اقتدار کا گم شدہ وارث

چینی سیکنڈل کا جائزہ لیتے ہوئے میں نے بنیادی طور پر جو مفروضہ اخذ کیا ہے اس کا( چینی سکینڈل صدمہ یا لائحہ عمل) میں اظہار کر چکا ہوں۔یہ اخذ شدہ مفروضہ منطقی استدلال حالات و واقعات کے مشاہدے اور تخیل کی قوت کے ذریعے اخذکیا ہے نہ کہ سیاسی بعض وعناد کی بنیاد پر البتہ اس موقع پرقارئین میری جانبداری پر اعتراض کرسکتے ہیں جس کی تردید کیے بغیر وضاحت کے لئے عرض کردوں کہ جناب عمران خان کے سیاسی خیالات سے بیانات اور ان کی کتاب کے مطالعہ سے ملنے والی آگاہی پر منحصر ہے جبکہ ان کے طرزسیاست و اہداف اور پس پردہ عناصر کی سرپرستی کے ادراک نے میری آگاہی کو توانائی بخشی اور حتمی طور پر حکومت ملنے کے بعد ان کے فکر وعمل کے تضاد اور کارکردگی کے منفی تاثر کی شدید نوعیت نے اس پر مہر ٍ تصدیق ثبت کی ہے۔ بنیادی مفروضہ جسے پہلے بھی لکھ چکا ہوں یہ ہے کہ جناب عمران خان نے چینی سکینڈل کا پنڈورا بکس اپنی سیاسی زندگی کے بقاء کو مد نظر رکھتے ہوئے شعوری سطح پر تربیت دیا ہے اور وہ ایسی سیاسی شہادت چاہتے ہیں جو انکی ناقص حکومتی کارکردگی کی پردہ پوشی کردے انہیں آبرومندانہ طور پر شدید بحرانی دور میں حکومتی معاملات کی منصب داری سے نجات دلانے اور مستقبل قریب و بعید میں انکے سیاسی قد کو نمایاں رکھنے کا وسیلہ بنے یوں وہ ملکی سیاست میں اپنی موجودگی برقرار رکھ سکیں۔ لہٰذا میرا خیال یہ ہے کہ جناب عمران خان نے درست طور پر تاش کے پتے ترتیب دیے ہیں وہ جلد یا کچھ عرصہ بعد ایوان ٍحکومت سے نکل جانا چاہتے ہیں یہی چینی سکینڈل کا مطمع نظر و نتیجہ نکلے گا۔ البتہ قانونی طور سکینڈل کیا رنگ لائے گا؟ شاید عمران خان نے اس پہلو پر غور سے گریز کیا ہے۔
میرے مفروضے کے مطابق عمل ہو گا یا بر عکس؟ اس کا انحصار نتائج اخذ کرتے ہوئے تجزئیہ میں فعال واقعات مد نظر رکھنے ہیں جبکہ اس عمل کے خال سے بھی نظر اوجھل نہیں ہونے دیتی انہی ممکنات پر بات کرنا چاہتا ہوں۔
جناب عمران خان نے ہی چینی باہر بھجوانے کی اجازت دی تھی۔ فرانزک رپورٹ بھی اسکی نشاندہی کرتی مگر گویائی کے بغیر۔ بر آمد کی اجازت دیتے ہوئے انہوں نے مقامی مارکیٹ کی طلب اور ملک میں موجود سٹاک کے مزانیے کو فراموش کیا حالانکہ اس کی واضح نشاندہی بھی کی گئی تھی۔ موجود سٹاک اور نئی پیداوار کے مارکیٹ میں آنے کی مدت کو بھی برآمدکی اجازت دیتے ہوئے نظر انداز کیا گیا۔کیا یہ محض غفلت ہے؟ یا استعداد کار یا فیصلہ سازی میں مطلوب عوامل گھومتے آنکھیں اوجھل ہونے کی نااہلی؟نہیں میں نا اہلی پر اصرار نہیں کرونگا کیونکہ اس طور پر نااہلی ندامت خود کو ایک مجرمانہ عمل ہے اور حکومت کی برخاست کئے جانے کا عدالتی یا آمرانہ طریقہ ۔مجھے یقین واثق ہے کہ چینی برآمد کرنے کے منفی عوامل وعواقب نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوئے بلکہ فیصلہ میں اہم عامل رہتے ہیں کیونکہ اس تساہل کے منفی سیاسی اثرات بہر طور پر موجود تھے اور یہ بھی کہ اس بحران کے بطن سے قریبی جماعتی کا ساتھی بلکہ حکومت کی تشکیل میں سب سے نمایاں مرکزی کردار ادا کرنے والے دوستوں کی جگ ہنسائی ہوگی۔تادیبی کارروائی کی نوبت آئے گی اور ساتھیوں کا ساتھ پھوٹا تو حکومت کے ہاتھ سے جائے گی۔عمران خان نے ان سوالوں پر غور کیا ہوگا بلکہ یقینا کیا اور پھر پتے تربیت دیئے۔اب ان کے ہاتھ میں تاش کے چاروںپتے ہیں جن میں رنگ کا یکہ بھی شامل ہے جو آنے والے دنوں میں سیاسی کھیل میں اہم کردار کرادا کرے گا۔
اہم اوربہتر نکتہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس 5جون 2020 ء کو طلب کیا جاچکا ہے جو دو ماہ تک جاری رہے گا اس کے سادہ معنی یہ ہوئے کہ وزیراعظم قومی اسمبلی تحلیل کرے اختیار سے محروم ہو چکے ہیں۔ نیز دوران اجلاس انہیں پارلیمان کے اندر سے چینی سکینڈل پر سخت سوالات ومزاحمت کا سامنا کرتا ہے چنانچہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپوزیشن کی تنقید کی دھارکو کند کرنے کیلئے لازمی طور پر تادیبی کارروائی کرنے پر مجبور ہونگے تو کارروائی کس کے کیخلاف ہوگی ؟
چین کی مصنوعی قلت کے ذریعے (جیسا کہ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کہتی ہے کہ اور شہزاد اکبر اس پر اصرار کرتے ہیں )چینی ملز مالکان نے مقامی صارفین سے اربوں روپے لوٹے ،مہنگے داموں کوئی شے فروخت کرنا قانوناً جرم نہیں، اخلاقی بددیانتی ہے تو قیمتوں کو مستحکم اور کنٹرول میں رکھنا متعلقہ سرکاری اداروں کی ذمہ داری ہے چینی مہنگی کیونکر ہوئی؟کیونکہ اس کی برآمد کا اجازت نامہ شوگر ملز مالکان کے پاس تھا چینی کے بڑے تاجروں کے پاس ملک میں موجود چینی کی مقدار آنے والی پیداوار کا عرصے یعنی طلب ورسد کے اعداد وشمار تھا انہوں نے جب برآمد ہو جانے والی چینی کی مقدار کو دستیاب سٹاک سے کیا تو منڈی میں پیدا ہوا ہر بڑے تاجر نے وافر مقدار میں چینی کی خریداری شروع کی مارکیٹ میں قلت کے احساس نے رسد اور طلب کا توازن الٹ دیا تو پھر چینی کے نرخ بڑھتے چلے گئے جس کے تمام ترفوائد شوگر کارٹل نے سمیٹے۔
یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ اگر وزیراعظم نے عجلت یاغفلت سے چینی برآمد کرنے کی اجازت دیدی تھی اور اسکے فوری اور مقامی مارکیٹ میں چینی کے دام بڑھنے لگے۔ذرائع ابلاغ میں شور اٹھا تو کیا ان لمحوں میں اپنے انتہائی قریبی مہربان دوست چینی کے مل مالک اور تاجر جناب جہانگیر ترین نے مشورہ پوچھا نہیں ہو گا کہ چینی کی قیمت کیوں بڑھ رہی ہے ؟ یا یہ کہ اس کی قیمت میں اضافہ کیسے روکا جاسکتا ہے؟اسی سوال کو ذرا پیچھے لے جائے کیا جناب عمران خان اور جہانگرین ترین نے چینی برآمدگی کی اجازت کے مختلف مراحل میں کبھی باہمی مشورہ نہیںکیاہوگا۔؟
ان سوالوں کے جواب قارئین بہ آسانی خود اخذ کرسکتے ہیںمیرا اخذشدہ نتیجہ یہی ہے کہ جو کچھ ہو رہا تھا وہ منصوبہ بندی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ جبکہ جہانگیر ترین اور دیگر رفقاء سے ماضی کی طرح حکومت چینی کی برآمد کی اجازت کے ساتھ زرتلافی دیتی رہی تھی بس چوک یہ ہوئی کہ وہ نظر انداز کر گئے کہ ماضی کے اجازت نامے مقامی مارکیٹ کی طلب سے اضافی مقدار پر مبنی ہوئے تھے اور اس دور میں اس نقطے کو بھلا دیا گیا تھا۔ غفلت سے نہیں شعوری سیاسی منصوبہ بندتقاضوں کے تحت بہت ممکن ہے کہ جون کے پہلے ہفتے شروع ہونے والے قومی اسمبلی اجلاس سے سیاسی درجہ حرارت شدت اختیار کرجائے۔انکوائری رپورٹ پر قانونی کارروائی ناگزیر ہو گئی تو وفاق اور پنجاب کی مخلوط حکومتوں کے وہ اتحادی جو براہ راست چینی سکینڈل میں ملوث پائے گئے تھے اسی سیاسی فضاء پیدا کر لیں کہ حکومتی علیحدگی ان کا سیاسی اقدام دکھائی دے نہ کہ احتساب یا قانونی کارروائی سے بچائو کی تدبیر۔ چنانچہ دو ان اجلاس وفاقی اور پنجاب کی حکومتوں کا ٹوٹ جانا بعید از قیاس نہیں۔سوال یہ ہے کہ ایسا ہوا تو پھر کیا ہوگا؟
کیا نئی حکومت سازی کی مواقع موجود ہونگے ؟اور کیا نئی سیاسی صف بندی حالیہ بندوبست کا از سر نو اعادہ ہوگی ؟یا اس کے اجزائے ترکیبی مختلف ہونگے ؟کیا نئی حکومتی تشکیل پی ٹی آئی کے بغیر ہوگی یا اس کا ایک معقول حصہ فاروڈ بلاک کی شکل میں نئی صف بندی میں شریک ہوگا؟ان سوالات کے ٹھوس جوابات سرئے دست ممکن نہیں۔سیاست امکانات کا کھیل ہے تو تجزیہ کاری انہی ممکنات کی قیاس آرائی کی منطقی ترتیب کا عمل ہے۔عصر حاضر کے سماجی علوم کی اہم دریافت تاریخ اور رواں واقعات میں معاشی عنصر کی بنیادی اہمیت کو تسلیم کرنا ہے عمران حکومت کے لئے قبل از کرونا معاشی ابتری کیا کم تھی کہ کرونا نے اسے منفی اشارے میں بدل دیا ہے جبکہ چینی سیکنڈل بھی اپنی حرکیات میں مصالحتی عنصر ہے۔ جو حالات کی نوعیت سمیت اور اثرات متعین کرے گا۔ بلاشبہ درپیش حالات کا مقابلہ کرنا اسے صحیح ڈگر پر ڈالنا عمران خان کے بس کا روگ نہیں یہ بات نوشتہ دیوار بھی ہے اور جناب عمران خان کا احساس وادراک شخصی بھی تو بند گلی سے نکلنے کیلئے بہتر لائحہ عمل کیا ہوسکتا تھا؟ میری رائے میں چینی سکینڈل اس کیلئے بہترین راستہ مہیاکرتا ہے سونے پر سہاگہ اب حکومت گندم کی قلت ومہنگائی پر بھی انکوائری کرانے کا عندیہ دے چکی ہے۔ عمران خان بحران کے ذریعے بحران سے نکلنے کی کوشش کررہے ہیں اپنے اعصاب کی مضبوطی بارے ان کے دعویٰ کی حیثیت اسی زاوئییسے قابل تفہیم ہوسکتی ہے۔
اگر قومی اسمبلی اجلاس کے دوران حکومت بہ امرمجبوری چینی مافیا پر ہاتھ ڈالے گی تو امکان ہے کہ متاثرہ اتحادی الگ ہوجائیں تو حکومت اسمبلی میں اکثریت کھودیگی کیا ان حالات میں طاقت کے مراکز اسمبلی کو نئی حکومت سازی کا موقع دینا پسند کرینگے جبکہ یہ بھی واضح ہے کہ نئی حکومت پی ٹی آئی حکومت سے مختلف ہوگی؟ اس امکان کا رد نہیں کیاجاسکتا کہ آج کی اپوزیشن اس مرحلے میں طاقت کے مرکزسے مفاہمت کرلے تو ایک حکومت معرض وجود میں آسکتی ہے کیا اپوزیشن مفاہت کی سیاسی قیمت چکانے کی متحمل ہوسکتی ہے؟ اور اپوزیشن پر بدعنوانی کے الزامات عائد کرنے والے طاقتوروں کیلئے نئی صورتحال کا اخلاقی بوجھ برداشت کرنا سہل ہوگا؟دوران اجلاس حکومت کے خاتمے سے اسمبلی تحلیل نہیں ہوسکتی اگر اسمبلی نئی حکومت تشکیل دینے میں ناکام رہے تو خود بخود اسمبلی تحلیل ہو جاتی ہے ممکن ہے کہ طاقت کے مراکز جو حکومتوں کے بت تراش بھی ہیں اس صورتحال کی حوصلہ افزائی کرینگے تاکہ عبوری نگران حکومت قائم ہو جائے جسے رفتہ فتہ ٹیکنو کریٹ کی حکومت کی شکل دے کر مخدوش معروضی تناظر میں عدلیہ کے ذریعے آئینی طور پر طے شدہ مدت سے زیادہ عرصہ بر سراقتدار رہنے کا بندوبست کر لیا جائے ایسا ہونا ممکن ہے کہ ہماری عدلیہ نے آمر جنرل پرویز مشرف کو تین سال بر سر اقتدار رہنے کے علاوہ آئین میں ضروری ترامیم کا ایسا اختیار بھی تفویض کیاتھا جو بذات خود سپریم کورٹ کے پاس بھی نہیں تو ماضی کے اس مثالیے کی بنیاد پر قیاس آرائی اساس سے خالی نہیں اس میں اتنا اضافہ کرنا چاہونگا کہ اس طرح صاحبان اختیار کیلئے سیاسی کھیل میں جناب عمران خان اور ان کی جماعت کی ضرورت ختم ہو جائیگی یہ ان کے سیاسی سفر کا انجام ہوگا۔
بحث کے اس مرحلے پر یہ نقطہ واضح کرنا مناسب رہے گا کہ کئی ماہ سے بہت سے معتبر صحافی مثلا سہیل وڑائچ مختلف کالموں میں اشارہ دے چکے ہیں کہ عمران خان حکومت ہر لحاظ ناکام ہوچکی ہے لیکن اسے اقتدار میں لانے نااہلی کے باوجود اسے فی الحال ایوان حکومت سے فارغ نہیں کرنا چاہتے۔کیونکہ ان کے پاس عمران خان کا کوئی متبادل موجود نہیں جن سے معلوم ہوتا ہے ملک پھر کس کی حکومت ہے وہ کس طور پر کام کریں اس کا فیصلہ کن اختیار ان کے پاس جنہوں نے آغازملازمت میں حکومتی سیاسی امور میں غیر جانبدار رہنے کا حلف اٹھایا ہوتا ہے تو کیا اسمبلی کی تحلیل کی صورت وہ شفاف منصفانہ جمہوری انتخابات کو عوامی امنگوں کے مطابق حکومت سازی کا موقع دینے پر رضا مند ہونگے ؟ مستقبل قریب میںالیکشن کا امکان نہیں تو پھر چینی سکینڈل کے عقب میں کارفرما سیاسی تگڑم کو سمجھے جو جناب عمران خان کے ایوان قتدار سے آبرو مندانہ رخصتی اور آزریت کے خوابوں کی حتمی تکمیل کی راہ ہموار کرتی دیکھائی دے رہی ہے۔کھیل کا آخری شروع ہوچکا ہے دیکھئے پردہ کب اور کیسے گرتا ہے۔ہاں البتہ ملک کی حقیقی،عوامی،جمہوری، سیاسی قوتوں کے لئے یہ منظر نامہ گہرے امتحان کا مرحلہ ہے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں