متبادل حکمران کا مخمصہ

راحت ملک
عوام دوست سیاسی بصیرت اعلیٰ ترین سیاسی و اخلاقی مثالیت پسندی کے ساتھ آئین جمہوریت اور مملکت کے ساتھ والہانہ وفا کا ناقابل تنسیخ تقاضہ ہے جبکہ قیام پاکستان سے شروع ہوئے اس بنیادی مقصدکے منافی اعمال کے مجموعے میں ضیاء کی آمریت میں شدت آئی ہے جمہوری ثقافت کے خود رو فروغ پذیر ہونے کے مواقع میں قلت کا نتیجہ ہے کہ 2013ء کے بعد رونما ہونے والے واقعات بالخصوص پانامہ سے 25جولائی2018ء کے انتخابی معرکہ اور اس کے بعد حکومتی تشکیل کے مراحل و کارکردگی کا متفقہ نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب طاقتور حلقے بھی بر زبان خود وہم نوایان یہ کہہ رہے ہیں کہ اس حکومت سے بہتری کی توقع تو نہیں کیجا سکتی اور اس کے متبادل بھی کوئی رستہ نظر نہیں آ رہا گویا عمران کا متبادل میسر نہیں یہ کوتاہ بین تصور ہے جس میں بلاجھجک آئینی منتشاء کی پابندی سے اعتناء اور عوامی بصیرت پر اعتماد سے گریز نمایاں نظر آتا ہے۔
موجودہ حکومت کی کارکردگی کیسی ہے ؟ اس سے قطع نظر حکومتی تشکیل و تحلیل کے ضوابط و تقاضے کتاب دستور میں غیر مبہم انداز میں درج ہیں ضرورت صرف اس عزم و اخلاص کی ہے کہ دستور ٍ پاکستان کی ہر پرشق پر جے چون و چرا عمل پیرائی کو استحکام پاکستان کا نسخہ کیمیا مان لیا جائے تب جناب عمران خان سمیت کسی بھی شخصیت اور عہدے ہر متمکن فرد کی ناگزیری ختم ہو جائیگی اور آئین ریاست پر عوامی اعتمادو آنر شپ مضبوط ہوگی بلکہ ریاست کے تمام اداروں اور ان کے ذیلی محکموں کو بھی مستحکم طور پر قابل پیشن گوئی تسلسل اور عہدوں پر ترقی کے استحقاق بھی یقینی بنے گا اور یہی لائحہ عمل پاکستان کو ناقابل تسخیر مستحکم خوشحال جمہوری ملک و سماج بنا سکتا ہے اس کے برعکس ہر نقطہ نظر محض خواب خیالی ‘ شخصی یا گروہی مفادات کا تانا بانا ہوگا۔
آئین پاکستان میں ملک پر اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے اسے ریاست کے شہریوں کے ذریعے بروئے کار لانے کا عہد کیا گیا ہے اس عہد نامہ میں بھی عوام کے حق حکمرانی کے علاوہ کسی دوسرے سماجی وجود کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کیا گیا اس حق حاکمیت کا ذریعہ عوام کی منشاء و رائے ہے جس کا اظہار وہ بلا مداخلت بے خوفی سے خفیہ رائے شماری کے ذریعے کرینگے وہ جسے چاہیں حق حاکمیت تفویض کریں جسے پسند کریں اپنا نمائندہ منتخب کریں اور انہی منتخب نمائندگان کو حکمرانی ‘ اقتدار و قانون سازی کا حق حاصل ہوگا اس استحقاق کو بروئے کار لانے کی معینہ مدت زیادہ سے زیادہ پانچ برس ہے لیکن آئین میں کم از کم لازمی مدت کا تعین بھی نہیں کیا گیا بلکہ تحریک عدم اعتماد کا رستہ کھلا رکھا گیا ہے جو واضح کرتا ہے کہ حکومتی مدت کا انحصار تیز کارکردگی ملک و عوام کی بہبود اور پارلیمان کے اراکین کے اطمینان پر مبنی ہے اگر اسمبلیوں کے ارکان کی اکثریت کسی حکومت کی کارکردگی سے غیر مطمئن ہوں تو وہ اسے اقتدار و اختیار سے علیحدہ کر سکتے ہیں اہم نقطہ ہے یہ کہ کوئی حکومت پانچ سال کیلئے منتخب نہیں ہوتی یہ مدت اسمبلیوں کیلئے ہے لیکن وہ بھی لازم نہیں دستور پاکستان میں مخصوص خالات و صورتحال میں اسمبلیوں کو طے شدہ مدت سے قبل تحلیل کر دینے کا حق اور طریقہ کار وضع شدہ ہے چنانچہ یہ قیاس آرائی کرنے کی کوئی اخلاقی سیاسی اور آئینی بنیاد نہیں کہ اگر موجودہ حکومت ختم ہو تو اس کا متبادل کون ہوگا ؟ جیسا کہ بعض پیشہ ور تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ملک میں اس وقت عمران خان کا متبادل موجود نہیں حالانکہ وہ عمران خان حکومت سے سخت مایوس بھی ہیں مگر اپنے بیانیے یعنی متبادل کی عدم موجودگی کے اظہار میں وہ دستور پاکستان کو بری طرح پس پشت ڈال رہے ہوتے ہیں میں تو دونوں ممکنہ امکانات کی بات کرنا پسند کروں گا۔
الف۔ موجودہ پارلیمان کو آزادانہ طور پر ملک کیلئے سیاسی فیصلے کرنے کا موقع میسر ہونا چاہئے اس میں کسی بھی محکمے یا ادارے کو رخنہ اندازی اثر اندازی کرنے یا رکاوٹ ڈالنے سے مکمل احتراز کرنا چاہئے ایسے اقدامات سے مکمل گریز کرنا ہوگا جس کا مشاہدہ موجود چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حتمی مرحلے میں سامنے آیا تھا قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کے خلاف انتخابی عذررداری کا فی الفور فیصلہ بھی ہونا چاہئے تاکہ قومی اسمبلی کی رکنیت کے متعلق ان کی مشکوک صورتحال ختم ہو سکے۔
ثانوی طور پر اگر موجودہ پارلیمان آزادانہ طور پر عدم اعتماد کی تحریک منظور کرے یا حکومت از خود مستعفی ہوجائے کی۔جیسی بھی صورتحال ہو تو اگر اسمبلی نئی حکومت تشکیل دینے میں کامیاب نہ ہو سکے تو پھر عوام سے رجوع کرننے میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے کیونکہ مضبوط عوامی تائید کے بغیر بہترین دانشوروں کی حکومت بھی ملک میں سیاسی معاشی استحکام نہیں لا سکتی ہے اور اس وقت ملک کو سب سے زیادہ سیاسی معاشی استحکام کی اشد ضرورت ہے تاکہ درپیش داخلی بحران ‘ کرونا۔ ‘ ٹڈی دل ‘ غذائی قلت اور سرحدوں پر منڈلاتے خطرات خطے میں ابھرتے چیلنجز نئی سفارتی صف بندیوں اور لداخ سے کابل تک بدلتی صورتحال میں ایسے فیصلے لئے جا سکیں جن پر بعد ازاں پچھتاوے کی بجائے اتفاق رائے سے فخر کرنا ممکن ہو اور سب سے اہم بات یہ کہ ایسے فیصلوں کی تمام تر ذمہ داری ( سیاسی اخلاقی آئینی ) منتخب جمہوری اداروں پر عائد ہو نہ کہ ریاست کے غیر منتخب محکموں یا اداروں پر۔
بلوچستان میں موجودہ ناسودگی عدم اطمینان اور ریاست کے ساتھ معائرت کے بڑھتے خطرات کا سدباب بھی اسی طور ممکن ہوگا اگر یہاں کے عوام کو بلاروک ٹوک بلاخوف وتردو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا موقع ملے تو بلوچستان کے عوام ملک کی فیصلہ سازی کے عمل میں موثر طور پر شریک ہو سکیں یقینا اس کے علاوہ ملک کسی نئے تجربے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں