اوربِل گیٹس بول پڑے،کروناویکسین مائیکروچِپ کا ’احمقانہ‘سازشی نظریہ مسترد

مائیکرو سوفٹ کے بانی، دنیا کی ارب پتی شخصیت بِل گیٹس نے کرونا وائرس کی ویکسین کے ساتھ لوگوں میں مائیکرو چِپ لگانے کے ’سازشی نظریے‘ کو مسترد کردیا ہے اور اس کو ’احمقانہ‘ قرار دیاہے۔

دنیا میں کرونا وائرس کی وَبا پھیلنے کے بعد سے بل گیٹس پر یہ الزام عاید کیا جارہا ہے کہ وہ اس کے علاج کی مجوزہ ویکسین کے ساتھ ایک چِپ بھی شامل کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے وہ دنیا بھر کی نگرانی کرسکیں مگر انھوں نے صحافیوں سے گفتگو میں اس طرح کی باتوں کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔

نیویارک پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق بِل اور میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن گاوی ویکسین اتحاد کے لیے مزید ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کی امداد کا اعلان کرنے والے ہیں۔یہ اتحاد کرونا وائرس کے علاج کے لیے ویکسین کی تیاری پر کام کررہا ہے۔

بل گیٹس نے کہا کہ’’ جس انداز میں یہ بات پھیلائی جارہی ہے،آپ اس کو مزاح آمیز قرار دے سکتے ہیں لیکن میرے خیال میں یہ کوئی مزاح کی چیز نہیں۔میرا کبھی مائیکرو چپ طرز کی کسی چیز سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔‘‘

انہو نے کہا کہ ’’ اس کی تردید بھی مشکل ہے کیونکہ یہ ایک ایسی احمقانہ اور حیران کن چیز ہے کہ اگر اس کا اعادہ بھی کیا جاتا ہے تو یہ بظاہر اس کو ساکھ عطا کرنے والی بات ہے۔‘‘

مائیکروسوفٹ کے بانی پر میڈیا میں یہ الزام عاید کیا جارہا ہے کہ وہ کرونا کی ویکسین اسی لیے تیار کروا رہے ہیں کہ وہ اس میں ایک ایسی مائیکرو چپ شامل کرسکیں جس کے ذریعے وہ دنیا کی پوری آبادی کا سراغ لگا سکیں گے اور اس کو کنٹرول کرسکیں گے۔اس سازشی نظریے کو بالعموم مسترد کیا جاچکا ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس میں کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور ہے۔

یاہو نیوز اور یو گورنمنٹ کے ایک سروے کے مطابق امریکا میں 44 فی صد ری پبلکنز اس سازش نظریے میں یقین رکھتے ہیں جبکہ صرف 26 فی صد ری پبلکنز نے اس اسٹوری کو غلط قرار دیا ہے۔دوسری جانب 19 فی صد ڈیمو کریٹس بھی اس نظریے میں یقین رکھتے ہیں۔

بل گیٹس کا کہنا ہے کہ ’’یہ تھیوری اگرچہ کہ’’احمقانہ‘‘ ہے لیکن یہ نتائج کو تباہ کرنے کی صلاحیت کی حامل ہے اور کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔‘‘

انھونے کہا کہ:’’غلط معلومات کسی نقطے پر ہمیں پیچھے دھکیل سکتی ہیں لیکن میں یہ نہیں کہوں گا کہ یہ اس مرحلے میں ہمیں نقصان پہنچا رہی ہیں۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں