدہ نے مبصرین کے تجزئیے شائع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب سے گوادر پورٹ زیر تعمیر ہے وہاں پر پہلی مرتبہ چینی نیول بیس کے قیام کے آثار ظاہر ہوئے ہیں رپورٹ کے مطابق چین نے اسی طرح کا بیس جبوتی میں قائم کیا ہے گوادر کے بعد بحر ہند میں چینی اثرورسوخ مزید مضبوط ہوجائیگا جاری کردہ سٹلائٹ تصاویر کے مطابق گزشتہ چند سال کے دوران چین نے گوادر پورٹ کی کی حدود میں متعدد نئے کمپلیکس تعمیر کئے ہیں ان میں سے ایک اس چینی کمپنی کے زیر استعمال ہے جو پورٹ کی تعمیر میں مصروف ہے اس میں غیر معمولی حفاظتی انتظامات نظرآتے ہیں واضح رہے کہ گوادر چین کے بیلٹ اور روڈ کا سب سے بڑا منصوبہ ہے اسکے ذریعے چین اپنا مال پاکستان کے مختصر روٹ کے ذریعے منڈیوں میں پہنچانے کے قابل ہوگا گوادر میں چینی نیول بیس کی کبھی تصدیق نہیں کی گئی رپورٹ کے حدود میں جو ہائی سیکیورٹی کمپاؤنڈ ہے وہ چائنا کمیونیکشن کنسٹرکشن کمپنی کے زیر اہتمام ہے جو چین کی بڑی سرکاری کمپنی ہے اس کمپنی نے متعدد سول انجینئرنگ کے منصوبے مکمل کئے ہیں گودار کمپاؤنڈ میں سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کئے گئے یہاں خاردار تاریں لگائی گئی ہیں غالباً سیکیورٹی کے انتظامات کی وجہ وہ واقعات ہیں جو گزشتہ سال پیش آئے تھے رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی کمپلیکس میں متعدددیگر تعمیرات بھی ہیں جن میں نیلی چھت والی بلڈنگزبھی شامل ہیں بار بارکہاجاتا ہے کہ یہ بیرک چینی میرین کورگریژن کیلئے بنائی گئی ہیں۔توقع ہے کہ پورٹ کی تعمیرات کے دوسرے مرحلہ میں چین کا نیول بیس مکمل ہوجائے گا۔
گوادر پورٹ کا جومنصوبہ ہے اگرچہ یہ بظاہرایک کمرشل پراجیکٹ ہے لیکن اس کی اصل ہئیت کیا ہوگی یہ ہنوز پوشیدہ ہے جبکہ گوادر کے بارے میں معاہدہ کوبھی صیغہ راز میں رکھا گیا ہے اگرچین نے واقعی یہاں پر اپنافوجی اڈہ بنایا تو اسے وسیع تعمیرات کی ضرورت پڑے گی یقینی طور پر اسکے لئے نہ صرف گوادر شہر بلکہ قرب وجوار کے تمام علاقے درکار ہونگے جس کے نتیجے میں آبادی کا مکمل انخلا ہوگا کیونکہ ہزاروں چینی میرینز،انجینئروں اور ہنرمندوں کوبڑے بازاروں،مالز اورشاپنگ سینٹرز کی ضرورت پڑے گی اسکے ساتھ ہی ”ویٹ مارکیٹ“ بھی یقینا بنے گی جو ووہان میں ہے جس کے بارے میں کہا گیا کہ مردار جانوروں اورپرندوں کے گوشت کی وجہ سے کرونا پھیلا۔
ایک مشہور بلوچی ضرب المثل ہے
چوکہ میراء گول لڑاں گنداں
بالگترگورانی چراگ جاہ انت
اس کاترجمہ پڑھنے والے خود کریں یہ ضرب المثل بذات خود مکمل کہانی ہے جس کاانجام گوادر میں برآمد ہونے والا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں