سراب


انور ساجدی
وزیراعظم ہر روز عوام کو بھاشن دیتے ہیں کہ کرونا ختم ہونے والا نہیں اس لئے اسکے ساتھ مل کر رہناہوگا عوام بے چارے پہلے سے تیار ہیں وہ جانتے ہیں کہ آئندہ3سال تک دونوں ’’وائرسوں‘‘ کے ساتھ رہنا پڑے گا انہیںیہ بھی معلوم ہے کہ3سال تک ان کا کیا حشر ہونے والا ہے عین ممکن ہے کہ3سال بعد کوئی بھیک خیرات اور زکوٰۃ دینے والا بھی نہ ہوکیونکہ دو وائرس تو پہلے سے حملہ آور تھے اب ٹڈیوں نے بھی حملہ کردیا ہے اگرپرانا زمانہ ہوتا تو لوگ کہہ سکتے تھے کہ قدرتی آفات اور زمینی نحوستیں اس وقت آتی ہیں جب کوئی بدطفیت حکمراں مسلط ہو لیکن ہمارے وزیراعظم ریاست مدینہ کی بنیاد ڈال رہے ہیں لہٰذا انکے بارے میںکوئی گستاخی نہیں کی جاسکتی البتہ زمینی حقائق بہت تلخ اور بندہ مزدور کے اوقات مزید تلخ ہیں کچھ بھی ہو حکومتی میڈیا لشکر جو بھی کہے حالات جیسے بھی ناگفتہ ہوں حکومت اپنے آپ کو بری الزمہ قرارنہیںدے سکتی مراد سعید جتنا چیخے فیاض الحسن چوہان مخالفین بھی جتنی گولہ باری کریں علی زیدی اور فردوس شمیم نقوی ہزار جھوٹ بولیں لیکن عوام یہی مانتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت تباہی کی سونامی لے کر آئی ہے اور اسکے اثرات بھی سونامی جیسے ہی نکلیں گے دوردور تک بہتری کے آثار نظر نہیںآرہے ہیں حکومت کے تمام دعوے سراب ثابت ہوئے ہیں شدید ناکامی کو کامیابی میںبدلنے کیلئے اس حکومت کے سابق برطرف وزیرخزانہ اور موجودہ ڈی فیکٹو ڈپٹی پرائم منسٹر کی تدابیر صدا بہ صحرا ثابت ہورہی ہیں یہ الگ بات وہ اسلام آباد کی نشست سے کامیاب ہوئے ہیں وہ اپنی مہاجر شناخت کو چھپانے کی حتیٰ الامکان کوشش میںلگے ہیں لیکن ان کا خاندانی پس منظر زیادہ تابناک نہیں انکے والد غلام عمر ایوب خان کے مارشل لاء کاحصہ تھے کراچی کی زمینوں پر پہلا ہاتھ انہوںنے ڈالا تھا اس کا ثبوت شاہراہ فیصل پر میرنبی بخش زہری کاوہ بنگلہ ہے جس کا پلاٹ جنرل غلام عمر نے میر صاحب کو بیچا تھا حمود الرحمن کمیشن نے جنرل صاحب کو سقوط ڈھاکہ کاایک کردار قرار دیا تھا اور سفارش کی تھی کہ ان پر غداری کا مقدمہ قائم کیاجائے لیکن جس طرح جنرل یحییٰ خان جنرل نیازی ایئرمارشل رحیم ٹکا خان صاحبزادہ یعقوب علی خان اور دیگرذمہ داروں پر مقدمہ نہیںچلا اسی طرح جنرل عمر بھی آزاد رہے اور پرتعیش زندگی گزارکر طبعی موت مرے۔ چھوٹے صوبوں سے نفرت اسدعمر کی سرشت میںشامل ہے اس لئے منصوبہ بندی کے وزیر کی حیثیت سے وہ بھرپور کوشش کررہے ہیں کہ صوبوں کے بجٹ میںکٹوتی کی جائے تاکہ دفاعی اخراجات پورے کئے جاسکیں موصوف کافی منتقم مزاج بھی واقع ہوئے ہیں انہیںاپنی گزشتہ برطرفی کا بڑا ملال ہے اس لئے انکے مشورے پر ایک چیف اکانومسٹ مقرر کیاجارہا ہے تاکہ حفیظ شیخ کو نیچا دکھایاجاسکے یا انکی رخصتی کا بندوبست کیاجاسکے اگرچہ وہ پرائیوٹائزیشن کے وزیر نہیں لیکن اہم ملکی اثاثوں کوفروخت کرنے کا آئیڈیا انہوںنے پیش کیا اور یہ ذمہ داری بھی انہیں سونپ دی گئی پہلے قدم کے طور پر انہوںنے پاکستان اسٹیل مل کے ’’تمت باالخیر‘‘کااعلان کیا اور ایک ہی دن میںساڑھے9ہزار محنت کشوں کو انکی روزی سے محروم کردیا یہ تو معلوم نہیں کہ اسد عمر اپنے باس کی ہدایت پر اسٹیل مل کو کس کے ہاتھوں فروخت کرنا چاہتے ہیں آیا یہ اہم اثاثہ اپنے کسی اے ٹی ایم کو دینا مقصود ہے یا کسی انٹرنیشنل ساہوکار کے ہاتھ فروخت کرنا ہ جو بھی ہونا ہے جلد سامنے آجائیگا۔
قیصر بنگالی نے سوشل میڈیا پرانکشاف کیا ہے کہ حکومت کا بجٹ اور تجارتی خسارہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ اس نے3اہم ہوائی اڈے پورا ٹیلی کام سیکٹر پی آئی اے اور گوادر پورٹ فروخت کرنے کا پروگرام بنایا ہے ٹیلی کام شعبہ بیچنے کامطلب یہ ہے کہ آپ کا کمیونیکیشن سسٹم حکومت کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور عین ممکن ہے کہ یہ کسی دشمن کے ہاتھ لگ جائے یہ شعبہ کافی ادارے کنٹرول کرتا ہے فورجی اور آئندہ کچھ عرصہ میںفائیوجی کی نیلامی بھی اس کی ذمہ داری ہے چنانچہ یہ نہایت منافع بخش سیکٹر ہے جنرل پرویز مشرف نے ٹیلی فون دوبئی کے سیٹھ کو اونے پونے بیچ دیا تھا حالانکہ اسکی بلڈنگز کی قیمت10ارب ڈالر سے زائد تھی سرکاری طور پر اسکی قیمت 5ارب ڈالر مقررکی گئی وہ بھی دوبئی کے شیخ نے ابتک ادا نہیںکئے اگر کراچی ،اسلام آباد اورلاہور کے ہوائی اڈے حکومت کے ہاتھ سے نکل گئے تو جنگ کی صورت میںوہ کیا کرے گی جنگ توخیر ہونی نہیں ہے کیونکہ موجودہ بزدل قیادت تو اپنے سائے سے بھی ڈرتی ہے اس نے کیاجنگ کرنی ہے۔
قیصر بنگالی نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ حکومت گوادر پورٹ کے91فیصد مالکانہ حقوق فروخت کرنا چاہتی ہے اگرواقعی ایسا ہے تو یہ پورٹ چین کے سوا اورکوئی نہیں خریدے گا کیونکہ پورٹ ابھی تک زیر تعمیر ہے اور چین کے اہم مفادات اس سے وابستہ ہیں پورٹ بیچنے کا مطلب گوادر بیچنا ہوا اگر چین پورٹ کے قرب وجوار کے علاقے کا کنٹرول سنبھالتا ہے تو بلوچوں پر کوئی خاص اثر نہیںپڑے گا کیونکہ وہ ایک محکومی سے نکل کر دوسری محکومی میںچلے جائیںگے غلام غلام ہوتا ہے چاہے اس کا آقا کوئی بھی ہو۔
لیکن جب ایک ریاست کی آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہوں تو اسے اپنے سارے اثاثے بیچ کر بھی خسارے میںرہنا پڑتا ہے بہتر ہے کہ حکومت کچھ علاقے لیز پر چین کو دیدے اور اس سے اتنے پیسے حاصل کرے جس سے سیکیورٹی کے اخراجات پورے ہوں ویسے اس خیال پر حکومت نے ایک حد تک عمل شروع کردیا ہے کراچی سے پشاور تک جو ریلوے لائن بچھے گی اس پرساڑھے سات ارب ڈالرکاتخمینہ ہے یہ رقم چین خرچ کرے گا اور ریلوے لائن کے مالکانہ حقوق اسکے پاس ہونگے یعنی وہ کرایہ وصول کرے گا اگرایئرپورٹ بھی چین کو فروخت کردیئے جائیں تو وہ اچھا خاصہ منافع کمائیگا جیسے کہ وہ افریقہ کے کئی ایئرپورٹ خرید کر منافع حاصل کررہا ہے۔
باقی باتیں تو ٹھیک لیکن چین پاکستان کی گورننس کیسے ٹھیک کرسکتا ہے جب حکومت نااہل ہوتو خرابیوں پہ خرابیاں آتی ہیں جو بحرانوں کا شکل اختیار کرتے ہیں مثال کے طور پر گزشتہ دو سالوں میںتبدیلی کے نام پر اس حکومت نے معیشت سمیت ہر چیز کا بیڑہ غرق کردیا ہے لیکن یہ اپنی کوئی کمی اور خامی تسلیم کرنے کو تیار نہیں یہ مخالفین پر غازی ارطغرل کے فوجوں کی طرح حملہ آور ہوتی ہے اس کا سوشل میڈیا ونگ اتنی گولہ باری کرتا ہے کہ مخالفین پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اگر کبھی یہ زیادہ مشکل میںآجائے تو اسکے مہربان اسے امریکی خاتون سنھتیارچی ادھار پردیدیتے ہیں تاکہ لوگ غیر ملکی خاتون کی باتوں پر یقین کرلیں یہ خاتون تو اب غیر نہیں رہی کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت نے اسے پشتونخوا کے محکمہ آثار قدیمہ میںبھرتی کرلیا ہے یعنی یہ حکومتی ٹیم کا حصہ ہے اور اچھی خاصی تنخواہ پر کام کرتی ہے بخشش مراعات اورانعامات الگ سے ملتے ہیں کیونکہ وہ صرف ایک سرکاری ملازمت نہیں کرتی بلکہ کئی حساس ذمہ داریاں بھی ادا کرتی ہیں کچھ بھی ہو یہ حکومت محض پروپیگنڈے کے زور پر چل رہی ہے اچھے کاموں اور اچھی کارکردگی سے انکادامن خالی ہے اسکا سوشل میڈیا ونگ یا غیر ملکی خواتین کب تک اسکی ناکام کارکردگی کو چھپانے میںکامیاب رہیں گی اگریہ ایک دفعہ اقتدار سے اتر جائے تو اسکے اکابرین کا ایوب خان یحییٰ خان جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف سے بھی براحال ہوگا انکے لئے سیاست تو کجا اس ملک میںرہنا ہی مشکل ہوجائے گا کیونکہ سرابوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیںہوتا جھوٹ کے پائوں نہیںہوتے وہ آخر سامنے آہی جاتا ہے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں