اقتدار کا گم شدہ وارث

راحت ملک
چینی سیکنڈل کا جائزہ لیتے ہوئے میں نے بنیادی اصول پر جو مفروضہ اخذ کیا ہے اس کا چینی سیکنڈل صدمہ یا لائحہ عمل پر میں اظہار کر چکا ہوں۔یہ اخذ شدہ مفروضہ منطقی استدلال ،حالات و واقعات کے گہرے مشاہدے سے اورتخیل قوت کے ذریعے اخذکیا ہے نہ کہ سیاسی بعض وعناد کی بنیاد پر البتہ اس موقع پرقارئین میری جانبداری پر اعتراض کرسکتے ہیں جس کی وضاحت کے لئے مرضی کردوں کہ جناب عمران خان کے سیاسی خیالات ،بیانات اور ان کی کتاب کے مطالعہ سے آگاہی ملی ہے ان کے انداز سیاست اہداف اور پس پردہ عناصر کی کارروائی کے ادراک نے میری آگاہی کو توانائی بخشی ہے جبکہ حتمی طور پر بر سراقتدار حکومت ملنے کے بعد ان کے فکر وعمل کے تضاد اور کارکردگی کے منفی اثرات کی شدید نوعیت نے پر تصدیق بہت کی ہے ۔سوال یہ ہے کہ ہر بنیادی مفروضہ جو پہلے لکھ چکا ہوں یہ ہے کہ جو جناب عمران خان نے چینی سکینڈل کا پنڈورا بکس اپنی سیاسی زندگی کے بقا کو مد نظر رکھتے ہوئے سٹوری سطح پر اسے تربیت دیا ہے اور وہ ایسی سیاسی شہادت چاہتے ہیں جوعائد کرنے والے طاقتوروں کیلئے نئی صورتحال کا اخلاقی بوجھ برداشت کرنا مشکل ہوگا؟دوران اجلاس حکومت کے خاتمے سے اسمبلی تحلیل نہیں ہوسکتی اگر اسمبلی نئی حکومت تشکیل دینے میں ناکام رہے تو خود بخود اسمبلی تحلیل ہو جاتی ہے ممکن ہے کہ طاقت کے مراکز جو حکومتوں کے بت تراش بھی ہیں اس صورتحال کی حوصلہ افزائی کرینگے تاکہ عبوری نگران حکومت قائم ہو جائے جسے رفتہ فتہ ٹیکنو کریٹ کی حکومت کی شکل دے کر مخدوش معروضی تناظر میں عدلیہ کے ذریعے آئینی طور پر طے شدہ مدت سے زیادہ عرصہ بر سراقتدار رہنے کا بندوبست کر لیا جائے ایسا ہونا ممکن ہے کہ ہماری عدلیہ نے آمر جنرل پرویز مشرف کو تین سال بر سر اقتدار رہنے کے علاوہ آئین میں ضروری ترامیم کو اپنا اختیار بھی تفویض کیاتھا جو بذات خود سپریم کورٹ کے پاس نہیں تھی تو ماضی کے اس مطالبے کی بنیاد پر قیاس آرائی اساس سے خالی نہیں اس میں اتنا اضافہ کرنا ہوگا کہ اس طرح متقدر حلقے صاحبان اختیار کیلئے سیاسی کھیل میں جناب عمران خان اور ان کی جماعت کی ضرورت ختم ہو جائیگی یہ ان کے سیاسی سفر کا انجام ہوگا
بحث کے اس مرحلے پر یہ نقطہ واضح کرنا تناسب میں آنے کی مدت کو بھی برآمدکی اجازت دیتے ہوئے نظر انداز کیا گیا ۔کیا یہ محض غفلت ہے؟ یا استعداد کار یا فیصلہ سازی میں مطلوب عوامل گھومتے آنکھیں اوجل ہونے کی نااہلی؟نہیں میں نا اہلی پر اصرار نہیں کرونگا کیونکہ اس طور پر نااہلی ندامت خود کو ایک مجرمانہ عمل ہے اور حکومت کی برخاست کئے جانے کا عدالتی یا آمرانہ طریقہ سے مجھے یقین لائق ہے کہ چینی برآمد کرنے کے منفی عوامل وعواقب نگاہوں سے اوجل نہیں ہوئے بلکہ فیصلہ میں اہم عامل رہتے ہیں کیونکہ اس تساہل کے منفی سیاسی اثرات ہر طور پر موجود تھے اور یہ بھی کہ اس بحران کے بطن سے قریبی جماعتی کا ساتھی بلکہ حکومت کی تشکیل میں سب سے نمایاں مرکزی کردار ادا کرنے والے دوستوں کی جگ ہنسائی ہوگی۔تادیبی کارروائی کی نوبت آئے گی اور ساتھیوں کا ساتھ پھوٹا تو حکومت کے ہاتھ سے جائے گی۔عمران خان نے ان سوالوں پر غور کیا ہوگا بلکہ یقینا کیا اور پھر پتے تربیت دیئے۔اب ان کے ہاتھ میں تاش کے چاروںپتے ہیں جن میں رنگ کا یکہ بھی شامل ہے جو آنے والے دنوں میں سیاسی کھیل میں اہم کردار کرادا کرے گا۔
اہم اوربہتر نکتہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس 5جون 2020 ء کو طلب کیا جاچکا ہے جو بارہ جون تک جاری رہے گا اس کے سادہ معنی یہ ہوئے کہ وزیراعظم قومی اسمبلی تحلیل کرے اختیار سے محرم ہو چکے ہیں، نیز دوران اجلاس انہیں پارلیمان کے اندر سے چینی سکینڈل پر سخت سوالات ومزاحمت کا سامنا کرتا ہے چنانچہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپوزیشن کی تنقید کو کم کرنے کیلئے لازمی طور پر تادیبی کارروائی کرنے پر مجبور ہونگے تو کارروائی کس کے کیخلاف ہوگی ؟
چین کی مصنوعی قلت کے ذریعے جیسا کہ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کہتی ہے کہ اور شہزاد اکبر اس پر اصرار کرتے ہیں ،چینی ملز مالکان نے مقامی صارفین سے اربوں روپے لوٹے ،مہنگے داموں کوئی شے فروخت کرنا قانوناً جرم نہیں، اخلاقی بددیانتی ہے تو قیمتوں کو مستحکم اور کنٹرول میں رکھنا متعلقہ سرکاری اداروں کی ذمہ داری ہے چینی مہنگی کیونکر ہوئی؟کیونکہ اس کی برآمد کا اجازت نامہ شوگر ملز مالکان کے پاس تھا چینی کے بڑے تاجروں کے پاس ملک میں موجود چینی کی مقدار آنے والی پیداوار کا عرصے یعنی طلب ورسد کے اعداد وشمار تھا انہوں نے جب برآمد ہو جانے والی چینی کی تعداد کو دستیاب سٹاک سے نہیں لیا تو منڈی میں فقدان پیدا ہوا ہر بڑے تاجر نے وافر مقدار میں چینی کی خریداری شروع کی مارکیٹ میں قلت کے احساس نے رسد اور طلب کا توازن الٹ دیا تو پھر چینی کے نرخ بڑھتے چلے گئے
یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ اگر وزیراعظم نے عجلت یاغفلت سے چینی برآمد کرنے کی اجازت دیدی تھی اور اسکے فوری اور مقامی مارکیٹ میں چینی کے دام بڑھنے لگے ۔ چینی کی قیمت کیوں بڑھ رہی ہے ؟ یا یہ کہ اس کی قیمت میں اضافہ کیسے روکا جاسکتا ہے؟انہی سوال ذرا پیچھے لے جائے کی جناب عمران خان اور جہانگرین ترین نے چینی برآمدگی کی اجازت کے مختلف مراحل میں کبھی باہمی منشور نہیںکیاہوگا۔؟ ان سوالوں کے جواب قارئین بہ آسانی خود اخذ کرسکتے ہیں پھراخذشدہ نتیجہ یہی ہے کامقصد تھا اس دور میں اس نقطے کو پھیلادیاگیا تھا ۔غفلت سے نہیں شعوری سیاسی منصوبہ بندتقاضوں کے تحت بہت ممکن ہے کہ جون کے پہلے ہفتے شروع ہونے والے قومی اسمبلی اجلاس سے سیاسی درجہ حرارت شدت اختیار کرجائے ۔انکوائری رپورٹ پر قانونی کارروائی ناگزیر ہو گئی تو وفاق اور پنجاب کی مخلوط حکومتوں کے وہ اتحادی جو براہ راست چینی سکینڈل میں ملوث پائے گئے تھے اسی سیاسی فضاء پیدا کر کے حکومتی علیحدگی ان کا سیاسی اقدام دکھائی دے نہ کہ احتساب یا قانونی کارروائی سے بچائو کی تدبیر چنانچہ دو ان اجلاس وفاقی اور پنجاب کی حکومتوں کا ٹوٹ جانا بعد از قیاس نہیں۔سوال یہ ہے کہ ایسا ہوا تو پھر کیا ہوگا؟
کیا نئی حکومت سازی کی مواقع موجود ہونگے ؟اور کیا نئی سیاسی صف بندی حالیہ بندوبست کا از سر نو اعادہ ہوگی ؟یا اس کے اجزائے تربیتی مختلف ہونگے ؟کیا نئی حکومت تشکیل پی ٹی آئی کے بغیر ہوگی یا اس کا ایک مقعول حصہ فاروڈ بلاک کی شکل میں نئی صف بندی میں شریک تھی؟ان سوالات کے ٹھوس جوابات سرئے دست ممکن نہیں ۔سیاست امکانات کا کھیل ہے تو تجزیہ کاری انی ممکنات کی قیاس آرائی کی منطقی ترتیب کا عمل ہے۔عصر حاضر کے سماجی عوام کی اہم دریافت تاریخ اور رواں واقعات میں معاشی عنصر کی بنیادی اہمیت کو تسلیم کرنا ہے عمران حکومت کے لئے کرونا معاشی ابتری کیا کم تھی کہ کرونا نے اسے منفی اشارے میں بدل دیا ہے جبکہ چینی سیکنڈل بھی اپنی مرکبات میں مصالحی عنصر ہے ۔ بلاشبہ درپیش حالات کا مقابلہ کرنا اسے پس پُشت ڈالنا عمران خان کا بس روگ نہیں یہ بات نوشتہ دیوار بھی ہے اور جناب عمران خان کا احساس وادراک شخصی بھی تو بند گلی سے نکلنے کیلئے بہتر لائحہ عمل کیا ہوسکتا تھا؟ میری رائے ہیں چینی سکینڈل اس کیلئے بہترین راستہ مہیاکرتا ہے سونے پر سوہاگہ اب حکومت گندم کی قلت ومہنگائی پر بھی انکوائری کرانے کا عندیہ دے چکی ہے عمران خان بحران کے ذریعے بحران سے نکلنے کی کوشش کررہے ہیں اپنے اعصاب کی مضبوطی بارے ان کے دعویٰ کی حیثیت ایسی ذریعے سے قابل تقسیم ہوسکتی ہے۔
اگر قومی اسمبلی اجلاس کے دوران حکومت یہ امرمجبوری چینی مافیا پر ہاتھ ڈالے گی تو امکان ہے کہ متاثرہ اتحادی الگ ہوجائیں تو حکومت اسمبلی میں اکثریت کھودیگی کیا ان حالات میں طاقت کے مراکز اسمبلی کو نئی حکومت سازی کا موقع دینا پسند کرینگے جبکہ یہ بھی واضح ہے کہ نئی حکومت پی ٹی آئی حکومت سے مختلف ہوگی؟ اس امکان کا رد نہیں کیاجاسکتا کہ آج کی اپوزیشن اس مرحلے میں طاقت کے مرکزسے مفاہمت کرتے تو ایک حکومت معرض وجود میں آسکتی ہے کیا اپوزیشن مفاہت کی سیاسی قیمت چکانے کی متحمل ہوسکتی ہے؟ اور اپوزیشن پر بدعنوانی کے الزامات ان کی ناقص حکومتی کارکردگی کی پردہ پوشی کرتے شدید بحرانی دور میں حکومتی معاملات کی تنصیب داری سے نجات دلائے اور مستقبل قریب وبعد میں ان کے سیاسی قد کو نمایاں کرنے کا وسیلہ بنے تاکہ وہ ملکی سیاست میں اپنی موجودگی برقرار رکھ سکیں، لہٰذا میرا خیال یہ ہے کہ جناب عمران خان نے درست طور پر تاش کے پتے استعمال کئے ہیں وہ بہت جلد یا چند ماہ کے اندر اندر اقتدار ایوان حکومت سے نکل جائیںگے یہ چینی سکینڈل کا سیاسی مطلع منظر وانجام ہوگا ،قانونی طور پر یہ سکینڈل کیا رنگ لائے گا؟شائد عمران خان نے اس پہلو پر غور وفکر سے گریز کیا ہے رہے گا کہ کئی ماہ سے بہت سے معتبر کالم نگار سہیل وڑائچ مختلف کالموں میں اشارہ دے چکے ہیں کہ عمران خان حکومت ہر لحاظ ناکام ہوچکی ہے لیکن اسے اقتدار میں لانے نااہلی کے باوجود اسے فی الحال ایوان حکومت سے فارغ نہیں کرنا چاہتے۔کیونکہ ان کے پاس عمران خان کا کوئی متبادل موجود نہیں جن سے معلوم ہوتا ہے ملک پھر کس کی حکومت ہے وہ کس طور پر کام کریں اس کا فیصلہ کن اختیار ان کے پاس جنہوں نے آغازملازمت میں حکومتی سیاسی امور میں غیر جانبدار رہنے کا حلف اٹھایا ہوتا ہے تو کیا اسمبلی کی تحلیل کی صورت وہ شفاف منصفانہ جمہوری انتخابات کو عوامی امنگوں کے مطابق حکومت سازی کا موقع دینے پر رضا مند ہونگے ؟ مستقبل قریب میںالیکشن کا امکان نہیں تو پھر چینی سکینڈل کے عقب میں کارفرما سیاسی تگڑم کو سمجھے جو جناب عمران خان کے ایوان قتدار سے آبرو مندانہ رخصتی اور آزریت کے خوابوں کی حتمی تکمیل کی راہ ہموار کرتی دیکھائی دے رہی ہے ۔کھیل کا آخری شروع ہوچکا ہے دیکھئے پردہ کب اور کیسے گرتا ہے۔ہاں البتہ ملک کی حقیقی،عوامی،جمہوری، سیاسی قوتوں کے لئے یہ منظر نامہ گہرے امتحان کا مرحلہ ہے
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں