بنانا ری پبلک اور بلوچ روایات

جئیند ساجدی
بنانا ری پبلک (Banana Republic) حالیہ دور میں ان ریاستوں کیلئے استعمال ہوتا ہے جو سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوں ‘معاشی بحران میں ہوں،بیرونی ممالک کے ماتحت ہوں،ملک میں قانون اور انصاف نام کی کوئی چیز نہ ہو ۔یہ انگریزی کے ا لفاظ بنانا (Banana) سے نکلا ہے جس کے اردو میں معنی کیلا (پھل ) کے ہیں ۔یہ لفظ بنانا ری پبلک امریکی دانشوروں نے جنوبی امریکی براعظم یا لاطینی امریکہ کے ریاستوں کیلئے استعمال کیا تھا 19ویں صدی کے ادوار میں کچھ امریکی تجارتی کمپنیاں لاطینی امریکی ممالک میں تجارت کی غرض سے گئیں چونکہ لاطینی امریکہ کا موسم ٹروپیکل ہے اس لئے وہاں کیلے کے باغات باآسانی لگائے جا سکتے تھے۔ اس دور میں امریکہ میں کیلے کے باغات نہیںتھے اور دیگر پھلوں کی قیمت کافی زیادہ تھی ۔لاطینی امریکی براعظم میں کاشت کئے گئے کیلے جب امریکہ پہنچے تو ان کی قیمت مقامی امریکہ میں کاشت ہوئے پھلوں سے کافی کم تھی۔ جس رقم میںامریکہ میں دو سیب خریدے جا سکتے تھے اسی قیمت سے ایک درجن کیلے ملتے تھے ۔امریکہ کے شہریوں کو’ کیلا اس کی قیمت اور ممکنہ طور اس کے ذائقے کی وجہ سے بے حد پسند آیا جس کے نتیجے میں ان امریکی کمپنیوں نے بے حد منافع کمایاجس کی وجہ سے کچھ کمپنیاں ملٹی نیشنل کارپوریشنز بن گئیں۔ ان کمپنیوں میں سب سے نمایاں نام یونائیٹڈ فروٹ کمپنی کا تھا جس نے آگے جا کر لاطینی امریکی براعظم کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔ زیادہ منافع کی غرض سے یونائیٹڈ فروٹ کمپنی و دیگر امریکی کمپنیوں نے لاطینی امریکہ میں زیادہ زمینیں خریدنے کا لالچ ہوا یہ کمپنیاں اپنی دولت کی وجہ سے امریکہ کی پارلیمنٹ میں کافی اثر انداز تھیں اور انہوں نے امریکہ کے ایوانوں میں بیٹھے نمائندوں پر زور دیا کہ وہ لاطینی امریکی براعظم میں کم قیمت میں زمین خریدنے میں ان کی مدد کریں۔
جن لاطینی امریکی ریاستوں نے یونائیٹڈ فروٹ کمپنی کوان کی مرضی کے مطابق کی قیمت پر زمین بیچنے سے انکار کیا تو امریکہ نے وہاں فوجی بغاوتیں کروا کر منتخب حکومتوں کا تختہ الٹا دیا،جہاں فوجی بغاوتیں نہیں ہوئیں تو وہاں امریکہ نے پرائیویٹ آرمی کے ذریعے منتخب حکومتوں کا تختہ الٹا۔ لاطینی امریکی ریاستوں کی نئی فوجی آمرانہ حکومتیں امریکہ کے ماتحت ہوتی تھیں اوروہ ایسی معاشی پالیسیاں بناتے تھے جو امریکی تجارتی کمپنیوں کے مفاد میں ہو یہ تمام آمراپنے ملکوں کیلئے میر جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کرتے تھے اور انہوں نے یونائیٹڈ فروٹ کمپنی و دیگر امریکی کمپنیوں کو اپنے ممالک کے غریب لوگوں کی زمینیں الاٹ کر دی تھیں بعد میںلاطینی امریکہ کے مقامی باشندے وہاں کا اصل مالک ہونے کے باوجود باہر سے آئے ہوئے امریکی کمپنیوں کے باغات میں بطور مزدور کام کرتے تھے۔ امریکہ کی مقتدرہ کو بخوبی علم تھا کہ لاطینی امریکہ میں ان کے رائج کردہ نظام کومحض عوامی طاقت سے ہی خطرہ ہے اسی لئے امریکہ نے مقامی افراد کو کمزور کرنے کیلئے لاطینی امریکی ریاستوں کا سیاسی و سماجی نظام مزید بگاڑ دیا۔ امریکہ نے لاطینی امریکہ میں بدترین قسم کے طبقاتی نظام کو فروغ دیا اور وہاںچند امریکی حمایت یافتہ اشرافیہ کو اکثریتی عوام پر مسلط کر دیا۔ وہاں قانون طاقتور اشرافیہ کے لئے کچھ اور تھا اور عام شخص کیلئے کچھ اور، عدل و انصاف نام کی کوئی چیز نہیں تھی اشرافیہ اور عام شخص میں معاشی فرق کافی زیادہ تھا۔ یہ سب ظلم ابتداء میں کیلے کے باغات کی وجہ سے ہوا تھا۔ اسی لئے امریکی دانشوروں نے بدقسمت لاطینی ریاستوں کو ’’بنانا ری پبلک ‘‘کا نام دیا۔
اگر پاکستان کی 73 سالہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ ملک بنانا ری پبلک کی تمام خصوصیات پر پور اترتا ہے ۔یہ شروع دن سے ہی سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے یہاں تین مرتبہ براہ راست مارشل لگایا گیا ہے آج تک کوئی ایسا وزیراعظم نہیں ہے جس نے اپنی پانچ سالہ مدت کو پورا کیا ہو۔ آئین بنانا اورتوڑنا یہاں کوئی بڑی بات نہیں سابق آمر پرویز مشرف نے آئین کی حیثیت کچھ یوں بیان کی تھی کہ آئین محض کاغذ کا ٹکڑا ہے ۔قانون محض پسے ہوئے طبقوں کیلئے ہے اور اشرافیہ پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا اور ملکی معیشت پر چند افراد کا قبضہ ہے لاطینی امریکی ریاستوں کی طرح یہاں کے آمر بھی ہمیشہ بیرونی دبائو میں رہے ہیں جیسے کہ ماضی میں امریکہ کے اور آج کل چین کے۔ جس طرح لاطینی امریکی آمروں نے اپنے مقامی افراد کی زمینیں امریکی کمپنیوں کو دیں تھیں اسی طرح پاکستان نے ریکوڈک ‘ سیندک اور گوادر پورٹ چین کے حوالے کر دیا ہے گزشتہ ایک ماہ میں کچھ واقعات جو سماجی میڈیا کے سائٹس پر وائرل ہوئے ہیں وہ اس ملک کی بناناری پبلک کی حیثیت کی عکاسی کرتے ہیںجیسے کہ ایک بااثر شخص کی زوجہ نے ہزارہ موٹر وے پر پولیس والوں کی تذلیل کرتے ہوئے قانون کو ماننے سے اس لئے انکار کیا کہ وہ ایک افسر کی بیوی ہیں۔ لیکن ابھی تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ماضی میں سیاسی اشرافیہ عظمیٰ کردار اور شیریں مزاری بھی پولیس والوں کی ٹھیک اسی طرح سے تذلیل کرتے نظر آئی ہیں۔ لیکن ان کے خلاف بھی قانون حرکت میں نہیں آیا۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے میاںمٹھو پر یہ الزام لگایاگیا ہے کہ وہ جبراً سندھ میں ہندو لڑکیوں کو اغواء کر کے ان کا مذہب تبدیل کروا رہے ہیں لیکن آج تک قانون کے ہاتھ میاں مٹھو تک نہیں پہنچے اور متعدد باروہ سندھ اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں فاٹااور خیبر پختونخوا کے عوام نے بھی کافی عرصہ اچھے اور برے طالبان کے بنائے گئے قانون کے تحت زندگی گزاری ۔
ملک بھر کی طرح بلوچستان کے عوام نے بھی بنانا ری پبلک میں رہنے کی بھاری قیمت ادا کی ہے یہاںمعمولی سیاسی مسئلے کا حل بھٹو اور مشرف جیسے آمروں نے طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی۔ 73سالہ تاریخ میں یہاں ایک ہی منتخب حکومت 1972ء میں نیشنل عوامی پارٹی (NAP)کی صورت میں آئی تھی جس کاتختہ کچھ ہی مہینوں میں الٹا دیا گیا۔ادھر کے مقامی ساحل وسائل کو بھی بیرونی ممالک کو معمولی قیمتوں پر دے دیئے گئے ہیں۔ سانحہ ڈنک اور سانحہ انجیرہ سے یوں معلوم ہو رہا کہ وفاق نے نہ صرف بلوچستان کا سیاسی اور معاشی نظام تباہ کیا ہے بلکہ یہاں کاسماجی نظام بھی تباہ کر دیا ہے بلوچوں نے ہمیشہ اپنی زندگی بلوچ ننگ جو ایک غیر تحریری آئین(Unwritten Constituinon) ہے اس کے تحت گزاری ہے جس کے اہم نکات یہ ہیں کہ دوران جنگ کسی عورت‘ بچے اور بزرگ کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے، ایک عورت کی خاطر یہاں 30سالہ جنگ ہوئی تھی اور چالیس ہزار لوگ مارے گئے تھے لیکن بنانا ری پبلک والے نظام میں رہنے کے بعد اکبر بگٹی اور بابو نوروز جیسے بزرگ ہوں یا لیڈی ڈاکٹر شازیہ یا ملک ناز جیسے خواتین یا برمش جیسی بچی سب کی جان و عزت کو یہاں نقصان پہنچایا گیا ہے ۔ بلوچ ننگ کا ایک اور نکات یہ ہے کہ کمزور اور اقلیت کی ہمیشہ حفاظت کی جائے گی‘ پارٹیشن کے بعد ہندوملک بھر سے ہندوستان چلے گئے لیکن ہندو برادری نے بلوچستان سے ہجرت نہیں کی کیونکہ یہاں ہندوئوں کو اقلیت ہونے کی وجہ سے ہمیشہ خاص درجہ دیا جاتا تھا لیکن ڈیرہ بگٹی میں 2006ء میں جب مشرف نے اکبر بگٹی کے گھر حملہ کیا تو اس زد میں ان کے ہندوپڑوسی آئے تھے ۔اس سانحہ کے بعد شورش جب ڈیرہ بگٹی سے نکل کر دیگر علاقوں تک پھیلی تو ہندو برادری شدید اس کے زد میں آئی سرکار کے حمایت یافتہ پراکسی گرو پس ہندوئوں کو طاقت کے حوالے سے کمزور اور معاشی حوالے سے مستحکم سمجھ کر ان کو اغواء کرتے اور تاوان کا مطالبہ کرتے تھے جس کی وجہ سے ہندو بلوچستان بھر سے ہجرت کر کے اب ہندوستان چلے گئے ہیں۔ بلوچ ننگ کا ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ آپ گھر آئے مہمان کی ہمیشہ حفاظت کریں گے لیکن سانحہ انجیرہ نے ان روایت کی دھجیاں اُڑا دیں حیرت کی بات یہ ہے کہ بلوچوں نے یہ نظام جس میں عورتوں ‘ بچوں ‘ اقلیتوں ‘ وغیرہ کے حقوق شامل ہیں یہ نظام بلوچوں نے مغرب سے 500 سال پہلے بنایا تھا ۔
آج مغرب خود کومہذب دنیا کے لقب سے مخاطب کرتا ہے اور خو دکو عورتوں کے حقوق (Women Rights) ،پناہ گزیر(Asylum seeker) اقلیتی (Minority Rights) کا علمبردار سمجھتا ہے حقیقت یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ سے قبل مغرب میں عورتوں کے حقوق ‘ اقلیتوں کے حقوق اورپناہ گزیر(Asylum seeker) کا کوئی وجود نہیں تھا بلکہ یہی مغربی ممالک اپنی کالونیوں میں ان حقوق کی پامالی کرتے تھے لیکن تاریخ سے سبق حاصل کر کے انہوں نے انسانی حقوق کے قوانین بنائے اور انسانی حقوق کی قدر کرنے لگے۔ لیکن بد قسمتی سے بلوچستان جہاں انسانی حقوق کے قوانین 500 سال قبل بنائے گئے تھے وہ خود بنانا ری پبلک والے نظام کی وجہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا گڑھ بن چکا ہے ۔ان تمام واقعات میں چاہے ان تین اشرافیہ خواتین کی محکمہ پولیس کے سپاہیوں سے بدتمیزی ہو ‘اکبر بگٹی کا ماورائے عدالت قتل ‘ سانحہ ہزارہ ٹائون ‘ سانحہ ڈنک ‘ سانحہ انجیرہ وغیرہ ان تمام واقعات میں ایک چیز یکساں ہے کہ ان تمام واقعات میں ملوث افراد کو بخوبی علم تھا کہ وہ قانون سے بالاتر ہیں اور ان کو اپنے کئے کی سزا نہیں ملے گی اگر ان جنگل کے قانون کی بجائے حقیقی قانون ہوتے تو شائد یہ واقعات رونما نہ ہوتے اور غالباً ریاست کا جو موجودہ حال وہ بھی نہیںہوتا۔ اعلیٰ حکام کو چاہئے کہ وہ بنانا ری پبلک والے نظام کو ختم کر کے انسانی حقوق کی قدر کر کے تمام شہریوں کو برابر سمجھیں یہ نظام چلتا رہا تو حالات مزید خراب ہو جائینگے۔مغرب کے حالات اس وقت صحیح ہوئے جب انہوں نے اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کیا حضرت علی فرماتے ہیں کہ ’’جو اپنی غلطیوں سے نہیں سیکھتا اس کا انجام بہت ہی بھیانک ہوتا ہے‘‘ ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں