سیاست میں غیر اخلاقی دور کا آغاز

انور ساجدی
کرونا جہاں خلق خدا کیلئے زحمت بن کر آیا ہے وہیں حکومت کیلئے باعث نعمت ہے اس کی وجہ سے حکومت تو ٹھیک ٹھاک ہے لیکن اپوزیشن کرونا زدہ ہوگئی ہے بیشتر سرکردہ اپوزیشن رہنما گھروں میں مقید ہیں ڈیجیٹل لنک کے ذریعے اے پی سی کرنا محض خانہ پری ہے اپوزیشن کی مجبوری یہ ہے کہ وہ نہ ہڑتال کی کال دے سکتی ہے کیونکہ کاروبار اور بیشتر ٹرانسپورٹ پہلے سے بند ہے اور نہ عوام کو سڑکوں پر آنے کا کہہ سکتی ہے ورنہ حکومت کرونا پھیلانے کا الزام عائد کردے گی۔
مولانا فضل الرحمن اور پیپلزپارٹی نے وڈیولنک کے ذریعے اے پی سی بلائی یعنی عوام کے سامنے حاضری لگادی کہ ہم خاموش نہیں ہیں اسی طرح حکومت اپنی ناقص کارکردگی چھپانے کیلئے گڑھے مردے اکھاڑنے پر اکتفا کررہی ہے چینی اسکینڈل کی رپورٹ منظر عام پر لاکر حکومت نے خوب داد سمیٹی لیکن اصل ملزم جہانگیرترین کو ولایت جانے دیا گیا نہ ان کا نام ای سی ایل پرڈالا گیا نہ نیب نہ انکوائری کیلئے بلایا اور نہ ایف آئی اے نے جانے سے روکا یہ تو معلوم نہیں کہ جہانگیر ترین مستقل قریب میں واپس آئیں گے کہ نہیں اگر نہیں آئے تو کارروائی نوازشریف،شہبازشریف،خاقان عباسی اور مراد علی شاہ کیخلاف ہوگی۔نام نہاد سرائیکی صوبہ کے کردار خسرو بختیار کو تو پہلے سے بچالیا گیا ہے لگتا ہے کہ جہانگیر ترین کے پاس اہم راز ہیں بلکہ ان رازوں کی رسیدیں بھی ہیں ملک ریاض کی طرح خفیہ وڈیوز بھی ہیں اسی سبب حکمران خوفزدہ ہیں اسی لئے وہ چینی اسکینڈل کو نیب کے حوالے کرکے نیا رخ دے گئے ہیں تاکہ بات صرف اصل ملزم پر نہ آئے حکومت وقت گزاری کیلئے نئے ڈرامے اسٹیج کررہی ہے امریکی خاتون روز انٹرویو دے کر اپنے ڈرامے کی نئی اقساط دکھارہی ہے اس نے چوں چوں کے مربہ میں نمک ڈالنے کیلئے پی ٹی آئی کے ایک وفاقی وزیر پر زیادتی کاالزام بھی لگادیا ہے کوئی ان سے نہیں پوچھتا کہ9سال سے انکے ساتھ مسلسل زیادتی ہورہی ہے اسکے باوجود وہ پاکستان میں کیوں قیام پذیر ہیں جبکہ اتنے عرصہ سے وہ خاموش کیوں رہیں ہوسکتا ہے کہ سنتھیاڈی رچی اپنی کہانی میں مزید چاشنی ڈالنے کیلئے ن لیگ کی بعض شخصیات پر بھی الزام لگائے کیونکہ انہوں نے اسکی دھمکی دی ہے اور کہا ہے کہ ن لیگ زیادہ نہ اترائے اسکے بارے میں بھی اسکے پاس مواد موجود ہے۔ویسے حیرانی کی بات ہے کہ سنتھیارچی کے ہدایت کاروں نے انہیں شہبازشریف سے کیسے چھپائے رکھا کیونکہ چھوٹے میاں اپنے سے دراز قامت اور خاص طور پر غیر ملکی گوریوں پر جلد لٹو ہوجاتے ہیں شائد خاتون کو جان بوجھ کر چھوٹے میاں سے دور رکھا گیا کسی نے لکھا ہے کہ رحمن ملک پر الزام تراشی نسلی امتیاز ہے کیونکہ وہ کالے ہیں بچپن میں ملک صاحب اس سے بھی زیادہ کالے تھے جب وہ گبول پارک کے قریب عبدالستار گبول کے گھر میں رہتے تھے تو لوگ انہیں مقامی نیگرو سمجھتے تھے حالانکہ رحمن ملک کا دعویٰ ہے کہ ان کا آبائی علاقہ سیالکوٹ ہے اگر یہ دعویٰ صحیح ہے تو وہ سیالکوٹ کے پہلے نیگرو ہیں کیونکہ اس علاقہ کے لوگ سانولے ضرور ضرور ہیں کالے نہیں نہ ہی انکے بال ملک صاحب کی طرح گھنگریالے ہیں پی ٹی وی کے دور کے ایک اینکردلدار پرویز بھٹی بھی ملک صاحب سے کافی ملتے جلتے تھے رحمن ملک میں کافی صلاحیتیں ہیں وہ لیاری سے اٹھ کر اونچے مقام تک پہنچے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ایف آئی اے میں نوکری لگ گئی کرتے کرتے محترمہ تک پہنچ گئے ڈپٹی ڈائریکٹر ہونے کے باوجود انہیں ایف آئی اے کاسربراہ مقرر کردیاگیا۔ملک صاحب نے ایف آئی اے کے دنوں میں جومال ومتاع اکٹھا کیا تھا وہ لیکر لندن گئے ایجویٹرروڈ کے نہایت پوش علاقے میں بہت ہی قیمتی اور کشادہ فلیٹ خریدا جبکہ خود بینظیر کا فلیٹ بہت معمولی تھا اس لئے محترمہ اجلاس ملک صاحب کے فلیٹ پر بلاتی تھیں غالباً چارٹر آف ڈیموکریسی پر بھی اسی فلیٹ میں دستخط ہوتے تھے جب محترمہ2007ء کو جلاوطنی ترک کرکے واپس آرہی تھیں تو رحمن ملک انکے سیکیورٹی چیف بن گئے18اکتوبر2007ء کو کارساز میں جوتباہ کن حملہ ہوا تھا اسکے باوجود راولپنڈی کے جلسہ کیلئے رحمن ملک نے خاطر خواہ انتظامات نہیں کئے تھے بلکہ جب محترمہ پر ہولناک خودکش حملہ ہوا تھا تو موصوف بابر اعوان کے ہمراہ وقوعہ سے فرار ہوگئے تھے بھئی اچھے سیکیورٹی چیف تھے کہ یہ بھی نہیں دیکھا کہ حملہ کے بعد محترمہ کی کیا حالت ہے ملک صاحب کی اس بزدلی یا چالاکی کی وجہ سے محترمہ کی شہادت کے بعد سازشی تھیوریوں میں رحمن ملک پر بھی انگلی اٹھائی گئی۔یہ تک کہا گیا کہ اسٹیج پر خالد شہنشاہ جو عجیب وغریب حرکتیں کررہے تھے کچھ مشکوک اشارے دے رہے تھے جنہیں بعد میں کراچی میں قتل کردیا گیا اس قتل سے بھی ملک صاحب کا نام جوڑا گیا لیکن سازشی تھیوری کے باوجود زرداری نے کلین چٹ دے کر رحمن ملک کو داخلی سیکیورٹی کا انچارج بنایا انکے دور میں امن وامان کی صورتحال انتہائی خراب تھی فاٹا اور بلوچستان جل رہے تھے انڈیا نے الزام لگایا تھا کہ اجمل قصاب کو پاکستان نے بمبئی حملوں کیلئے بھیجا تھا انڈیا کے جواب میں رحمن ملک نے پارلیمنٹ سے 3گھنٹہ خطاب کیا تھا یہ خطاب لفاظی کا شاہکار تھا اس سے حکام بالا بہت خوش ہوئے تھے کہاجانے لگا تھا کہ انہیں اہم حلقوں کا اعتماد حاصل ہوگیا ہے وہ الطاف حسین کے بھی بہت قریب تھے جب بھی ایم کیو ایم نخرے شروع کرتی تھی ملک صاحب لندن جاکر الطاف حسین سے ملاقات کرتے تھے جس کے بعد ایم کیو ایم کی دھمکی واپس ہوتی تھی جب زرداری برسراقتدار آئے تو محترمہ کے قتل کیخلاف اقوام متحدہ کے ذریعے انکوائری کروائی گئی اسکاٹ لینڈ یارڈ کو بھی بلایا گیا جس کے ایک تفتیشی افسر کے مطابق ایک دن رحمن ملک نے ایک تحریری رپورٹ انکودی اورکہا کہ اسے آپ کی فائنل رپورٹ ہونی چاہئے افسر کے مطابق وہ حیران رہ گئے کہ یہ شخص کیاکررہا ہے خیر اس انکوائری کاتو کوئی نتیجہ نہیں نکلا تاہم اس دوران کئی لوگوں کاخیال تھا کہ اگر رحمن ملک،بابر اعوان،صفدر عباسی اور ناہید خان سے انکوائری کی جاتی تو بہت مفید معلومات حاصل ہوسکتی تھیں یا پرویز مشرف بتاسکتے تھے کہ محترمہ کو کن طاقتوں نے مل کر قتل کیا عمومی خیال یہی ہے کہ محترمہ کے قتل میں دشمنوں کے ساتھ بعض اپنے لوگ بھی شامل تھے بلکہ پرویز مشرف تو اس کا الزام آصف علی زرداری پر لگایا تھا۔بہر حال یہ تک نہیں ہوا کہ جو لوگ محترمہ کے ساتھ لینڈ کروزر میں بیٹھے تھے کوئی کمیشن بلاکرپوچھتا کہ چھت کی کھڑکی کھولنے کالیور کس نے دبایا تھا اتفاق سے گاڑی میں جو لوگ بھی بیٹھے تھے ان میں سے کسی نے لب کشائی نہیں کہ ان میں سے صرف مخدوم امین فہیم اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں جبکہ صفدر عباسی،ناہید خان،فرحت اللہ بابر حیات ہیں لیکن انہوں نے لیور دبانے کااہم ترین راز آج تک چھپائے رکھا۔
اگرچہ زرداری نے محترمہ کی شہادت کے بعد رحمن ملک کو بڑا نوازا لیکن محترمہ کے نیازمندوں کو وہ ایک آنکھ نہیں بھاتے موصوف کی تہری شخصیت ہے وہ ابتک پیپلزپارٹی سے کیوں چمٹے ہوئے ہیں اسکی بھی ایک وجہ ہوگی ورنہ وہ بھی بابراعوان کی طرح چڑھتے سورج کودیکھ کر داغ مفارقت دے جاتے معلوم نہیں رحمن ملک کی اپنے میرحاصل خان سے اتنی گہری یاری کیوں تھی ملک صاحب اتنے ہوشیار شخص ہے کہ ان پر آج تک کوئی مالی اسکینڈل نہ بن سکا حالانکہ صرف انکے لندن کے فلیٹ کی مالیت 30لاکھ پاؤنڈ ہے۔
جب مالی اسکینڈل نہ بن سکا تو انکے خلاف ایک غیرشائستہ اخلاقی اسکینڈل تراشا گیا لگتا ہے کہ موصوف نے آخری ذمہ داری صحیح انجام نہیں دی ہوگی جبکہ دوسری طرف آصف زرداری اور بلاول زرداری بھی ان دنوں ملک صاحب کیلئے کوئی پسندیدگی نہیں رکھتے ایک تو رحمن ملک سیاسی آدمی نہیں ہیں دوسرے یہ کہ وہ پارٹی کے اصل کیڈرسے نہیں ہیں وہ پیپلزپارٹی سے بہت زیادہ واقفیت نہیں رکھتے۔
کئی لوگوں کاخیال ہے کہ طاقت کے عناصر کے پاس عذیر بلوچ اور رحمن ملک ترپ کے پتے کی حیثیت رکھتے ہیں جب بھی ضرورت پڑے عذیر کے اقبالی بیان اور رحمن ملک کی سلطانی گواہی کو استعمال میں لایاجائیگا امریکی خاتون کا الزام تو پہلا قطرہ ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے اور ناقابل یقین انکشافات سامنے آئیں گے سناہے کہ بلاول کے آکسفورڈ میں دوران تعلیم جو بھی وڈیوز اور تصاویر ہیں وہ یکجا کرلی گئی ہیں یہ مواد بہ وقت ضرورت کام میں لایا جائیگا ہوسکتا ہے کہ آئندہ انتخابات کا وقت اسکے لئے موذوں ترین ہو ایسی ہی وڈیوز شریف فیملی کی موجود ہیں ان میں سب سے زیادہ مواد شہبازشریف کے بارے میں ہے اسی لئے وہ زبانی کلامی جمع خرچ کے علاوہ صحیح اپوزیشن لیڈر کا رول ادا کرنے سے قاصر ہیں۔
اگر یہ باتیں درست ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ ڈیجیٹل دور میں خود کوصاف رکھنا بڑا مشکل ہے جو لوگ ولایت جاکر آزاد ماحول میں رنگ رلیاں مناتے رہے ہیں انکے وہم وگماں میں بھی نہیں ہوگا کہ جو کچھ وہ کررہے ہیں کوئی انہیں دیکھ رہا ہے۔
حکومت نے ایسی وڈیوز اورثبوت حاصل کرلئے ہیں کہ جن کی بنیاد پر اسی سال برٹش حکومت سے باقاعدہ مطالبہ کیاجائیگا کہ وہ نوازشریف کو ملک سے باہر بھیجے یہ مواد منی لانڈرنگ اور ناجائزذرائع سے جائیدادوں کی خریداری سے متعلق ہے مشرف دور میں اسحاق ڈار نے اپنے اقبالی بیان میں بھی کئی انکشافات کئے تھے لیکن قاضی فائز عیسیٰ نے حدیبیہ پیپر مل کا کیس خارج کرکے شریف فیملی اور اسحاق ڈار کو بہت بڑی تباہی سے بچایا تھا۔نوازشریف اور اسامہ بن لادن کے جو تعلقات تھے انکے کچھ ثبوت بھی ہاتھ لگے ہیں جو بھی ہو سیاست میں اہم حلقوں کی جانب سے غیر اخلاقی بلیک میلنگ کاجو دور شروع ہورہا ہے وہ سب کیلئے تباہ کن ثابت ہوگا کیونکہ بالآخر سارے سیاسی رہنما بیوروکریٹ اورپوری اشرافیہ اسکی لپیٹ میں آجائے گی جس کے نتیجے میں سب کے نصیب میں رسوائی اور دائمی غلامی لکھ دی جائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں